مریم
(محمد کلیم اللہ , Sargodha)
از قلم………مولانا محمد کلیم اللہ
حنفی
خدائے رحمان و رحیم کی رحمت بن کر میرے گھر میں پیدا ہونے والی دوسری بچی
کا نام ہے ۔ لاکھ شکر اور فضل ہے اس ذات کا جس نے مجھ جیسے” نالائق “ کو اس
عظیم نعمت سے سرفراز کیا ۔
مریم ………میری آہوں کا اثر ہے ، میری دعاؤں کا ثمر ہے ، میری آنکھوں کی
ٹھنڈک ہے ، میری لختِ جگر ہے ، میری شفقتوں اور محبتوں کا محور ہے اور میری
امیدوں کی کرن ہے ۔
راجز شاعر نے تو بیٹی کے بارے میں کہا تھا کہ
سميتها إذ ولدت تموت
والقبر صهر ضامن زميت
ترجمہ : میں نے اس نوزائیدہ لڑکی کا نام اس کی پیدائش کے وقت تموت (مر جائے
گی) رکھا اور قبر میرا داماد ہے، جس نے اسے اپنی بغل میں لے لیا اور اسے
خاموش کر دیا۔
لیکن میں تو قرآن کریم سے نیک فالی لینے لگا ہوں ۔کلام ربی میں ہے :
انی سمیتہا مریم ……………میں نے اس کا نام مریم رکھا ۔
چنانچہ میں بھی نیک تمناؤں اور امیدوں کے ساتھ بالکل انہی الفاظ کو دہراتا
ہوں ۔ انی سمیتہا مریم ……………میں نےاس )اپنی بیٹی( کا نام مریم رکھا ۔
مریم ……کا معنیٰ ہوتا ہے : عبادت گزار ۔یہ بات میرے لیے باعث افتخار ہے میں
اس کو اللہ کا بلند انعام سمجھتا ہوں اور اس بڑی نعمت سے کو خدا کی رحمت
سمجھ کر غلام ہونے کی حیثیت سےجہاں اپنے اللہ سے راضی ہوں وہاں پر پرسکون
بھی ہوں۔
مریم ……کے اہل خانہ اگر میری بات کو بغور دیکھیں گے تو ان کو یہ محسوس ہوگا
کہ میرے ذکر کردہ الفاظ میں اس کے ننھیال اور دھدیال کا تذکرہ بھی دَر آیا
ہے ۔
یادش بخیر !
مریم ……خدا کا دہرا انعام بن کر میرے آنگن میں اتری ، ماہ ربیع الاول کا
پہلا جمعۃ المبارک ،رات کے پچھلے پہر بوقت تہجد تقریباً سوا تین بجے بمطابق
26 دسمبر 2014 ء کو میرے گھرانے میں مبارک سعادت کی بولیاں سنائی دیں ۔
میری سماعتوں نے جب اس صدائے مسرت سے ملن کا یارا کیا تو میں ورطۂشکر میں
ڈوب گیا ۔خدا سلامت رکھے ۔
مسلم معاشرے میں مشرکانہ ذہنیت رواج پانے لگی ہے کہ بچیوں کو اپنے لیے باعث
عار سمجھا جانے لگا ہے ۔ عرب کے بدو، گنواراور اجڈ جو بیٹیوں کے پیدا ہوتے
ہی ان کو زمین کی تاریکیوں کے حوالے کر دیتے تھے ۔ جہلائے عرب کی فرسودہ
سوچ کی منظر کشی کرتے ہوئےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد فرماتے ہیں:
وقال ابن عباس : كانت المرأة في الجاهلية إذا حملت حفرت حفرة ، وتمخضت على
رأسها ، فإن ولدت جارية رمت بها في الحفرة ، وردت التراب عليها ، وإن ولدت
غلاما حبسته ۔
جب عورت کے وضع حمل کا وقت قریب آتا تو زمین میں گڑھا کھودکر اسے وہاں
بیٹھا دیا جاتا پھراگر نوزائیدہ لڑکی ہوتی تو اسے اس گڑھے میں پھینک دیا
جاتا اور اس پر مٹی ڈال دی جاتی اور اگر لڑکا ہوتا تو اسے زندہ چھوڑ دیا
جاتا ۔
اس قبیح اور مہلک رسم کے تناظر میں راجز کا شعر دوبارہ پڑھ لیجیے ۔ آپ کو
اس کی سنگینی کا اندازہ ہو جائے گا۔
آپ چشم تصور وا کیجیے میں آپ کو مکہ کے پہاڑ ابودلامہ کے دامن میں لیے چلتا
ہوں ۔ یہ دیکھیے کتنی معصوم معصوم بچیاں ہیں جن کی زبانوں سے بای ذنب قتلت
کی سسکیوں میں رندھی آوازیں سنائی دے رہی ہیں ۔ جرم ناکردہ کی سزا پانے
والی یہ بچیاں بھی آخر کسی نہ کسی کی ”بیٹیاں“ تھیں ۔
مشرکین عرب کی اس مجرمانہ کیفیت کو تاریخ نویسوں نے ان الفاظ میں محفوظ کیا
ہے : وئد البنات :أي دفنهن أحياءحيث كانوا في الجاهلية إذا رزق أحدهم بأنثى
ظل وجهه مسودا وقد قيل إنهم يقتلونهن خشية العار وبمكة جبل يقال له أبو
دلامة كانت قريش تئد فيه البنات ۔
بیٹیوں کو دفن کرنا جب وہ پیدا ہوں ۔ جہلائے عرب کو جب بیٹی کے پیدا ہونے
کی اطلاع ملتی تو اس کا چہرہ کالا سیاہ ہو جاتا ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ
عار کی وجہ سے ان بچیوں کو قتل کردیتے اور مکہ مکرمہ میں ایک پہاڑ جس کا
نام ابو دلامہ ہے قریشی لوگ اس پہاڑ کے دامن میں لڑکیوں کو دفن کرتے تھے ۔
تاریخ کے جھروکوں سے ایک حقیقت یہ بھی دیکھتے جائیے ، ایک صاحب رقم طراز
ہیں:”قبل از اسلام تو انسانیت کے دائرہ سے بھی خارج قرار دیا گیاتھا،
یونانیوں میں عورت کا وجود ناپاک اور شیطانی تصور کیا جاتا تھا۔ عورت فقط
خدمت اورنفسانی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ تھی۔ رومی لوگ عورت کو روح
انسانی سے خالی جانتے تھے وہ اسے قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے کے قابل
نہیں سمجھتے تھے۔ساسانی بادشاہوں کے زمانے میں عورت کا شمار اشیاء خرید و
فروخت میں ہوتا تھا، یہودیوں میں عورت کی گواہی نا قابل قبول تھی۔ زمانہ
جاہلیت کے عرب تو بیٹی کی پیدائش کو اپنے لئے موجب ننگ و عار جانتے
تھے۔ہندو اور پارسی ،عورت کو ہر خرابی کی جڑ ، فتنہ کی بنیاد اور حقیر ترین
چیز شمار کرتے تھے۔ چین کے فلسفی (کونفوشیوس) کا قول ہے عورت حکم و احکام
دینے کے قابل نہیں ہے ،عورت کو گھر میں بند رہنا چاہئے تاکہ لوگ اس کے شر
سے محفوظ رہیں۔قبل از اسلام جزیرہ نما عرب میں عورت زندہ رہنے کے قابل نہیں
سمجھی جاتی تھی۔ بیٹی کی پیدائش ننگ و عار اور فضیحت و شرمساری کا موجب تھی
۔ اسلام نے عورت کو وہ مقام دیا اور ایسی عظمت دی جس کا تصور کسی غیر مسلم
معاشرے میں ممکن نہیں ہے ۔“
عرب کے جہلاء تو پیدائش کے بعد گڑھے میں دفن کر دیتے تھے لیکن مغربیت زدہ،
فرنگی تہذیب سے متاثر ، احساس کمتری کی دلدل میں ڈوبا ہوااغیار سے مرعوب
ہمارا معاشرہ )بعض اشخاص مراد ہیں (تو بچی کی ماں کے رحم کو ہی اس کی قبر
بنا دیتے ہیں ۔
ان سے وہ لوگ بھی کچھ سمجھ دار نکلے جنہوں نے باوجود مسلمان نہ ہونے کے اس
رسم کو توڑا ۔ چنانچہ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ بی بی سی کی طرف سے ایک
خبر شائع ہوئی تھی، ملاحظہ فرمائیں :
” بھارت کی ریاست بہار سے ہو کر گزرنے والی نیشنل ہائی وے 31 پر تينٹگا
جانے والے راستے پر تقریباً چار کلو میٹر آگے بڑھیں تو ایک سائن بورڈ ملتا
ہے۔ اس پر لکھا ہے: ایک مشہور مثالی گاؤں” دھرہرا“ میں خوش آمدید۔
گاؤں کے بزرگوں نے یہ راستہ نکالا کہ بیٹی کا استقبال تو کیا جائے گا لیکن
اس کی نگہداشت، تعلیم اور جہیز کا خرچ حاصل کرنے کے لیے اس کی پیدائش کے
وقت پھل دار درخت لگائے جائیں۔“
جبکہ بعض لوگ بچیوں کے جسمانی قتل تو نہیں کرتے لیکن ان کے معاشرتی اور
روحانی قتل کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ انہیں اچھی تعلیم نہیں دیتے ، تربیت میں
کوتاہی کرتے ہیں ، پرفتن دور میں ”آزاد“ ماحول دیتے ہیں ، جو درحقیقت بچیوں
کو عزت ، حیاء ، پاکدامنی ، غیرت اور ادب و احترام سے ”آزاد“ کر دیتا ہے ۔
بعض بچیوں کے معاشی قاتل ہیں ۔ میراث اور دیگر معاملات میں انہیں یکسر نظر
انداز کر دیا جاتا ہے ۔
جب کہ اسلام کے احکام یہ ہیں کہ بچی کا نام عمدہ رکھا جائے ، تربیت میں
کوئی کسر نہ چھوڑی جائے ، عمدہ تعلیم سے آراستہ کیا جائے ، گھریلو کام کاج
کا خوگر بنایا جائے ، نسبت اچھی قائم کی جائے ، نکاح جلدی کیا جائے ، عزت و
احترام اور پیار و محبت سے اپنی اس ”مہمان“ کو الوداع کیا جائے ۔ ہر طرح سے
اس کا خیال رکھا جائے ۔
احادیث مبارکہ میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان جوں جوں بیٹی کی
تربیت کے مراحل پورے کر رہا ہوتا ہے توں توں وہ جنت کے محلات کے قریب تر ہو
رہا ہوتا ہے ۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا :جس نے 3 لڑکیوں کی پرورش کی ، ان کی اچھی تربیت کی ، ان سے
حسن سلوک کیا پھر ان کا نکاح کردیا تو اس کے لئے جنت واجب ہوگئی۔
(ابوداؤد(
اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سوال کرنے پر دو بچیوں کے
بارے میں بھی یہی خوشخبری اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی
ہے ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ محسن انسانیت صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس شخص کے یہاں بچی پیدا ہوئی اور اس نے جاہلیت کے طریقے پر زندہ درگور
نہیں کیا اور نہ اس کو حقیر و ذلیل سمجھا اور نہ لڑکوں کو اس کے مقابلے میں
ترجیح دی تو اللہ تعالیٰ اسی شخص کو جنت میں داخل فرمائے گا۔ (ابوداؤد(
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا :جس کسی نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں۔
انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے رحمت عالم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا تو میں اور وہ اس طرح جنت میں داخل ہوں گے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک مسکین عورت اپنی دو بیٹیاں
اٹھائے ہوئے میرے پاس آئی تو میں نے تین کھجوریں اسے کھانے کیلئے دیں۔ اس
نے ان دونوں کو ایک ایک کھجور دے دی اور باقی ایک کھجور اپنے منہ کی طرف
اٹھائی تاکہ اسے کھائے لیکن وہ بھی اس کی دونوں بیٹیوں نے کھانے کیلئے مانگ
لی۔ پس اس نے اس کھجور کے، جسے وہ کھانا چاہتی تھی، دو ٹکڑے کیے اور ان
دونوں بیٹوں کو دے دیے۔ مجھے اس کی یہ بات بہت اچھی لگی، پس اس نے جو کیا
تھا میں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ نے
فرمایا:یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی وجہ سے اس کے لیے جنت واجب
کردی یا (فرمایا) اسے جہنم کی آگ سے آزاد فرما دیا ہے۔
)صحیح مسلم (
ہمم ……پھر وہی ہوا ناں ۔ صفحات کا دامن تنگی کا شاکی بن کر بڑبڑانے لگا ہے
۔
مریم کی ابتداء نیک فالی سے کی تھی اور اس کا اختتام ایک دعا پر کرتے ہوئے
آیت مبارکہ کی بھی تکمیل کرتے ہیں ۔
انی اعیذھا بک و ذریتھا من الشیطٰن الرجیم
اے اللہ میں اس )مریم (کو اور اس کی )ان شاء اللہ ہونے والی (اولاد کو تیری
پناہ میں دیتا ہوں ۔ شیطان مردود سے ۔
اے اللہ تو میری اس دعا کو قبول حسن عطا فرما۔ آمین یارب العالمین |
|