دنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا مقابلہ جو آسٹریلیا اور نیوزی
لینڈ کی سر زمینوں پرمشترکہ طور پر منعقد ہو رہا ہے بس کچھ ہی دنوں کی دوری
پر ہے۔۔۔انڈیا ، انگلینڈ اور میزبان آسٹریلیا جنہیں بین الاقوامی کرکٹ میں
بگ تھری کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں تین ملکی سریزسے بھر پور تیاری میں
مصروف ہیں۔۔۔دوسری طرف نیوزی لینڈ میں سری لنکا نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور
ایک لمبی سریز سے تیاری کا صحیح حق ادا کر رہے ہیں۔۔۔ایک طرف جنوبی افریقہ
، ویسٹ انڈیز کہ ساتھ طبع آزمائی میں مصروف ہے۔۔۔یہ وہ بڑی ٹیمیں ہیں جو
ورلڈ کپ کی تیاری میں بھرپور طریقے سے مصروف ہیں۔۔۔یہ ساتوں ٹیمیں دنیائے
کرکٹ میں بہت اہم ہیں۔۔۔آٹھویں ٹیم شاہینوں کا ٹولا پاکستان کی ہے جو کھیل
کہ معاملے میں کسی سے کم نہیں ہے۔۔۔مگر کاغذ پر نام لکھے جائیں تو پاکستانی
ٹیم کہ پاس سوائے چند ایک کہ کوئی خاص نام نہیں ۔۔۔بدقسمتی سے پاکستان میں
بین الاقوامی کرکٹ پر گزشتہ چھ سالوں سے پابندی لگی ہوئی ہے یا کوئی بھی
ٹیم پاکستان میں کھیلنے کو تیار نہیں ہے۔۔۔پاکستان اپنی ہوم سریز متحدہ عرب
امارات میں کھیل رہا ہے۔۔۔پاکستان کرکٹ اور بورڈ کواس بے تحاشہ نقصاں پہنچ
رہا ہے وہی پاکستانی قوم بھی بین الاقوامی مقابلے دیکھنے سے محروم ہے۔۔۔
کرکٹ کی دنیا میں جنوبی ایشاء کہ لوگ بہت زیادہ جذباتی ہیں۔۔۔اس خطے میں
پاکستان ، انڈیا ، سری لنکابشمول بنگلادیش تمام ممالک کہ لوگ کرکٹ کو جنون
کی حد تک پسند کرتے ہیں۔۔۔پاکستان نے عمران خان کی قیادت میں 1992 ء کا
عالمی کپ اپنے نام کیا اور دنیائے کرکٹ میں اپنی دھاک بٹھائی۔۔۔92 ء کا
عالمی کپ بھی آسٹریلیااور نیوزی لینڈ کی سرزمینوں پر منعقد ہوا تھا۔۔۔یہ
پہلا موقع تھا جب پورا ٹورنامنٹ لیگ کی بنیاد پر کھیلا گیایعنی ہر ٹیم ایک
دوسرے سے کے مدِ مقابل آئی۔۔۔پاکستان کہ میچوں کی صورتحال کچھ اس طرح سے
رہی۔۔۔
میچ نمبر ا: 23 فروری کو پاکستان کا پہلا مقابلہ ویسٹ انڈیز سے
ہوا۔۔۔پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں 221 رنز کا
بنائے جس میں رمیز راجہ کی سینچری بھی شامل تھی انہوں نے 158 گیندوں پر 102
رنز کی ناٹ آؤٹ باری کھیلی۔۔۔جاوید میانداد نے 57رنز کی باری کھیلی۔۔۔ویسٹ
انڈیز نے مقررہ حدف بغیر کسی نقصان کہ 47 اوورز میں حاصل کرلیا ۔۔۔اس طرح
پاکستان کا آغاز اچھا نہ ہوا۔۔۔
میچ نمبر ۲: 27 فروری کو پاکستان کا مقابلہ زمبابوے سے ہوا۔۔۔پاکستان نے
254 رنز مقررہ 50 اوورز میں بنائے۔۔۔پاکستانی اوپنر عامر سہیل نے 136
گیندوں کا سامنا کیا اور114 رنز کی باری کھیلی۔۔۔جاوید میانداد نے 89 رنز
بنا کر نمایاں کردارادا کیا ۔۔۔پاکستان یہ میچ 53 رنز سے جیتا اور عالمی کپ
کی جانب پیش قدمی شروع کی۔۔۔
میچ نمبر ۳: یکم مارچ کو پاکستان کا سامنا انگلینڈ کی ٹیم سے ہوا۔۔۔پاکستان
نے تاریخی کارنامہ انجام دیتے ہوئے 74 رنز کا قلیل حدف اپنے حریف کیلئے
متعین کیا۔۔۔مگر قدرت کی مہربانی ، بارش نے میچ مکمل نہ ہونے دیا ۔۔۔جسکی
وجہ سے دونو ں ٹیموں کو ایک ، ایک پوائنٹس سے نوازا گیا۔۔۔اس میچ میں عمران
خان ان فٹ ہونے کہ باعث شرکت نہیں کرسکے تھے۔۔۔اسی میچ کی بدولت پاکستان نے
سیمی فائنل کے لئے کولیفائی کیا۔۔۔
میچ نمبر ۴: 4 مارچ کو پاکستان کا مقابلہ راویتی حریف بھارت سے
ہوا۔۔۔پاکستان گزشتہ چار عالمی کپ کے مقابلوں میں کبھی بھی انڈیا کو شکست
نہیں دے سکاتھا۔۔۔اب کی بار پاکستان کو جیتنے کیلئے 217 رنز کا حدف
ملا۔۔۔پاکستانی بلے باز سوائے عامر سہیل اور جاوید میانداد کہ جنہوں نے
بلترتیب62 اور40 رنز اسکور کئے ، جم کر بھارتی بولروں کا مقابلہ نہ کرسکے
اور 173 رنز کہ مجموعے پر ڈھیر ہوگئے۔۔۔
میچ نمبر ۵: 8 مارچ کو پاکستان کا سامنا عالمی کرکٹ میں عرصہ درازسے دور
رہنے والی جنوبی افریقہ کی ٹیم سے ہوا۔۔۔جنوبی افریقہ نے 211 رنز کا حدف طے
کیا۔۔۔جو بظاہر کوئی خاص نہیں دکھائی دیتا تھا۔۔۔مگر اس بار قدرت جنوبی
افریقہ پر مہربان ہوئی اور مطلوبہ حدف دوبارہ طے کیا گیا۔۔۔جو پاکستانی بلے
بازوں سے عبور نہ ہوسکا اور انہیں شکست کا سامنا دیکھنا پڑا۔۔۔اس میچ میں
جاوید میانداد نہیں کھیل سکے تھے۔۔۔
میچ نمبر ۶: 11 مارچ پاکستان کا سامنا آسٹریلیا سے ہوا۔۔۔جو میزبان ہونے کہ
ساتھ ساتھ ایک مضبوط ٹیم تھی۔۔۔پاکستان کی طرف سے ایک بار پھر عامر سہیل نے
76 اور جاوید میانداد نے 46 رنز کی باری کھیلی ۔۔۔پاکستان نے آسٹریلیا جیسی
ٹیم کیلئے 221 رنز کا حدف سیٹ کیا۔۔۔ بظاہر مختصر نظر آنے والے ٹارگٹ کو
پاکستانی بولرز نے جن میں عمران خان، وسیم اکرام، عاقب جاوید اورمشتاق احمد
شامل تھے ، کوہ ہمالیہ بنا دیا۔۔۔آسٹریلیا کی ٹیم 172 پر ڈھیر ہوگئی ۔۔۔یہ
پاکستان کی بڑی فتح تھی ۔۔۔
میچ نمبر ۷: 15 مارچ اب ٹکراؤ تھا سری لنکا کی ٹیم سے۔۔۔سری لنکا نے 212
رنز کا حدف دیا ۔۔۔جو پاکستان نے جاوید میانداد کے 57 اور سلیم ملک کے51
رنز کی بدولت باآسانی عبور کر لیا۔۔۔
میچ نمبر ۸: 18مارچ پاکستان کو سامنا تھا اس ٹیم کا جوابھی تک اپنے راستے
کی ہر دیوار گراتی جارہی تھی اور عالمی کپ کی جانب تیزاور یقینی پیش قدمی
کررہی تھی۔۔۔پاکستانی شاہینوں نے کیویز(نیوزی لینڈ)کو دبوچ لیا۔۔۔وسیم اکرم
کی جادوگری سر چڑھ کر بولی انہوں نے دوسرے بولروں کے ساتھ مل کر صرف 166 پر
نیوزی لینڈ کی پوری ٹیم کو ڈریسنگ روم کی راہ دیکھائی۔۔۔رمیز راجہ ایک بار
پھر 119 رنز کی باری کھیلی ان کے ساتھ جاوید میانداد 30 رنز کے ساتھ نمایاں
رہے۔۔۔
تمام ٹیموں کے آپسی مقابلے مکمل ہوئے۔۔۔ اس کے ساتھ ہی 1992 ء کہ عالمی کپ
کی جانب پیشقدمی کرنے والی 9 ٹیموں میں سے 5 کو اپنے گھر جانے کی اجازت مل
گئی جن میں بھارت، زمبابوے، سری لنکا، ویسٹ انڈیز اور میزبان
آسٹریلیا۔۔۔نیوزی لینڈ ، انگلینڈ، جنوبی افریقہ اور پاکستان پوانٹس ٹیبل کی
بنیاد پر سیمی فائنل کیلئے اہل قرار پائیں۔۔۔
مندرجہ بالا ٹیبل پورے عالمی کپ کے لیگ مقابلوں کا احوال پیش کررہا ہے۔۔۔
|
|
21 مارچ عالمی کپ کا پہلا سیمی فائنل پاکستان کا مقابلہ زخم خوردہ کیویز
ہونے جارہا تھا۔۔۔پاکستان لیگ میچ میں ہرانے کہ بعد کافی پر اعتماد لگ رہا
تھا۔۔۔نیوزی لینڈ نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے 262 رنز کا بھاری بھرکم بوجھ
پاکستانی بلے بازوں کی آزمائش کے لئے دیا۔۔۔مارٹن کرو 91 اوررادرفورڈ 50
رنز کے ساتھ نمایاں رہے۔۔۔پاکستان کی جانب سے پورے ٹورنامنٹ میں پہلی
بارٹیم ورک نظر آیا۔۔۔رمیز راجہ اور کپتان عمران خان نے 44کا ہندسا اپنے
نام کے ساتھ جوڑا۔۔۔جاوید میانداد 57 اور میچ وننگ باری کھیلنے والے انضمام
الحق نے 60 رنز جوڑے۔۔۔معین خان کا آخری چھکا جو انہوں نے ہیرس کو
جڑا۔۔۔پاکستان نے یہ مشکل نظر آنے والا حدف ایک بہترین ٹیم ورک کی بدولت
باآسانی عبور کرلیااور میچ ایک اوور پہلے ہی ختم کردیا۔۔۔پاکستان نے عالمی
کپ مقابلوں میں پہلی بار فائنل تک رسائی حاصل کی۔۔۔دوسرے سیمی فائنل میں
جنوبی افریقہ کو عجیب و غریب طریقے سے انگلینڈ کے کم دراصل موسم کے ہاتھوں
شکست کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔
عالمی کپ 1992کا فائنل 25 مارچ کو آسٹریلیا کہ شہر میلبورن میں کھیلا
گیا۔۔۔کرکٹ کہ میدانوں میں میلبورن کرکٹ اسٹیڈیم کا شمار اول درجے کہ
میدانوں میں ہوتا ہے۔۔۔پاکستان نے پہلے بلے بازی شروع کی ۔۔۔رمیز راجہ اور
عامر سہیل نے جلد ہی ڈریسنگ روم کی راہ لی۔۔۔عمران خان نے بھاری ذمہ داری
اپنے کاندھوں پر سنبھالی اور انکا بھرپور ساتھ جاوید میانداد نے دیا ۔۔۔دونوں
نے بلترتیب 72 اور58 رنز کی باری کھیلی۔۔۔انضمام جو سیمی فائنل کہ ہیرو بھی
تھے وسیم اکرم کہ ساتھ مل کر برق رفتاری سے اسکور بڑھایا ۔۔۔دونوں
بلترتیب42 اور33 رنزبنائے اور پاکستان کے حدف کو 249 تک پہنچایا۔۔۔انگلینڈ
کے باؤلر وں نے پاکستانی بلے بازوں کا جو حشر لیگ میچ میں کیا تھا دوہرا نہ
سکے۔۔۔انگلینڈ نے بلے بازی شروع کی ۔۔۔پاکستانی باولر اپنی بھرپور فارم میں
آچکے تھے۔۔۔گاہے بگاہے انگلینڈ کی وکٹیں گرتی رہیں۔۔۔مگر نیل فیےر برادر
اور لیمب کی شراکت نے مزاحمت شروع کی ۔۔۔مگر وسیم اکرم کی دو معجزاتی
گیندوں نے کھیل کا پانسہ پلٹ دیا۔۔۔انگلینڈ کی گرتی ہی دیوار کو گرا
دیا۔۔۔آخری وکٹ: کپتان عمران خان نے گیند کرائی النگورتھ نے مڈ آف پر اونچا
کھیلا رمیز راجہ نے اس گیند کو زمین پر نہیں گرنے دیا اور اپنے ہاتھوں میں
دبوچتے ہی سجدہ شکر ادا کیا ۔۔۔پاکستان نے دنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا
ٹورنامنٹ جیت لیا۔۔۔پاکستان ورلڈ چیمپین بن گیا ۔۔۔رنگین برنگے لباس، سفید
گیند اور برقی قمقموں میں کھیلا جانے والا یہ پہلا عالمی کپ تھا۔۔۔ہرے
کپڑوں میں ملبوس پاکستانی کھلاڑی ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔۔۔دنیا
جہان میں بسنے والے پاکستانی ، اس جشن میں انکے ساتھ تھے۔۔۔عمران خان کا
خواب سچ ہوا۔۔۔
آج پھر پاکستان کم و بیش اسی طرح کی ٹیم ہے۔۔۔مشترک بھی کچھ کچھ جیسے ۔۔۔عمران
خان کی جگہ مصباح الحق ہے دونوں میانوالی سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔جاوید
میانداد کی جگہ یونس خان ہے دونوں کو عالمی کپ کی ٹیم میں آخیر میں شامل
کیا گیا ۔۔۔وسیم اکرم کی جگہ عرفان ہے دونوں الٹے ہاتھ سے گیند کراتے ہیں
اور دونو ں خطر ناک گیندباز ہیں۔۔۔مشتاق احمد اور اقبال سکندر کی جگہ شاہد
آفریدی اور یاسر شاہ ہیں دو لیگ اسپنرز(مشتاق احمد بطور کوچ ابھی بھی ٹیم
کہ ساتھ ہیں جسکی بدولت یقینا پاکستانی کھلاڑیوں کو کافی فائدہ پہنچے گا)۔۔۔انضمام
الحق کی جگہ صہیب مقصود ہے دونوں کا تعلق ملتان سے ہے۔۔۔معین خان کی جگہ
سرفراز ہے دونوں میں کراچی مشترک ہے دوسرے یہ کہ دونوں کا سوئپ شاٹ بہت
مشہور ہے۔۔۔اب یہ اتفاق ہے یا جو کچھ بھی ہے ہم امید کرتے ہیں اور اپنے
اپنے ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے رہینگے کہ ایسے حالات میں جب پاکستان عمومی
صورتحال ابتری کی جانب جا رہی ہے۔۔۔پاکستان ایک بار پھرعالمی کپ اپنے نام
کر کہ تاریخ رقم کرے گااور دنیا کو بتائے ہم کھیلوں اور امن سے محبت کرنے
والے لوگ ہیں۔۔۔
پاکستان عالمی کپ جیتے(انشاء اﷲ) اور بین الاقوامی کرکٹ کونسل سے یہ بھی
منوائے کہ اب پاکستان میں بین الاقوامی مقابلے بحال کئے جائیں۔۔۔تمام ٹیموں
کو دعوت دے کہ آئیں اور دیکھیں پاکستان ویسا نہیں ہے ۔۔۔جیسا انہیں خبروں
کہ ذریعے دیکھایا جاتا ہے۔۔۔
خصوصی نوٹ:معلوما ت کا ذریعہ ۔ وکی پیڈیا اور کرک انفو
|