اس ملک میں صرف ایک کام ہوتا ہے اور وہ ہے سیاست ۔۔۔
سیاست بھی ایسی گھٹیا کہ بتانا مناسب نہیں۔ اسلام کے نام پر بننے والا ملک
سیاست کی آماجگاہ بن چکا ہے جہاں اگر کوئی شخص کامیاب ہے تو وہ ہے سیاست
دان باقی سب ناکام ہیں۔ سیاست کا کاروبار کبھی ٹھنڈا نہیں ہوتا اور کوئی
دوسرا کاروبار کبھی چلتا نہیں۔ حکومت کہیں بھی کوئی پیسہ لگائے تو اُس کے
پیشِ نظر سیاسی مفاد ہی ہوتا ہے مگر دنیا کو دکھانے کے لیے اُسے قومی مفاد
کا نام دیا جاتا ہے جہاں پیسہ لگانے سے اُن کی جماعت مضبوط نہیں ہوتی وہاں
لوگ چاہے بھوکے مر جائیں یا اپنا آپ بیچ ڈالیں حکومت کو اس سے کوئی فرق
نہیں پڑھتا۔
میری اس تمہید کے پسِ منظر میں کچھ واقعات ہیں۔ قارئین! کھلاڑی کس بھی ملک
و قوم کا وقار ہوتے ہیں جو اپنی جان لڑا کر دیارِ غیر میں ملک کا پرچم بلند
کرتے ہیں، وہ دن رات محنت کرتے ہیں، اپنا خون پسینہ کام میں لگا دیتے ہیں
پھر جاکر اُن کی محنت رنگ لاتی ہے اور دنیا کسی ملک کو پہچان پاتی ہے۔ اس
میں کوئی شک نہیں کہ اس دھرتی نے کھیل کے میدان میں دنیا کو ایسے ایسے سپوت
دئیے ہیں کہ لوگ آج بھی اُن پر فخر کرتے ہیں۔ مگر ناکام حکومتوں کے ہاتھوں
جیسے دوسرے محکموں کا بیڑہ غرق ہوا کھیل کا حال بھی کم و بیش ویسا ہی ہے۔
ابھی کچھ ہی دن گزرے ہیں کہ ہماری ہاکی ٹیم چیمپئین ٹرافی میں سلور میڈل
جیت کر آئی ہے مگر اُنہوں نے اپنے ساتھ روا ناروا سلوک کی جو داستان سنائی
ہے وہ کچھ یوں ہے:
"ہمیں حکومت کی طرف سے کوئی فنڈ نہیں مل رہا ۔۔۔۔۔۔ اس ملک کے کچھ لوگوں نے
ہماری امداد کی جس کے باعث ہمارے پاس کچھ پیسہ ہوا اورہم چیمپئین ٹرافی
کھیلنے کے لیے چلے گئے ۔۔۔۔۔۔۔ اب بیرون ملک یورپی دنیا ایک طرف ایشیا کے
ملکوں میں سے کوئی عام سا ملک بھی ہمارے ساتھ پریکٹس میچ کھیلنے کو تیار
نہیں ۔۔۔۔۔۔ جس کی صرف ایک وجہ ہے کہ ہماری فیڈریشن کے پاس پیسے نہیں اور
ہم بین الاقوامی میچ نہیں کھیلنے جاتے جس کے باعث دنیا ہمیں ۔۔۔۔۔ ایک
تیسرے درجے کی ٹیم سمجھتی ہے"۔
یہ ایک کھلاڑی کے تاثرات تھے۔ اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں پتا چلتا
ہے کہ پاکستان ہاکی چار بار ورلڈ کپ جیت چکی ہے اور اگر ہم کرکٹ کی تاریخ
پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں صرف ایک ورلڈ کپ اپنی جھولی میں نظر آتا ہے۔ مگر
فنڈز کی تقسیم کو دیکھیں تو ہمیں کرکٹ سب کھیلوں کا باپ بنا نظر آتا ہے جس
کو حکومت سب سے زیادہ فنڈز دیتی ہے۔ مجھے یہ بُرا نہیں لگتا کہ آپ کرکٹ کو
کیوں پیسے دے رہے ہیں مجھے بُرا یہ لگتا ہے کہ باقی کھیلوں کا کیا قصور ہے
اُن کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کیوں کیا جارہا ہے؟
اُسے کچھ ساتھیوں نے مل کر کچھ پیسے دیئے کہ تم جاؤ اور ملک کے لیے کھیلو
اور وہ اس میدان میں کود پڑا اُس کے سر پر خود کو منوانے اور ملک کا جھنڈا
اونچا لہرانے کا بھوت سوار تھا اور پھر وہی ہوا وہ امداد کے پیسوں سے
بیرونِ ملک جاکر کھیلنے والا کھلاڑی سنوکر کا ورلڈ کپ جیت لایا یہ وہی شخص
ہے جناب ! جسے آپ محمد آصف کے نام سے جانتے ہیں۔
یہ تو ابھی کل کی بات ہے اس کا تو آپ کو با خوبی علم ہوگا وہ چند بچے جو
لیاری کی گلیوں سے اُٹھے تھے وہ جنہیں کوئی کسی کھاتے میں نہیں ڈالتا تھا
وہ پاکستان کے لیے میڈل جیت لائے۔
ان جیسے ہزاروں شہکار گلی محلوں میں ضائع ہو رہے ہیں صرف اس وجہ سے کے اُن
کو پاس وسائل نہیں ہیں اور ہماری حکومت تو پہلے ہی بھوکی ننگی ہے اُس تو کا
ذکر کرنا ہی بیکارہے۔
بیڈمنٹن، فٹبال، ہاکی، ٹینس، سنوکر، سکوائش اور ان جیسی کئی دوسری فیڈریشنز
صرف اور صرف کرپٹ انتظامیہ اور نااہل حکومت کی وجہ سے معدوم ہوتی جارہی ہیں
اور پاکستان کے کھلاڑی عالمی صفوں سے غائب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں وہ لوگ
جو ملک و قوم کے لیے جھولیوں عزت سمیٹ کرلاتے تھے اب نظر نہیں آتے۔ میری
حکومتِ وقت سے التجا ہے کہ خدارا ان کا بھی خیال رکھیں یہ بھی ہمارا سرمایہ
ہیں اور قیمتی سرمایہ ہیں جس کی ہمیں قدر کرنی چاہیے۔ |