ترکی میں اسلامائزیشن میں
روزبروز ترقی کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ترکی کا امام خطیب سکول سسٹم بھی
ہے ۔ مصطفی کمال اتاترک نے خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد ترکی میں اس قدر
اسلام مخالف مذموم کارنامے سرانجام دیئے جوتاریخ اسلام میں ایک سیاہ باب کے
طور پر یاد کئے جاتے ہیں ۔سقوط خلافت کے بعد اتاترک نے ترکی او رترک معاشرہ
کو یورپ کے رنگ میں رنگنے کے لئے سب سے پہلے ان تمام چیزوں کو ختم کیا جن
کا تعلق دین اسلام سے قران وحدیث سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تھا ۔چنانچہ سب
سے پہلے ترکی کے آئین کو یکسر تبدیل کرکے اسے سیکولر بنایا گیا۔ اس کے یکے
بعد دیگرے مسجد وں کو تالے لگوانا،مسجد آیا صوفیا کو میوزیم میں تبدیل کرنا
،آذان پر پابندی لگانا،پوری ترکی سے مدارس ومکاتب کو بند کروانا ، ترکی رسم
الخط جو کہ عربی کے ساتھ مشابہت رکھتاتھا کو مکمل رومن انگلش کے ساتھ تبدیل
کروانا، ملک کے آئین اور قانون کو سوفیصد سیکولر بناناجیسے سیاہ کارنامے
قابل ذکرہیں۔
مصطفی کمال اتاترک کے سیکولرازم کے اثرات نے پورے ترکی کو اپنی لپیٹ میں لے
رکھا تھا ۔ جس کا اندازا اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ پون صدی کا ایک طویل
عرصہ بیت جانے اور اس عرصہ میں کئی محبان اسلام حکومتوں ، علماء،شیوخ
تصوف،اور مختلف اسلام پسند تنظیموں کی انتھک محنت وکاوش کے باجود اس کے
گاڑھے گئے سیکولرازم کے اثرات ابھی تک موجودہ ترکی میں کسی درجہ باقی ہیں ۔
ایسے حالا ت میں کلمہ اسلام اور اس کی د عوت کو باقی رکھنا ایک بہت ہی عظیم
کام تھا۔
ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب ایردوان کی حکومت جوگزشتہ دس بارہ سال سے برسر
اقتدار ہے کہ دور میں ترکی ایک مرتبہ پھر خلافت عثمانیہ کی نشاۃ ثانیہ کی
طرف گامزن دکھائی دے رہاہے ۔ بالخصوص ایردوان حکومت کا اسرائیل کے حوالہ سے
موقف کے بعد امت مسلمہ کے تجزیہ نگارطیب ایردوان کو امت مسلمہ کا حقیقی
معنی میں امام وپیشوا کہنے کو حق بجانب سمجھتے ہیں ۔
بات ہماری چلی تھی ترکی میں امام خطیب سکولوں کے قیام کے حوالہ سے تو ترکی
میں امام خطیب سکو ل کی ضرور ت اس لئے پیش آئی کہ اتاترک نے بام اقتدار
سنبھالتے ہی پورے ترکی سے تمام مدارس دینیہ کو فوری طور پر بندکروادیا
تھا۔علما ء کو جیل خانوں میں اور کچھ کو ملک بدر کردیا ۔ البتہ اسی
سیکولرازم کے زمانہ میں ہی کچھ عظیم شخصیات انفرادی طورپر درس
وتدریس،امربالمعروف کافریضۃ خفیہ طور پرادا کرتے رہے ۔ ان داعیان میں سے
استنبو ل فاتح چہارشنبہ میں اسماعیل آغا کے شیخ المشائخ جناب شیخ محمود
آفندی عوفی قدس سرہ کا نام سرفہرست ہے ۔اس کے علاوہ بدیع الزمان سعید نورسی
کی تحریک رسالہ نور کے عنوان سے بھی ایک نمایا ں نام ہے ۔ ترکی میں اسی
صورت حال کے ساتھ کئی سال گزرگئے تھے ۔ چونکہ اس سرزمین پرتقریباساڑھے چھے
سوسال تک خلافت عثمانیہ کے قیام کے اثرات ،اور اور داعیان اسلام کی انفرادی
محنتوں وکاوشوں کے نتیجہ میں سوسائٹی میں اسلام کے ساتھ قلبی لگاؤ کی ہلکی
سی رمق باقی تھی۔ جس کی وجہ سے ہر آنے والے وقت میں اسلام کو کسی درجہ میں
پڑھنا اور پڑھانا ہر نئی حکومت کو سوسائٹی کیلئے بنیادی فرائض شمار کئے
جاتے تھے ۔ امام خطیب سکول کے قیام کے وقت ان سیکولر لابی کے عزائم فاسدہ
یہ تھے کہ ترکی کا مذہبی ذہن رکھنے والے طبقہ کی نسل نو انہی سکولوں میں
تعلیم حاصل کرے تاکہ یہ آگے حکومت کی مین سٹریم لائن میں نہ آسکیں ۔ چنانچہ۱۹۲۴
میں ترک گرینڈ نیشنل اسمبلی میں توحیدی تدریسات کے نا م سے ایک قانون پاس
کروایا جاتاہے ۔جس قانون کی روشنی میں امام خطیب مکتب کی ابتدا کی جاتی ہے
۔ ۱۹۳۰ تک یہ امام خطیب مکتب چلتے رہے لیکن معیا ر نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ
کا رجحان ان کی طرف خاطر خواہ نہ ہوسکا جس کی وجہ سے۱۹۳۰ میں یہ مکاتب بند
کردیئے گئے ۔ تقریبا ۲۰ سال تک یہ مکاتب بندرہے ۔
اس کے بعد ۱۰ اکتومبر ۱۹۵۱سے دوبارہ نئے سرے سے ان کا آغاز امام خطیب سکول
کے نام سے کیا گیا ۔۱۹۷۰تک یہ سکول مڈل لیول تک چلتے رہے۔اور ۷۰کی دہائی
میں ہی انہیں باقاعدہ سے سرکاری تحویل میں لے لیا گیا ۔اس کے بعد ان سکولز
کو مزید ترقی دیتے ہوئے کالج کا درجہ دے دیا گیا ۔شروع شروع میں کالج سے
فارغ ہونے والے طلباء کو یونیورسٹی میں ایڈمیشن کیلئے کافی مشکلات کاسامنا
کرناپڑتا رہا ۔اس لئے کہ یونیورسٹی گرانٹس آف کمیشن کے ہاں امام خطیب سکول
کی ڈگری قابل قبول نہ تھی ۔ جیساکہ پاکستان میں دینی مدارس کے طلبا ء کو
یونیورسٹی میں ایڈمیشن کیلئے مشکلات کا سامناکرناپڑتارہاہے ۔ لیکن ۸۰ کی
دہائی میں امام خطیب سکول کے طلباء کی یہ مشکل بھی ختم کردی گئی ۔ اس کے
بعد سے طلباء تاحال یونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں ایڈمیشن لے رہے ہیں البتہ
یونیورسٹیزمیں ایڈمیشن کے لئے ان سکولزکے رزلٹ اور ڈگری ویلیوقدرے کم ہوتی
ہے ۔
۹۰۔کی دہائی کے بعد ان سکولوں کومزیدمضبوط اورمربوط بنایا گیا اور بالخصوص
ترکی کی موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ان سکولوں کی تعلیم
وتربیت کوانٹرنیشنل لیول کا بنادیا گیا ۔اس وقت پوری دنیا سے شائقین علم
ترکی کے ان سکولوں میں تعلیم حاصل رہے ہیں ۔پاکستان سے گزشتہ چند سالوں سے
خبیب فاؤنڈیشن کے زیر اہتما م مختلف کالجز کے ہونہاربچے ترکی امام خطیب
سکولوں میں تعلیم کے لئے بھجوائے جارہے ہیں اس وقت پاکستانی پچاس سے زائد
بچے ایسے ہیں جو ترکی امام خطیب سکول میں سوفیصد فری تعلیم حاصل کررہے ہیں
۔ اور ہرسال ترک حکومت ہونہار طلباء کو سکالر شب دیتی ہے ۔ انہیں ترک
معاشرہ کی دینی حمیت کو بیدار کرنے ، مستقبل قریب یابعید میں ان سکولوں سے
فارغ ہونے والے طلباکو ترکی کی مساجد میں امامت وخطابت کے فرائض سرانجام
دینے کے عزائم وارادے سے چلائے جانے لگا۔اسی ضرورت کومدنظر رکھتے ہوئے ان
سکو لوں کا نصاب مرتب کیا گیا ۔جو کہ ابتدا میں تقریبا نوے فیصد دینی
مضامین پر مشتمل تھا جس میں قران ،حدیث ،فقہ سیرت،تاریخ ،عربی وغیرہ شامل
تھیں ۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اور ترکی کے بدلتے حالات کے پیش نظر اس کے
نصاب میں تبدیلیاں بھی کی جاتی رہیں۔ نصاب میں تبدیلی کرتے ہوئے دینی تعلیم
کے پورشن کو بھی کم کیاجاتارہاہے ۔ اب موجود ہ صورت حال میں تقریبا چالیس
فیصد دینی علوم اور ساٹھ فیصد عصری علوم شامل نصاب ہیں۔ چونکہ ا ن سکولز کا
قیام ترکی میں دینی ضرور ت کوکسی حد تک پورا کرنے کی غرض سے بھی تھا اور یہ
سکولزمدارس دینیہ کے قائم مقام بھی کام کررہے تھے اس وجہ سے بسااوقات
سیکولر طبقہ کی سازشوں سے ان سکولوں کو مشکلات کا سامنابھی کرنا پڑا ۔
اس وقت یہ سکول تین تعلیمی مراحل میں کام کررہے ہیں ۔پہلامرحلہ پرائمری
لیول او ردوسرا مڈل او رتیسرا کالج لیول کاہے ۔ آٹھویں کلاس سے بارہویں کلا
س تک کو کالج کا مرحلہ کہاجاتاہے۔جو طلباء کالج کے بعد یونیورسٹی کی الہیات
فکیلٹی میں جا کر مستقبل میں امامت و خطابت کی فیلڈ میں جانے کا ارادہ
رکھتے ہوں تو وہ آٹھویں کے بعد کالج کے دورانیہ میں نصاب میں دینی مضامین
کی مقدارزیادہ رکھتے ہیں ۔ اور جنہوں نے دیگر فیلڈ میڈیکل ،انجنیئرنگ وغیرہ
میں جانا ہوتاہے تو وہ اسی حساب سے اپنے مضامین رکھواتے ہیں ۔گویا کہ
آٹھویں تک تمام طرح کے طلبا اکٹھے ایک طرح کا نصاب پڑھتے ہیں ۔جس کا نتیجہ
یہ ہوتاہے کہ کسی بھی شعبہ سے کوئی تعلق رکھنے والا ہواسے قران وحدیث کی
بیسک نالج ضرور ہوتی ہے ۔
قران کریم تلاوت اچھے انداز میں کرنے کی صلاحیت ہرخاص وعام میں بہترین درجہ
کی ہوتی ہے ۔ترکی کے موجودہ صدر جناب طیب ایردووان اسی امام خطیب سکول سے
فارغ التحصیل ہیں ۔ ترکی میں اس وقت بیس ہزار سے زائدایسی مساجد ہیں جو
وزارت مذہبی امور کے زیراہتمام چل رہی ہیں ان کے ساٹھ ہزار کے لگ بھگ ائمہ
وخطبا انہی سکولز اور یونیورسٹی کی الہیات فیکیلٹی سے فارغ التحصیل
ہیں۔ترکی کی وزارت دیانت ائمہ وخطبا ء انہی یونیورسٹی کی الہیات فکیلٹی سے
ڈگری لینے والوں کو ترجیح دیتی ہے ۔
ایک ریسرچ کے مطابق اس وقت ترکی میں ۳۰۰۰۰ امام خطیب سکول قائم ہیں ۔جن میں
لاکھوں بچے زیر تعلیم ہیں ۔
وزیرمذہبی امورپاکستان جناب سردار یوسف نے چند د ن قبل ترک ہم منصب وزیر کے
دورہ پاکستان کے دوران پاکستان میں بھی امام خطیب سکول شروع کرنے کی نیک
خواہشات کا اظہار کیا ہے ۔تاہم ہم اس خیر کی عملی تعبیر کے لئے دعاگوہیں۔
لیکن ساتھ ہی اس چیز کوبھی مدنظر رکھنا ضروری ہیکہ ترکی میں امام خطیب
سکولز کے قیام کی اغراض تو اتاترک کے سیکولرازم کے بعد اسلام کی تعلیم
وتربیت تھی لیکن یہاں تو ایساکوئی سیکولرازم نہیں آیا ۔جس کے نتیجہ میں
اسلام کے حوالہ سے اس قدر ضرورت ہوجس قد ر ترک معاشرہ کو تھی ۔بہرکیف حکومت
اگر اس سکول سسٹم کو پاکستان میں لانے اورکامیا ب بنانے پر سنجیدگی رکھتی
ہے تو اسے چاہییے کہ پاکستان میں موجود دینی اداروں کے بورڈز او روفاق کے
ذمہ داروں کے ساتھ اس سکول سسٹم پر تفصیلی مشاورت کرے تاکہ سوسائٹی میں اس
سکول سسٹم کو خاطر خواہ کامیا بی مل سکے ۔ میں یہ نہیں سمجھتا کہ اس ملک
عزیز میں موجود دینی سسٹم کے مقابلہ میں کوئی او رنیا سسٹم خاطرخواہ
کامیابی حاصل کر سکے ۔ جیسا کہ مشرف صاحب نے اس سسٹم کے مقابلہ میں اپنی
پوری حکومتی مشینری کے باوجود صرف تین برائے نام ماڈل دینی مدارس قائم کیے
جن کا اس وقت کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔
البتہ باہمی مشاور ت او رتعاون سے ایک بہتر کامیابی کی توقع کی جاسکتی ہے ۔
اس کالم کی وساطت سے مدارس بورڈزکے کے جملہ ذمہ داران کی خدمت میں بھی
گزارش ہے کہ اس سسٹم کو پاکستان لانے کے حوالہ سے حکومت کو اپنی قیمتی آراء
دیں ۔
اور اپنے برادرملک،حقیقی معنی میں پاکستان کا خیرخواہ ملک کے سالہاسال کے
مجربہ تعلیمی نظام کو اپنے ہاں باعزت جگہ دلوانے میںاپنے اپنے حصہ کا کام
اور کردار اداکریں ۔ |