دنیا کے تمام مذاہب کی اور
فلسفوں کی بنیاد اس نظریے پر رکھی گئی ہے کہ حیات میں تسلسل ہے ۔یعنی ایک
زندگی کے بعد دوسری زندگی موجود ہے ۔انسان پیدا تو ہوتا ہے لیکن مرتا نہیں
بلکہ جب یہ جسم خاکی بیکار یا فنا ہو جاتاہے تو حیات جسم لطیف میں منتقل ہو
جا تی ہے اور اپنے اعمال کے مطابق اپنا مقام حاصل کرتی ہے ۔
ایک بچہ جب تک ماں کے پیٹ میں ہوتاہے یہی سمجھتاہے کہ کائنات صرف ایک فٹ
لمبی اور چھ انچ چوڑی ہے اس میں کہیں روشنی نہیں اوروہ اس کائنات میں اکیلا
ہے جب وہ ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے تو اُسے دنیا میں بے شمار انسانو ں ،جانوروں،پرندوں
اور درختوں سے اسکا واسطہ پڑتاہے یہ ایک ایسی دنیا ہے جو زمین سے آسمان اور
ایک اُفق سے دوسرے اُفق تک پھیلی ہوئی ہے کیا یہ ممکن نہیں کہ زندگی ایک
قدم اور آگے بڑھ کر ایک ایسی دنیا میں پہنچ جائے جہاں بے کراں وسعتوں کے
سامنے دنیا رحم مادر کی حیثیت رکھتی ہو ۔تسلسل حیات اور مکافات عمل کا
عقیدہ نسل انسانی کا بہت بڑا سہارا ہے ۔ہم اس زندگی میں کتنی ہی دشواریاں
ناکامیاں اور رسوائیاں اس امید پر گوارا کر لیتے ہیں کہ ان تمام ناانصافیوں
کی تلافی اگلی زندگی میں ہو جائے گی اگر ہم اس عقیدے کو ختم کردیں تو دنیا
میں ہر طرف اضطراب پیدا ہو جائے لوگ ایک دوسرے کو نوچنا شروع کر دیں ۔شدت
اضطراب سے لوگ خود کشیاں شروع کر دیں۔بھوکے لوگ امیروں کے کپڑے اتار
لیں۔بوالہوس حسن کو اُچک کر لیں امن عالم برباد ہو جائے اور تمام اخلاقی
اور روحانی اقدار کا جنازہ نکل جائے آپ نے یہ بھی سناہو گاکہ حضرت ابراہیم
ایک بلند مقصد کی خاطر آگ میں کود گئے تھے۔مسیح نے صلیب قبول کر لی
تھی۔حسین نے اپنا سارا خاندان حق کی خاطر کربلامیں دین کی سربلندی کی خاطر
قربان کر دیا تھااوریہ بھی سنا ہو گا کہ سرور ِ عالم ؐ کی کل کائنات ایک
اونٹنی ،ایک گھوڑا،کھدر کا ایک جوڑااور بان کی ایک چارپائی تھی ۔سات سات دن
بھوکے رہتے تھے۔بعثت سے رحلت تک چین کا ایک لمحہ نصیب نہ ہو ا۔رات کا عبادت
،دن کوسیاسی،تبلیغی اور انتظامی مصرفیات ،سال میں دو دو تین تین جنگوں کی
تیاری اور استفتادِ بے نوائی کا یہ عالم کہ انتقال سے پہلے حضرت عائشہؓسے
فرمایا۔"عائشہ! میر ی بالین کے نیچے دو دینار رکھے ہوئے ہیں ۔انہیں اﷲ کی
راہ میں دے ڈالو۔مباداکہ رب محمد،محمد سے بدگماں ہو کر چلے"
دنیا کا عظیم فلسفی اعظم یعنی سقراط اونٹ کے بالوں کا کرُتا پہنتا تھا۔باسی
ٹکڑے کھاتا اورایک ٹوٹے ہوئے مٹکے میں رہتا تھا۔
سوال یہ ہے کہ ان ہادیان ِ نسل انسانی ،عظیم مقتدایان کائنات اور دانایانِ
راز فطرت نے یہ رویہ کیوں اختیار کیا ؟
کیا انہیں حسین محلات ،دل نواز جنات اور آسودگی ہائے حیات سے خدا واسطے کا
بیر تھا ؟ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں تھی کہ وہ اس زندگی کی دل فریبیوں میں
اُلجھ کر اپنی حقیقی منزل سے غافل نہیں ہونا چاہتے تھے۔
اور انھیں یقین تھا کہ اس دنیا میں اﷲ کی راہ میں اُٹھائی گئی ہر مصیبت و
تکلیف وہاں جنت میں بدل جائے گی۔
اس دنیا میں وہ لوگ بھی موجو د ہیں جو اﷲ سے لاکھوں میل دُور نشہ دولت میں
چور ہیں،اقدار عالیہ سے غافل ،جزا و سزا کے منکر ،مصائب انسان سے بے خبر بد
مست ،مغرور اور متکبر ہیں۔اگر موت کو انجام حیات تصور کیا جائے تو قدرتاً
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان بدمستوں میں کیا خوبی تھی کہ ان کو اﷲ نے اتنا
نوازااور مسیحؑ و خلیلؑ نے کیا قصور کیا تھاکہ انہیں جگر دوز مصائب کا ہدف
بنایا ۔اس سوال کا جواب ایک ہی ہو سکتا ہے کہ دنیائیں دو ہیں یہ دنیا جس کی
بقاء بیش قیمت نہیں۔اور وہ دنیا جس کا کوئی ثانی نہیں کوئی دانش مند چند
روز ہ عیش کے لیئے کروڑوں سال کی زندگی کو تباہ نہیں کر سکتا اور دانایان
رازِ فطرت نے ہمیشہ یہی کیا کہ اُ س زندگی کے مفاد کو مقدم رکھاہم یہ
پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ جن لوگوں نے دفاع وطن قیام صداقت ،اور بقائے
انسانیت کے لیئے ظالم و سنگدل حکمرانوں ،ڈاکوؤں اور چوروں کے خلاف جہاد کیا
گھر بار لُٹایا ۔سینوں پر گو لیاں کھائیں،صحراؤں میں تڑپ کر جانیں
دیں،دہشتگردی کا مقابلہ کیا اور اس کے خاتمے کے لیئے اپنی جانیں تک قربان
کر دیں،ان کا صلہ کیا ہے؟جس ہلاکو خان نے صرف بغداد میں اٹھارہ لاکھ نفوس
کو قتل کیا ۔ہمارے اسلاف کی دو کروڑ کتابیں دجلہ میں پھینک دیں اسے کیا سزا
ملی؟
خود ہمارے ہاں ہم آئے دن دیکھتے ہیں کہ نالائق اور سفارشی لوگ ہر اونچی
کرُسی پر برُجمان ہوتے ہیں جیسے ایک میٹرک پاس کو پیپلز پارٹی کے دور میں
او جی ڈی سی ایل کا چیئر مین لگایا تھا ۔اور اہل اوربے سفارش میرٹ پر آنے
والے لوگ ہمیشہ قطارمیں رہتے ہیں اور انکی ملائی ہوئی کال کو کبھی رسیو
کرنے والا نہیں ملتا ،کیا ان تما م ناانصافیوں کو ختم کرنے ،حق دار کو اس
کا حق دلانے ،اور ناانصافیوں کو ختم کرنے کے لیئے اس زندگی کا خاتمہ اور اک
نئی زندگی کا وجود ضروری نہیں؟
فلسفے کو چھوڑیئے اور روح کی بات سنیئے ۔روح کی گہرائی سے دَما د َ م یہ صد
ا اُٹھ رہی ہے کہ میں لا زوال ہوں۔ابدی وسرمدی ہوں،زمان ومکان میں میرا
قیام عارضی ہے اور میرا اصلی مقصد دنیائے اثیرہے یہ وہ صد ا ہے جس کی تائید
دوکروڑ مساجد ،اسی لاکھ گرجوں اور لاتعداد مندروں سے ہورہی ہے اور یہ حقیقت
ہے جس کی تصدیق سوا لاکھ انبیاء اکرام نے کی ۔اور جس پر آج کم از کم چار
ارب انسان ایمان رکھتے ہیں |