اور لائف انجوائے کریں
(Muhammad Ajmal Khan, Karachi)
ابھی تو دو چار سال انجوائے کرنا
ہے۔
اسکے یہ کہتے ہی میں اپنی میں ماضی میں کھو گیا۔
برسوں پہلے کی بات ہے، اپنے ایک دوست کو شادی نہ کرنے پر چھیڑتے ہوئے اسی
طرح کی باتیں سننے کو ملتی تھی۔
’’ یار اسٹیبلش تو ہولینے دو ‘‘ ۔۔۔۔۔ پھر شادی کی سوچیں گے۔
اور میں ان سے بحث کرتا رہا کہ ’’ اسٹیبلش ہونے ‘‘ سے کیا مراد ہے ۔ وہ
کہتے رہے جہاں تک انکی پرواز تھی اور پھر ’’ اسٹیبلش ہونے ‘‘ کیلئے میرے
محترم دوست کنیڈا پرواز کرگئے۔
وقت بھی کیا ظالم ہے کہ پتہ بھی نہیں چلتا اور گزر جاتا ہے۔
میرے محترم دوست جب اسٹیبلش ہوکر کنیڈا سے واپس آئے تو 42 سال کے ہوچکے تھے
اور پھر شادی کیلئے جس لڑکی کا انتخاب کیا اس کی عمر 22 سال تھی ۔
خیر شادی ہو گئی اور میں سونچتا رہا‘
’’ اب یہ دو چار سال انجوائے کریں گے پھر بچے کی سونچیں گے‘‘۔
اور ہوا یہی ان کا پہلا بچہ انکی شادی کے تین سال بعد پیدا ہوا۔
اسٹیبلش ہوکر شادی کرلی اورانجوائے بھی کرلیا۔
لیکن کیا یہ انجوائے کرنا ہے۔
کیا یہ اسٹیبیلیٹی انجوائے کرنے میں معاون و مدگار ثابت ہوئی۔
عمر کا بہترین حصہ تو اسٹیبیلیٹی کی نذر ہو گئی ۔
اب انجوائے کیسا؟
اور انجوائے کریں گے بھی تو کتنے دنوں تک ؟
کیا ہم انجوائے کرنے دنیا میں آئے ہیں؟
نا جانے ہماری سونچ کو کیا ہوگیا ہے؟
کب اور کیسے ہم اہل مغرب کی طرح سونچنے لگے؟
ان کیلئے تودنیا ہی سب کچھ ہے‘ اور حلال حرامہر طرح کی انجوائے ۔
لیکن ہمارے لئے تو صرف انجوائے کرنا نہیں ۔
ہمیں تو ہمارا خالق دنیا میں انجوائے کرنے کیلئے نہیں بلکہ اپنی عبادت
کیلئے پیدا کیا ہے۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴿٥٦﴾
" اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ "
اور اپنے بندے کی جوانی کی عبادت اسے سب سے زیادہ محبوب ہے۔
لیکن ہمارے نوجوان آج اسٹیبلش ہونے اور انجوائے کرنے کے چکر میں اپنی جوانی
کی قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں۔
اگرہمارے نوجوان اہل مغرب کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے سونچ کو قرآن و سنت
کی روشنی سے بدل لیں اور وقت پر شادی کرلیں تو نبی کریم ﷺ کی سنت پر عمل
اور اللہ کی عبادت بھی ہو جائے گی اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے وعدے کے
مطابق انہیں جلد ہی اسٹیبلش بھی کر دے گا۔ جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ
وَإِمَائِكُمْ ۚإِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ
ۗوَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴿٣٢﴾سورة النور
’’ تم میں سے جو مرد عورت بےنکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت
غلام اور لونڈیوں کا بھی۔ اگر وه مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں
اپنے فضل سے غنی بنا دے گا (یعنی اسٹیبلش کر دے گا)۔ اللہ تعالیٰ کشادگی
واﻻ اور علم واﻻ ہے۔‘‘
اور اس طرح وہ اپنی لائف کو بھر پور انداز میں انجوائے بھی کر پائیں
گےکیونکہ اللہ سبحانہ و تعالٰی نے انکے انجوائے کرنے کیلئے انکی بیویاں
بنائیں ہیں ان کے پاس سکون‘ محبّت اور رحمت رکھ دیا ہے‘ جیسا کہ ارشادِ ہے:
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا
لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚإِنَّ
فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ﴿٢١﴾سورة الروم
’’ اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں
بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبّت اور رحمت
پیدا کر دی یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہے اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر
کرتے ہیں۔‘‘
لیکن ہمارے نوجوانوں کے پاس اللہ کی نشانیاں دیکھنے اور غور و فکر کرنے کا
وقت ہی کہاں؟
انہیں تو شادی/ نکاح کی مقصدیت کا بھی پتہ نہیں۔
ہمارے نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن و سنت کے مطابق:
(1) نسل انسانی کی بقا یعنی اولاد پیدا کرنا اور
(2 ) ناجائز طریقے اور گناہوں سے بچتے ہوئے جائز طریقے سے لطف و سکون حاصل
کرنا یعنی انجوائے کرنا ہی شادی/ نکاح کے مقاصد ہیں۔
اگر ان مقاصد کو پوری کرنے کی نیت سے شادی / نکاح کی جائے تو یہ عبادت ہے
اور اللہ تعالیٰ ایسی ہی شادی میں برکت دیتا ہے۔
آج جو لوگ اسٹیبلش ہونے کی چکر میں دیر سے شادی کرتے ہیں اور پھر انجوائے
کرنے کی موڈ میں دیر سے بچہ پیدا کرنے کے خواہش مند ہیں کیا وہ شادی کی ان
اعلیٰ مقاصد کو پوری کرتے ہیں۔
میرے محترم دوست کی طرح جو نوجوان اسٹیبلش ہو کر40/ 42 سال کی عمر میں شادی
اور پھر انجوائے کرکے 44/45 سال کی عمر میں میں بچے کے خواہش مند ہوتے ہیں،
وہ اپنے پہلی ا ولاد کو بھی تعلیم و تربیت دینے کے قابل نہیں رہتے کیونکہ
جب پہلا بچہ 15 سال کا ہوگا تو یہ سٹھیا چکے ہونگے چہ جائیکہ کہ دوسری اور
تیسری اولاد کی صحیح پرورش کر پائیں۔
دوسری طرف اسٹیبلش ہوکر دیر سے شادی کے خواہش مند نوجوانوں کی اکثریت
اسٹیبیلیٹی سے محروم ہی رہتی ہے۔ محرومیوں کا شکار ان نوجوانوں کی اکثریت
گناہوں میں پڑ کر اپنی جوانی‘ صحت و قابلیت کو تباہ کر رہے ہوتے ہیں اور
ملک و معاشرے کا ایک اچھا شہری بننے کے بجائے اس پر بوجھ بن جاتے ہیں۔
دین سے دوری کی وجہ کر ایسے جوانوں کی اکثریت آج جنسی بے راہ روی کا شکار
ہیں۔ آج مسلم ملک و معاشرے میں زنا اور لواطت جیسے گناہوں میں لوگ ملوث
ہورہے ہیں۔ لواطت کی خباثت اب عورتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔
اگر کسی وجہ سے نکاح میں دیر ہورہی ہو تو‘دین اسلام روزہ رکھ کر اپنےنفس کو
ضبط کرنے کے ساتھ پاکدامن رہنا سکھاتاہے۔
وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ
اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ ۗ ۔ ۔ ۔سورة النور 33
" اور جو لوگ نکاح کرنے کی قدرت نہیں رکھتے انہیں چاہیے کہ عفت اور ضبط نفس
سے کام لیں۔ یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے۔"
لیکن اب لوگ فرض روزے ھی مشکل سے رکھتے ہیں تو نفل روزے کا سوال کہاں ؟ اور
ضبطِ نفس کیسا؟
بعض لوگ جو اسٹیبلش ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں‘ اپنی عمر سے آدھی عمر کی
لڑکی سے شادی کرتے ہیں جیسے میرے محترم دوست نے 42 سال کی عمر میں 22 سال
کی لڑکی سے شادی کی۔اب یہ صاحب جب ختم ہو رہے ہونگے تو انکی بیوی صاحبہ
پوری پوری آب و تاب سے ۔۔۔۔ اور پھر دین سے دوری‘ بے حیائی‘ بے پردگی‘
میڈیا پر نفسانی خواہشات کو ابھارنے والی مواد کی بھر مار اور معاشرے میں
غیر شادی سدہ بے راہ رو نوجوانوں کی بہتات ایسی عورتوں کو آنٹی کلچر کا حصہ
بنا دیتی ہے۔
دوسری طرف انڈین کلچر سے امپورٹیڈ لعنت جیسے جہیز‘ دلہا دلہن کے لاکھوں کے
عروسی جوڑے‘ لاکھوں کے ناچ گانے‘ ویڈیوزاور تصاویر‘ مہنگے ترین شادی ہال
اور مختلف انوا ع و اقسام کے کھانے وغیرہ شادی / نکاح کو مہنگا سے مہنگا تر
کرنے والے لوازمات کی وجہ کر شادی کا تصور ایک روح فرسا امر بن گیا ہے۔ ان
اخراجات کابوجھ لڑکی کے والدین پر پڑتا ہے اس لئے لڑکیوں کی شادی بھی وقت
پر نہیں ہو پارہی ہے اور معاشرے کی جو برائیاں پہلے صرف مردوں میں تھی اب
لڑکیوں اور عورتوں میں بھی پیدا ہوتی جارہی ہے۔
دیر سے شادی کے وجوہات میں صرف نوجوانوں ہی کا قصور نہیں بلکہ والدین اور
پورا معاشرہ قصوروار ہے۔
اگر والدین اپنے بچوں کی شروع سے اسلام کے مطابق ذہن سازی کریں تو بچوں میں
اللہ پر بھروسہ کرنے کا رجحانکیوں پیدا ہو اور وہ فرمانِ الٰہی ’’
يُغْنِهِمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ ‘‘ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی
بنا دے گا (یعنی اسٹیبلش کر دے گا) پر یقین کرتے ہوئے صحیح وقت پر شادی
کرنے کی سونچیں۔
لیکن افسوس کہ والدین خود ہی دین سے دور ہیں اور خود ہی اللہ پر بھروسہ
نہیں کرتے تو بچوں کی کیا تربیت کریں گے؟ بعض والدین خود ہی اپنے بچوں کی
شادی وقت پر کرنا نہیں چاہتے کہ بیٹا یا بیٹی کی کمائی پھر ہاتھ نہیں آئے
گا۔
ہمارا تعلیمی نظام اور بے روزگاری بھی نوجوانوں کی شادی کی راہ میں مانع
ہے۔ اگر تعلیمی نظام کی اصلاح کر لی جائے تو ہمارا ہر نوجوان 17/ 18 سال کی
عمر میں گریجویٹ بن سکتا ہے اور یوں وہ ملک و قوم کی خدمت کرنے کے ساتھ
ساتھ کم عمر ہی میں اسٹیبلش ہوکر لائف انجوائے کر سکتا ہے۔
شادی کی عمر تو 18 سال سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔
لہذا جوانوں کوچاہئے نکاح کے اعلیٰ مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے جلد شادی
کریں تاکہ اپنے بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کر سکیں اور اپنی جوانی میں ہی
اپنے بچوں کو بھی جوان دیکھیں۔ اور لائف انجوائے کریں۔ |
|