قیام پاکستان سے ہی ہماری دھرتی
متکبر اور بددماغ افسروں کے معاملے میں بڑی زرخیز رہی ہے سول و ملٹری بیورو
کریسی میں ایسے ایسے لوگ ان پسے ہوئے مجبور اور محکوم لوگوں پر راج کرتے
رہے ہیں جنہیں حقوق دلانے کی نیت سے پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا
تھا،افسر شاہی کی غلامی کی روایت آج کے اس جدید اور ٹیکنالوجی کے دور میں
بھی زندہ و تابندہ ہے میں عوام بھی برابر کے قصور وار رہے ہیں جنہیں غلامی
کی یہ روایت اور عادت انگریز کے غلام ذہنوں نے وراثت میں دی اور پھر سالہا
سال اس روایت کو زندہ رکھنے میں معاشرے کے ہر طبقے کے لوگوں نے حسب ِتوفیق
اپنا اپنا حصہ ڈالا،گوجرانوالہ بھی صاحبوں کی عظمت کو سلام کرنے والوں کی
کبھی کمی نہیں رہی سیاستدانوں،مولویوں،صحافیوں،وکلاء اور تاجروں صنعتکاروں
سمیت معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے ان بھانڈوں نے بے سُری افسر
شاہی کے ساتھ بھی وہ سُرملائے ہیں اوربے سُروں وبے تالوں مدح سرائی کی دوڑ
میں اس قدر آگے نکلتے رہے کہ صاحبان اپنی اس قدر ’’غیر اخلاقی‘‘تعریف و
توصیف پرشاید وہ خود بھی تڑپ کر جاتے ہوں گے لیکن بہر حال تعریف جیسی بھی
ہو اچھے اچھوں کو گدگدا دیتی ہے، گماشتے اور ٹاؤٹ کی تیسری فارم ’’دلال‘‘
ہے اس لفظ کی ادائیگی کے بغیر ان سرکاری افسران کے دفتروں کے پھیرے لگانے
والوں کی درست اور جامع تعریف ممکن نہیں ہے مجھے کہنے دیجئے کہ حقداروں کا
حق مارنے اور مظلوم کو دادرسی سے محروم رکھنے میں افسر شاہی کے ان دلالوں
کا کردار انتہائی گرا ہوا اور گھٹیارہا ہے اور عوام کا خون چوسنے والے
افسران کے گناہ میں شریک رہے ہیں ہمارے اردگرد بے شمار ایسے لوگ موجود ہیں
جو اپنا کام نکلوانے کے لئے دن بھر ان افسروں کے پاؤں چومتے ہیں اورپھر جو
افسران ان دلالوں کے جھرمٹ سے باہر نہ آئیں انکی فرض شناسی کے بارے میں
ندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے،مجھے ذاتی طور پر اس بارے میں میڈیا کے کردار
سے بھی بیحد گلہ ہے جو مسالے دار خبروں کی خاطر معیار سمیت کسی بھی شے کو
خاطر میں نہیں لاتا اور سچائی کو مصلحت کی تھپکی دے کر سلانے کا بھی ماہر
ہو گیا ہے،میڈیا پر سچ کا اس قدر قحط ہو گیا ہے کہ اب اگر کوئی صحافی مال
کھا کے ہی سچ لکھ دے یا کہہ دے تو وہ بھی فرشتہ معلوم ہوتا ہے،مسائل کی
درست نشاندہی نہ ہونے اور مثبت صحافت کرنے والوں کی جگہ پر بلیک میلروں کی
بھرمار نے سچ اور جھوٹ اچھائی اور برائی کا فرق کرنا دشوارکر دیا ہے اور
پتا نہیں چلتاکہ کون سا افسر کس قماش کا ہے اور کس نے حکومت کی پالیسی
یاقانون کی عملداری کے نام پر کیا کیا گل کھلائے ہیں،گوجرانوالہ میں پچھلے
دنوں ایک ایسے آر پی او بھی ہو گزرے ہیں جن کے ہونے اور نہ ہونے کی کسی کو
کانوں کان خبر نہ ہوئی مجال ہے کہ انہوں نے کبھی کسی کو شک بھی ہونے دیا ہو
کہ وہ اپنے دفتر میں موجود ہیں جناب کے چلے جانے کے بعد(یہ بھی ہماری
روایات کا حصہ ہے)یہ انکشاف ہوا ہے کہ وہ آدھا دن تو اپنے گھر پر گزار کر
ہی آتے تھے اوردفتر پہنچتے ہی ان کے دروازے پر لگی لال بتی آن ہو جاتی جس
کا مطلب یہ ہوتا کہ صاحب میٹنگ میں ہیں اور اسکے بعدوہ آن لائن جواء کھیلنے
میں مشغول ہو جاتے اور یوں سائلین سے بچ بچا کر ان کابخوشی گزارہ ہو جاتا
تھا،کچھ بات ہو جائے گوجرانوالہ کے موجودہ ڈی سی او کی جن کے جاہ و جلا ل
کے سامنے بعض اراکین اسمبلی بھی نالاں دکھائی دیتے ہیں ان کے بارے میں
مشہور ہے کہ ان کا شمار وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے قریبی لوگوں میں
ہوتا ہے ویسے مشاہدے میں بھی یہی آیا ہے کہ شہباز شریف کے ساتھ کام کر کے
کسی شہر میں تعینات ہونے والے ڈی سی اوز کچھ زیادہ ’’زہریلے‘‘ واقع ہوتے
ہیں اور ان کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا ،سو ان صاحب کے متاثرین میں چند سو
روپے کے دیہاڑی دار ایک عام چھابڑی والے سے لے کر لاری اڈے اور ماڈل ٹاؤن
مارکیٹ کے دوکاندار ہی نہیں منتخب اراکین اسمبلی بھی شامل ہیں ،ان سے زیادہ
تگڑا بندہ تو چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل سکتا۔ (جاری ہے) |