رب کی پکڑ

بنگلہ دیش قتل و غارت گری کے بغیر بھی بن جاتا یا کوئی اور بہتر حل نکا آتا لیکن ہمارے حکمرانوں نے بے شمار لوگوں کو اپنے ضد، ہٹ دھرمی اور انا کی بھینٹ چڑھا دیا۔ جھوٹے بنگالی حکمراں و دانش وروں کے مطابق بنگلہ دیش کی آزادی میں تیس لاکھ بنگالی پاکستان آرمی کے ہاتھوں مارے گئے اور دو لاکھ بنگالی عورتوں کی عزت لوٹی گئی‘ جو کہ تاریخ کی ایک بڑا جھوٹ ہے۔

لیکن بنگلہ دیش میں بھارت کے مختلف علاقوں سے ہجرت کرکے جانے والے غیر بنگالی جنہیں عرف عام میں ’ بہاری ‘ کہا جانے لگا تھا اور اب تک کہا جاتا ہے‘ ان کی جو نسل کشی ہوئی وہ آج بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ اگر بنگالیوں کی اس بات کو الٹا کر دیا جائے کہ تیس لاکھ بہاری مارے گئے اور دو لاکھ سے زیادہ بہاری عورتوں کی عزت لوٹی گئی تو شاید صحیح ہو۔ بہاریوں کا کوئی گھرانہ بھی ایسا نہیں ہوگا جس کے ساتھ بنگالی درندے مکتی ماہینی ‘ جنہیں بھارت سے درندگی کی ٹریننگ دی گئی تھی ‘ درندگی نہ کی ہو۔۔
ان خاندانوں کی تو بات ہی چھوڑ دیں جو سارے کے سارے قتل کر دیئے گئے۔ جن خاندانوں کے چند افراد زندہ بچ گئے تھے‘ اگر صرف ان کی کہانی رقم کی جاتی تو کئی ایک لائبریری بن جائے۔

آزادی کے متوالے بنگالی درندوں نے کتنی بالغ و نابالغ لڑکیوں / عورتوں کو انکے باپ‘ بیٹے اور بھائیوں کے سامنے نہ صرف درندگی کا نشانہ بنایا بلکہ ان لڑکیوں کی نرم و نازک عضوء کاٹ کاٹ کر ان کے باپ‘ بیٹے اور بھائیوں منھہ میں کھانے کیلئے ڈالنے کی ششیں بھی کی۔کتنے بوڑھے ماں باپ کے سامنے انکے نوجوں بیٹوں کو سفاکی کے ساتھ قتل کیا گیا۔کتنی ماؤں کے سامنے ان کے دودھ پیتے بچوں کو پھانسی پہ لٹکایا گیا۔ (اس دور کی ’سیارہ ڈائجسٹ ‘ اٹھا کر دیکھ لیں ‘ شفاکی و درندگی کی چند جھلکیاں مل جائے گی)۔پھر ایک صبح بنگلہ دیش میں باقی بچے بہاریوں کی مکمل نسل کشی کی گئی۔اور یہ نسل کشی آج تک جاری ہے۔جو حکمراں اس ظلم ‘ بربریت‘ قتل و غارت گری کے ذمہ دار ہیں ‘وہ ہیں:

1. شیخ مجیب الرحمٰن
2. ضیاء الرحمٰن
3. ذولفقار علی بھٹو
4. اندرہ گاندھی

یہ ہمارے سامنے کی بات ہے اور تاریخ بھی اس پر گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان حکمرانوں کو خوب ڈھیل دی اوراس فانی دنیا میں یہ سارے کے سارے کافی عروج کو پہنچے۔لیکن اس قھار و جبار نے پھر ان سبھوں کو ’ نشانِ عبرت ‘ بھی بنا دیا کہ ہے کوئی ’ عبرت ‘ پکڑنے والا۔آئیے عبرت پکڑیں ‘ ان کے عبرتناک انجام سے:۔

شیخ مجیب الرحمٰن :
اللہ نے اس شخص کو خوب ڈھیل دی۔ یہ Founder of Bangladesh بنا اور Bangabandhu یعنی Friend of Bengal کے خطاب کا حقدار ہوا ۔ ساری طاقتوں کا حامل بنگلہ دیش کا پہلا فرعون یعنی پہلا صدر بھی یہی بنا اور طاقت کے نشے میں اللہ رب العزت کو بھول گیا۔ پھر اس جبار و قھار نے اسے وہاں سے پکڑا جہاں سے ا سے گمان بھی نہ تھا۔اس کی اپنی فوج کے نوجونوں نے پہلے اسکے سارے خاندان کے افراد کو قتل کرکے ان کے لاشوں کو گھنٹوں اس کے سامنے رکھا۔ اپنے پیاروں کی لاشوں کو دیکھ کر وقت کا فرعون پاگلوں کی طرح اپنی وہی انگلی اٹھا اٹھا کر گھنٹوں چیختا رہا کہ مجھے بھی قتل کر دو۔ ... مجھے بھی قتل کر دو۔ ہائے ہائے! کتنے ماں باپ کے سامنے اسی طرح انکے بچوں کو قتل کروانے والا آج خود اسی کرب سے چینخ رہا ہے۔رب کا انتقام بھی کیا خوب ہے کہ اس کی ایک بیٹی (شیخ حسینہ واجد) کوآج اقتدار بخش کر اپنے کتنے محبوب بندوں کو شہادت سے سرفراز کر رہا ہے جو اس بد بخت ( شیخ مجیب)کے گناہوں میں روز بروز اضافے کا باعث ہے۔ یہ تو ہے دنیا میں اسکی پکڑ اور آخرت کی پکڑ کتنا بھیانک ہوگا ‘ واللہ اعلم۔
طاقت کے نشے میں عوام الناس پر ظلم کرنے والوں ’ عبرت ‘ پکڑو۔

ضیاء الرحمٰن:
یہ پاکستان آرمی کا غدار‘ سب سے پہلے چاٹگام شہر کے ایک ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کرکے بنگلہ دیش کی آزاد ہونے کا اعلان کیا۔ اس نے چاٹگام شہر کے اردو بولنے والے غیر بنگالی شرفاؤں کی ایک مٹنگ بلائی اور پھر سب کو قتل کروا کر انکی عورتوں کا ننگا جلوس نکالا اور اپنے آرمی مین سے کہا کہ ’’ Enjoy with Them‘‘ اللہ نے اسے بھی ڈھیل دی۔ اس نے ترقی کے منازل بڑے جلدی طے کئے اور پہلے چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر اور پھر بنگہ دیش کا صدر بن گیا۔ یہ SAARC کا فاؤنڈر اور صدر بھی بنا۔ اسے بنگلہ دیش میں بہت سارے بڑے بڑے اعزاجات سے بھی نوازا گیا ‘ جیسے Bir Uttom (the highest gallantry award for a living military personnel)اور پھر ہمارے رب نے کیا خوب انتقام لیا کہ جس چاٹگام شہر سے اسنے بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کیا تھا ‘ جس چاٹگام شہر میں بے گناہوں کو قتل کرکے اسنے ایر پورٹ کے قریب ایک گڑھے میں پھینکا تھا‘ جس چاٹگام شہر میں اس نے اپنے آرمی مین سے کہا تھا ’’ Enjoy with Them‘‘ اور معصوم عورتوں کے ساتھ درندگی کیا تھا اسی چاٹگام شہر میں اسکے اپنے آرمی مین نے اسکے جسم میں آٹھ سو (800) سے زیادھ گولیا ں پیوست کیئے اور اسی گڑھے میں پھینک دیا جہاں اس نے بے گناہوں کو قتل کروا کر پھینکوایا تھا۔
یہ ہے ہمارے رب کا انتقام ۔ہے کوئی ’ عبرت ‘ پکڑنے والا

ذوالفقار علی بھٹو:
اللہ نے انہیں بھی خوب ڈھیل دی ۔ یہ بھی خوب بلندی تک پہنچے ۔ پاکستان کے صدر اور سول مارشل لاء ایڈمنشٹریٹر بنے۔ پھر وزیر اعظم بنے۔ 1972 سے 1977 تک پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے۔ فاؤنڈرآف پاکستان نیوکلیر بم کہلائے۔ اللہ نے سارے دنیا میں انہیں عزت و شہرت سے نوازا۔پھر رب نے انتقام لیا اور دو سالوں تک جیل کے سلاخوں کے پیچھے کال کوٹھری میں رہے۔ جنہیں انہوں نے خود چنا تھا اسی جنرل کے ہاتھوں عبرت کو پہنچے۔ ان کے دونوں بیٹے بھی قتل کئے گئے۔ہے کوئی ’ عبرت ‘ پکڑنے والا.....

اندرہ گاندھی:
بنگلہ دیش بنانے کی ایک کردار یہ بھی ہے۔ بنگلہ دیش کی آزادی کی علمبردار مکتی باہنی کو ہر طرح کی دہشت گردی‘ ظلم و بربریت کیلئے اس نے اپنے ملک میں ٹریننگ دلوائی۔ یہ نہ صرف بنگلہ دیش میں ہی مسلمانوں کی قاتلہ ہے بلکہ یہ جب تک اقتدار میں رہی اپنے ملک میں بھی مسلمانوں کی ہر چھوٹی بڑی آبادی میں اپنے ہندو بلوائیوں سے فساد کرواتی رہی اور لاکھوں مسلمانوں کو شہید کرواتی رہی۔اللہ نے اسے بھی بڑی ڈھیل دی اور پھر ایسی جگہ سے اسکی پکڑ کی جہاں اس کا گمان بھی نہ تھا ۔ اس کے اپنے محافظ (bodyguard) نے ہی اس کے جسم میں ہزار گولیاں پیوست کیا۔واہ رے میرے رب! تو جسے جب جہاں سے چاہتا ہے پکڑ لیتا ہے۔ تو ہر پر قادر ہے۔

بنگلہ دیش بنتے وقت بے شمار ماؤں کے گود اجاڑنے والوں ‘ سہاگنوں لا سہاگ چھیننے والوں‘ دودھ پیتے معصوم بچوں کو انکی ماؤں کی چھاتی سے چھین کر اذیت کے ساتھ مارنے والوں ‘ ماں باپ کے سامنےانکی نوجوان اولاد کو بے قصور قتل کرنے والوں‘ نوجوان بھائی کے سامنے بہن کی عزت لوٹنے والوں اور چیختی چلاتی بالغ و نالغ لڑکیوں کےنرم و نازک نسوانی عضؤ کاٹنے والوں‘ لوگوں کو بے قصور جوٹ ملز کے بوئیلروں میں زندہ جلانے والوں کا عبرتناک انجام سب کے سامنے ہے۔

لیکن نہ ہی کوئی عبرت کی نگاہ رکھتا ہے اور نہ ہی کوئی عبرت پکڑنے والا ہے.....

آج بھی پاکستان کا برا سونچنے والوں اور برا کرنے والوں کی کمی نہیں۔
آج ایک بار پھر پاکستان میں آگ و خون کا وہی کھیل کھیلا جارہا ہے۔
آج گھروں اور تعلیمی اداروں میں ہماری عورتوں و بچوں کی عزت و جان کے لا لے پڑے ہیں ۔
آج دفتروں‘ فیکٹریوں و بازاروں میں ہمارے محنت کشوں کی زندگیوں کی بولی لگائی جا رہی ہے۔
آج ہمارے تاجر تجارت کیا کریں جب انکی جان کی ہی تجارت کی جارہی ہو ؟
آج ہمارے منصف فیصلہ کیسے کریں جب انکے بیوی بچوں کو اڑانے کی دھمکیاں مل رہی ہوں؟
آج ہماری پولس ہماری ہماری حفاظت کیسے کرے جب انکے اپنے گھر ہی محفوظ نہ ہوں؟
آج ہمارے فوجی سرحدوں پہ کیا جائیں جب گھر سے نکلتے ہی انہیں اڑانے والے تیار ہوں؟

اسکول میں خوش و خرم کھیلتے بچوں کو اچانک خون میں نہلا دیا جاتا ہے۔
رزق حلال کیلئے محنت کرتے سینکڑوں زن و مرد مزدوروں کو‘ آن واحد میں جلا کر راکھ کر دیا جا تا ہے۔

کیا معصوم بے قصور لوگوں کو آگ میں جلا کرانکی زندگی چھیننے‘ عورتوں کی سہاگ لوٹنے‘ بوڑھے ماں پاب کا سہارا چھیننے اور چھوٹے بڑے بچوں سے ماں باپ چھین کر انہیں یتیم کرنے پرکیا اللہ کی پکڑ نہیں آئے گی؟ کیا معصوم اور تڑپتی لاشوں کا خون رائیگاں جائے گا؟ کیا زندہ انسانوں کا آگ میں جلنااوراپنے پیاروں کو پکارنا رنگ نہیں لائے گا؟

آگ میں سزا دینے کا اختیا صرف آگ کے خالق کا ہے اور وہ ضرور معصوم لوگوں کو بے قصور آگ میں جلانے والوں کو پکڑے گا اور جو لوگ اپنے سیاسی‘ لسانی یا کسی اور مفاد کے تحت اس پہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں انہیں بھی پکڑے گا ۔

اور یقیناً ہمارے رب کی پکڑ بہت سخت ہے۔ (إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ﴿١٢﴾ سورة البروج)

پس جس دن ہمارے رب کی سخت پکڑ آئے گی اس دن وہ پورا انتقام لے ہی لے گا۔

يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَىٰ إِنَّا مُنتَقِمُونَ﴿١٦﴾ سورة الدخان

" جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے تو (اس دن) ہم یقیناً انتقام لے ہی لیں گے۔"
Muhammad Ajmal Khan
About the Author: Muhammad Ajmal Khan Read More Articles by Muhammad Ajmal Khan: 95 Articles with 64364 views اللہ کا یہ بندہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی محبت میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی باتوں کو اللہ کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سیکھنا‘ سمجھنا‘ عم.. View More