عورتوں پر ہونے والاگھریلو تشدد ،اور ہمارا معاشرہ

گھریلو تشدد کی جڑیں ہمارے معاشرے اور خاندان میں گہرائی تک جم گئی ہیں۔گھریلو تشدد کے خلاف اگر کوئی خاتون آواز بلندکرتی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ کے معاشرے اور خاندان میں تبدیلی کی ابتداءہے گھریلو تشدد کے معاملے دنوں دن بڑھتے جا رہے ہیں۔ خاندان اور سماج کے تعلقات میں پھیلی حسد، بغض، تکبر، ذلت اور بغاوت گھریلو تشدد کے بنیادی وجہ ہیں۔ خاندان میں تشدد کی شکار صرف خواتین ہی نہیں بلکہ عمر اور بچے بھی بن جاتے ہیں۔ پرقت نے عورت اور مرد کی جسمانی تعمیرات جس طرح کی ہیں ان میں خواتین ہمیشہ نازک اور کمزور رہی ہے، وہیں ہمارے ملک میں یہ خیال کیا جاتا رہا ہے کہ شوہر کو بیوی پر ہاتھ اٹھانے کا حق شادی کے بعد ہی مل جاتا ہے۔

گھریلو تشدد،دنیا کی صورتحال
خواتین کے حقوق اور ان کے تحفظ کو بین الاقوامی سطح پر1975 سے 1985 کے دوران پذیرائی ملی اورخواتین کو اس حوالے سے ایک علیحدہ شناخت ملی تھی۔سال 1979 میں اقوام متحدہ میں اسے بین الاقوامی قانون کے طورپر ایک شکل دی گئی تھی۔دنیا کے بیشتر ممالک میں مرد معاشرہ ہے۔ مرد معاشرہ میں اقتدار مردوں کے ہاتھ میں رہنے کی وجہ سے ہمیشہ ہی مردوں نے عورتوں کو دوسرے درجے کا مقام دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مرد معاشرہ میں خواتین کے سا تھ ہونے والے ظلم زیادتی کو جرم کم تسلیم کیا جانا اور ان کا استحصال کرنے کا جذبہ فروغ پاتا رہا ہے۔ اور تو اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور اور اعلی درجے متحدہ ہونے کے باوجود امریکہ میں متعدد علاقوں میں خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق حاصل نہیں ہیں۔

پاکستان میں گھریلو تشدد۔
سماجی ادارے کی طرف سے کرائے گئے مطالعہ کے مطابق پاکستان میں تقریبا تین کروڑ خواتین کو اپنے گھر میں ہی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان پر ہونے والے تشدد کی رپورٹ10 فیصدسے بھی کم ہوتی ہے۔اور گھریلو تشدد کو سرے سے ہی جرم تصور نہیں کیا جاتا۔

گھریلو تشدد کے اہم وجوہات
پرورش میں لڑکوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے کیوں کہ لڑکی کو کمزور اور لڑکے کو بہادر سمجھا جاتا ہے، اس لیے شروع ہی سے لڑکی شخصیت کو اس کی زندگی کی ابتدا ءکی حالت میں ہی کچل دیا جاتا ہے۔گھریلو تشدد کے اہم وجہ مندرجہ ذیل مانے جاتے ہیں۔ 1تعلیمی نظام کا فقدان ہونا اور شعور کی کمی ۔2 خواتین کے کردار پر شک کرنا۔ 3 معاشی حالت کا خراب ہونا۔ 4 الیکٹرانک میڈیاکے اثرات۔(تشدد پر مبنی پرگرام سے متاثر )5 خواتین کا جسمانی طور پر کمزور ہونا۔

گھریلو تشدد کا منفی اثرات
خواتین اور بچوں پر گھریلو تشدد کے جسمانی، ذہنی اور جذباتی منفی اثرات پڑتے ہیں۔اس کی وجہ سے عورتوں کے کام اور فیصلے کرنے کی صلاحیت پر اثر پڑتا ہے۔ خاندان میں باہمی رشتوں اور آس پڑوس کے ساتھ رشتوں و بچوں پر بھی اس تشدد کا سیدھا ،اثر دیکھا جا سکتا ہے۔

گھریلو تشدد کی وجہ سے، قتل اور خودکشی کے واقعات بڑھے ہیں۔ عصمت فروشی کا رجحان بھی اسی وجہ بڑھاہے۔اس علاوہ عورت کی عوامی شرکت میں رکاوٹ ہوتی ہے۔ خواتین کی کام کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ساتھ ہی وہ ڈری ڈری سی بھی رہتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں وہ مریض بن جاتی ہے اور یہ کیفیت کبھی کبھی جنون کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔اس طرح عورت کی گھر میں دوسرے درجے کی حیثیت قائم ہو جاتی ہے۔

پولیس کا کردار
گھریلو تشدد کے واقعات کئی بار پولیس کی طرف ایف۔ آئی ۔آرد، رج نہیں کی جاتی، صرف روزنامچے میں لکھا جاتا ہے۔اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ خواتین کو اس کاپی نہیں دی جاتی۔ مانگنے پر بلاوجہ پریشان کیا جاتا ہے۔ ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے ۔شوہر کی طرف سے خواتین کو پیٹنے یا ذہنی طور پر تشدد کو پولیس بڑا مسئلہ نہیں مانتی۔اکثر اس عام سی معمولی گھریلو مسئلہ قرار دے کراس کوشوہر کا حق کہا جاتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی شوہر نے مارا پیٹا ہے ایسی کیا بات ہو گئی، شوہر مارتا ہے تو محبت بھی کرتا ہے۔ یہ کہہ کر پولیس متاثرہ خاتون کو ٹال دیتی ہے۔اس کی بھی ایک بڑی وجہ پولیس والے کیا بذات خود مرد ہونا بھی ہے۔عمومی طور پر مرد ہی ہوتے ہیں خاتون پولیس افسر یا اہلکار نہیں ہوتا۔ پولیس سنجیدگی سے کام نہیں لیتی۔تھانے میں صرف ایک یو دو خواتین سپاہی کی ڈیوٹی ہوتی ضرور ہے مگر وہ ہر وقت تھانے میں موجود نہیں ہوتیںیا ان کی صرف کاغذی تعیناتی ہوتی ہے خواتین یا گھریلو تشدد سے متعلق مسائل میں اکثر ان مرد افسران و اہلکاران کی مداخلت ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ خواتین پولیس اہلکا ر اگر وہاں ہو بھی تو بھی وہ گھریلو تشدد کی شکار خاتون کی زیادہ مدد نہیں کر پاتی ہیں۔پولیس اہلکار رشوت لے کرمتاثرہ خاتون کو معاہدے کے لئے مجبور کرتے ہیں یا کیس کو کمزور کر دیتے ہیں۔پولیس کا کہنا ہوتا ہے کہ جہیز اور گھریلو تشدد کے کیس زیادہ تر جھوٹے ہوتے ہیں۔اس معاملے میں پولیس کی زیادہ تر بے حسی ہوتی ہے ۔پولیس کا اکثر یہ کہنا ہوتا ہے کہ یہ سماجی اور ذاتی ،یا گھریلو مسئلہ ہے، پولیس کا نہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ، ایسے معاملے میں پولیس بغیر کسی ماہر قانونی مشیر کے مشورہ دیتی ہے یا سمجھوتہ کرا دیتی ہے۔ ور ہونے والے اس معاہدہ میں نہ واقعہ کی تفصیل ہوتی ہے۔ اور نہ ہی شوہریا تشدد کرنے والے کی طرف سے یہ گارنٹی کہ مستقبل میں وہ ایسا نہیں کرے گا ،کا ذکر ہوتا ہے۔

فیملی کورٹ ودیگر عدالتیں
خواتین کو ہراسمنٹ سے نجات دلانے یا قصورواروں کو مناسب سزا دلوانے کے لئے فیملی کورٹ کا قیام عمل میںلایا گیا تھا، اس وقت یہ خیال تھا کہ اب کاز کم خواتین کو گھریلو تشدد سے نجات مل جائے گی۔ یہ تاثر بھی دیا گیا کہ ان عدالتوں میں متاثرہ عورتوں وکیل کی ضرورت نہیں ہے مگر ایسا نہیں ہو سکا سارے کام وغیرہ اور کاغذ وکیل ہی بناتے ہیں ا۔ور ہر جج پہلا سوال ہی یہی کرتے ہیں کہ تمہارے وکیل کہاں ہیں؟ ان کو لاؤ، یہ ایک بڑا تضاد ہے، ان عدالتوں کی افادیت کم ہوگئی ہے ۔سوچا گیا تھا کہ ان عدالتوں میں کیس جلد نبٹ جائیں گے مگر ایسا نہیں ان میں بھی وقت بہت لگتا ہے۔ کیس سالوں چلتے ہیں اور فیصلہ نہیں ہوتا۔ اور اگر اس دوران کے حکم ہو جاتے ہیں پر ان کا عمل نہیں ہوتا۔ان عدالتوں میں گواہوں پر بہت زور رہتا ہے مگر گواہ کی ساکھ کو نہیں دیکھا جاتا سرکاری وکیل جو ہیں ان کے انتخاب میں شفافیت نہیں ہوتی اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ. وہ اپنے موضوع کے ماہر بھی نہیں ہوتے۔

جرگہ /پنچایت وغیرہ
خاندان قوم ذات پات قبیلہ ، کی سطح پر اکثر علاقوں میںجرگہ اور پنچایتوں کا رواج عام ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کی پنچایت میں گھریلوتشدد کے واقعات کو اس میںپیش ہی نہیں کیا جاتا۔اور اگر پیش ہوں بھی تو ہمیشہ فیصلہ عورت کے خلاف ہوتا ہے۔ اور یہ بھی ہے کہ متاثرہ فریق یعنی عورت کو سرے سے اس آنے ہی نہیں دیا جاتا۔اور عورت کی نمائندگی بھی نہیں ہوتی ۔ خواتین کو نہیں بلایا جاتا بلکہ ان کے بارے میںمتد خود ہی فیصلہ لے لیتا ہے۔خود ہی منصف اور خود وکیل اور خود ہی ظالم و ملزم مرد ہی مرد تو پھر عورتوں کی کون سنے گا۔

ہوکیا رہا ہے۔
خواتین کے قتل کے معاملے تیزی سے بڑھ رہے ہیں، کردار پر شک، جہیز کی مانگ اور خاندانی اختلاف کی وجہ خواتین کو قتل کرنے کے معاملے زیادہ سامنے آ رہے ہیں. کچھ معاملات میںجائیدادکے تناظر میںبھی ہیں۔ مار پیٹ - گھر خاندان میں ہی خواتین محفوظ نہیں ہیں. اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں پر انہیں مار پیٹ کا شکار ہونا پڑتا۔چھیڑ چھاڑ - اسکول کالج کے باہر لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے واقعہ زیادہ سامنے آتے ہیں. وہاں پولیس کا تعینات نہ ہونا اس کی اہم وجہ ہیں. اس سے غیر سماجی عناصر کو فروغ ملتا ہے۔ لڑکیوں کے اغوا ءکے واقعات زیادہ ہو رہے ہیں۔ ساتھ ہی شادی شدہ خواتین کا بھی بہلا پھسلاکرر اغو کیا جاناجیسے معاملے زیادہ ہو رہے ہیں۔ خاندان کے ارکان اور رشتہ داروں کی طرف سے ہی عصمت دری کرنے کے معاملے بھی زیادہ ہو رہے ہیں۔ لڑکیوں کے ساتھ ساتھ بچیوں کے ساتھ عصمت دری کے معاملے پچھے چند سالوں میں تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔خودکشی - زیادہ تر معاملے پھانسی لگانے کے ہوتے ہیں۔اس کی اہم وجہ شوہر کی طرف سے شراب پیکر اہلیہ کے ساتھ مار پیٹ کرنا یا سسرال والوں کی طرف سے. جہیز کے مطالبہ بھی اس کی اہم وجہ ہے. بیوی بی بیٹی بہن کے رشتہ پر شک کرنا اس بڑی وجوہات سامنے آئی ہیں۔خواتین کی خریدیوفروخت - خواتین اور لڑکیوں کو اغوا کر کے انہیں فروخت کرنے کاجرم بھی پھل پھول رہا ہے۔ غربت کی وجہ سے بھی یہ گھناؤنا کارروائیوں کا بڑھنا ہے۔پسند کے شخص سے شادی کرنے سے روکناکسی خاص شخص سے شادی کرنے کے لئے مجبور کرناخودکشی کرنے کی دھمکی دینا بھی شامل ہے۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ تعلیم اداروں میں طالب علموں اور خاص طور پر طا لبات کو کھل کر تعلیم دینا چاہیے تاکہ وہ گھریلو تشدد کی شکار نہ ہوں۔انہیں کونسلنگ اور قانونی علم کے بارے زیادہ سے زیادہ معلومات دینا مناسب ہوگا۔ محلہ اور گاؤں کی سطح پر یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ کس کے گھر میں کیامسئلہ چل رہا ہے ۔جونہی اس تناظر میں کوئی بات علم میں آئے تو پھر کونسلنگ کا سلسلہ شروع ہو جانا چاہیے۔تعلیم کے ساتھ ساتھ لڑکیوں میں خود اعتمادی پیدا ہو، ایسی کوشش کرنا چاہیے،کہ لڑکیوں کو باخبر رکھا جائے۔ یہ کام اساتذہ کا ہے،اور اساتذہ کے تربیت میں اس مسئلے کو شامل کیا جانا چاہیے۔

جائیداد میں لڑکیوں کو پورا حق ہونا چاہئے ۔گھر کی سطح پر ہونے والے خاندان کے فیصلوں میں ان رائے بھی لی جائے اور اس کا احترام بھی لیا جائے۔پولیس کے کردار کو بھی کافی حد تک حساس بنانے کی ضرورت ہے۔ان کی ڈکشنری میں گھریلو تشدد اور خواتین پر ہونے والے ظلم اور امتیازی سلوک کو خاص طور پر شامل کیا جانا چاہیے۔ہر تھانے پر ماہانہ بنیادوں پراس حوالے سے اہم اور اعلی سطحی میٹنگ ہو۔تھانوں کی سطح پر مشیر ہوں۔ خاص طور پر گھریلو تشدد کے مقدمات میں پولیس جب سمجھوتہ کراتی ہے تو ایک تربیت یافتہ مشیر کی مدد لینا چاہیے۔خواتین کے کمیشن کے ممبران کی تقرری ضلع کی سطح پر ہو۔خواتین کے کمیشن کا خواتین تشدد کے سلسلے میں پیغام حکومت سمیت ہر ادارے تک ہو۔ خواتین کمیشن کو پالیسی ساز سطح پر مداخلت کرنا چاہیئے۔ جیسے کہ کام کی جگہ پر خواتین کے استحصال اور ہراسمنٹ کے بارے میں قوانین کے نفاذ کیسے ہو رہا ہے۔ خواتین ترقی کے پروگرام کی کیاصورت حال ہے۔ اس کو کس طرح بامعنی بنایا جا سکتا ہے۔ایسے کون سے فیصلے اور کام کے ہیں جو خواتین پر برعکس اثر ڈال رہے ہیں، ان سب پر کمیشن کو نظر رکھنی چاہیے۔ اور وقت وقت پر مداخلت کرتے رہنا چاہیے۔
Riaz Jazib
About the Author: Riaz Jazib Read More Articles by Riaz Jazib: 53 Articles with 53215 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.