وہ معمول کی ایک صبح تھی
اسکول اپنے ٹائم پر لگا تھا طلباء و طالبات اپنی اپنی جماعتوں میں موجود
حصولِ علم میں مصروف تھے تمام ایڈمن سمیت تمام پارٹمنٹ بھی اپنے اپنے معمول
کے فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھے۔
دھیمے مزاج کی حامل ایک پُروقار بارعب پرنسپل کی سیٹ پر بیٹھی فائلوں کے
انبار سے نبردآزما تھی۔ ذمہ داری جو پہلے ہی کم نہ تھی پشاور کے اندوہناک
واقعے کے بعد مزید بڑھ گئی تھی۔ پہلے اسکول کے معیار ِ تعلیم کو بلند کرنا
تھا اب معیارِ تعلیم کے ساتھ ساتھ اسکول کی دیواروں کو بھی بُلند کرنا ہے ۔
پہلے اس کے فرائض میں طالبات کے ذہنوں میں علم کی شمع روشن کرنا تھی تو اب
اس کے ساتھ ساتھ مادرِ علمی کے چاروں طرف سرچ لائٹیں لگا کر اسے عملاًمنور
کرنا بھی ان کے فرائض میں شامل ہو چکا ہے۔
پرنسپل سیٹ پر بیٹھی اس پُر اعتماد اور اولو لعزم خاتون کے قلب اور روح میں
سمندر کی سی گہرائی اور وسعت ہے۔ تنوع کاایک بحرِبے کراں موجزن ہے۔ پہلے
اندرون ادارہ مختلف محاذوں پر کام کرنے کے ساتھ طالبات کو معیاری تعلیم کی
فراہمی ان کی ذمہ داری میں شامل تھی تو اب صبح سے اسکول ختم ہونے کے وقت تک
ان نازک کلیوں کی سکیورٹی اور حفاظت بھی اسی صنف نازک کے کاندھوں پر آچکی
ہے۔ اس خاتون پرنسپل نے 26 جنوری 2015 ء کی سرد ترین صبح ، آف ٹائم تک سارا
دن ایک بے پناہ مصروف دن گزارا ہے 3 سے 4 کوآرڈی نیٹر ز کے ساتھ میٹنگز۔
سکیورٹی پر مامور صوبیدار صاحب اور جرنل صاحب سے سکیورٹی تحفظات کے حوالے
سے تبادلہ خیال ۔اسکول کے ایک گروپ کو انڈیا کے ٹرپ پر بھیجنے سے متعلق
معاملات کا جائزہ۔ 70 سے زائد اسٹاف ممبرز میں شامل ہر ہر فرد سے ذاتی اور
پروفیشنل امور پر روزانہ کی بنیاد پر تبادلہ خیال اور ان کا ہر حوالے سے
خیال رکھنا ۔ایک بھر پور اور تھکن آمیز مصروفیات سے لبریز دن گزار کر گھر
پہنچیں تویاد آیا کہ یہاں پر انہوں نے ایک ماں کے فرائض بھی سرانجام دینا
ہیں۔6 سالہ بیٹے کی جُملہ ذمہ داریاں خوشدلی سے بجا لا رہی تھیں کہ یاد آیا
کہ آج تو ان کی شادی کی سالگرہ کا دن ہے۔ شاہراہِ زندگی پر قدم سے قدم ملا
کر چلتے ہوئے ہر آزمائش ،پر یشانی، مشکلوں اور حادثات پر ثابت قدم رہتے
ہوئے ہر آسانی ،ہر خوشی اور ہر مسرت پر کندھے سے کندھا ملا کر چلتے ہوئے دن
ایک ایک کر کے موتیوں کی طرح وقت کے تھال میں گرتے رہے اور سات دفعہ ہم نے
تین سو پینسٹھ دن صبحیں راتیں اور شامیں ساتھ گزاریں ۔ان گنت منفی و مثبت
جذبات کے ساتھ ساتھ بے شمار مسکراہٹیں، خواب اور ان کی تعبیریں ہم نے ساتھ
تلاش کیں۔ پیشہ ورانہ کام سرانجام دیتے ہوئے کچھ یا دنہ آیا ۔اب یا د آیا
تووقت نہ تھا کہ گفٹ لیا جاتا کارڈ خریدے جاتے۔ وِش کیا جاتا۔سوچتی رہیں کہ
اب کیا کیا جائے۔ اوہ فیس بک ۔ فوراً موبائل نکالا۔ اب اپنے جذبات شاہرہِ
زندگی پر گامزن اپنے ہمسفر کے ساتھ شیئر کئے۔ شکریہ ادا کیا
میرے ہمسفر تیری نذر ہیں میرے جذبے ِ دل کی شدتیں
میرے خواب میری بصارتیں مری دھڑکیں مری چاہتیں
آپ نے میری زندگی کو خوبصورت اور رنگین بنا ڈالا۔ میری زندگی کا سب سے
صحتمند مضبوط اور مثبت حصہ بہت شکریہ۔
ابھی اس کام سے فارغ ہی ہوئی تھی تو یاد آیا کہ اب میرا وجود ایک اور وجود
کے لیے پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔ اوہ میرے ننھے مہمان تم نے میری مصروفیت سے
تنگ آ کر میرے وجود کا حصہ بن کر رہتے رہتے میری مصروفیات کا گواہ بنتے
بنتے میری مصروفیات کا ساتھی بننے کا ارادہ کرلیا۔ 9 ماہ روز وشب کی ذمہ
داریوں کے امین میں نے تمہارے حصے کی ممتا بھی تمہارے حصہ کی توجہ اور وقت
بھی قوم کے معماروں پر صرف کرتی رہی تھی آج تم نے میرے وجود کے اندر
انگڑائی لی سوتے سے بیدار ہو گئے اور بولے ممابس بہت ہو گیا ۔آپ کے اندرونی
لمس سے محفوظ ہوتے 9 ماہ گزار لیے اب آپ کے لبوں کا لمس آپ کے گرم ہاتھوں
کی گرماہٹ اور آپ کی نظروں کی تمازت سے اپنے آپ کو سینکنے کے لیے میں
اندھیروں سے روشنی کی طرف آنے لگا ہوں ۔ڈاکٹروں کے بس میں ہوتا تو میں مزید
ایک ہفتہ آپ کے اندر اپنی جائے پناہ میں گزارتا مگر میں نے آپ کو ایک
سرپرائز دینے کا ارادہ کر لیا ہے۔ بابا کے ساتھ شروع ہونے والے سفر کے اس
آغاز پر اگلی راہوں پر میں بھی آپ کے ساتھ ہوں گا لہٰذ ا 26 جنوری ۱۵. ۴
شام پانچ بجکر دس منٹ پر میں بابا کی طرف سے شادی کی سالگرہ کا تحفہ بن کر
آپ کے خاندان کا ممبر بن گیا۔ویل کم تو دی ورلڈ میرے ننھے مہمان۔ کون کہہ
سکتا تھا صبح سے ایک مصروف دن گزارنے کے بعد شام میں وہ ایک ننھے شہزادے کی
ماں بن جائے گی۔ صنفِ نازک کو نازک کہنے والے یہ جان لیں کہ اور پیشہ ورانہ
زندگی سے لگاؤ اور محبت کے اعلیٰ ترین درجے کو عشق کہتے ہیں اور عشق کا
اعلیٰ و ارفع مقام جنون پر جا کر رکتا ہے۔ عشق محرک مجازی یا حقیقی ہو سکتا
ہے جبکہ جنوں ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے یہ جنون ہی ہے جو سوہنی کو کچے
گھڑے سمیت تیرنے پر مجبور کر دیتا ہے تو فرہاس سے نہر کھدوانے کا سہرا بھی
اسی جذبہ جنوں کو جاتا ہے۔
یہ جنون اور کام سے عشق کا ہی جذبہ ہے کہ جو ایک ماں کو آخری لمحے تک اپنی
پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانے کا حوصلہ دیتا ہے۔ ہر انسان عظیم کہلانے کے
لائق نہیں ہوتا ماسوائے اس کے جو اپنی زندگی کو کسی اچھے کام میں استعمال
کرے تاریخ ان ہی لوگوں کو امر کرتی ہے جو اپنی زندگی کا مطمع نظر آرام و
سکون کے بجائے بے لوث محنت اور انتھک جدوجہد کو اپنی زندگی کا مقصد بناتے
ہیں۔ اپنے کردار اور اعمال میں مثالی ہوتے ہیں ۔ یہ اپنے منفرد وجود،
باصلاحیت کردار اور تخلیقی ذہن کے ساتھ دوسروں کے لیے مشعلِ راہ ہوتے ہیں
ایسے ہی لوگوں کے لیے شاعر نے کہا ہے کہ
ہر نقشِ پا بلند ہیں دیوار کی طرح
یہاں تک لکھتے لکھتے جو قلم رُکا تو محسوس ہوا کہ اب اس باہمت خاتونِ آہن
کا نام بھی قارئین سے شئیر کر ہی لینا چاہیے کہیں پڑھنے والے یہ نہ سمجھیں
کہ ایسی باہمت خاتون کا وجود صرف خیال ہی ہے اور ذہنی اختراع ہے۔ ہرگز نہیں
یہ باہمت خاتون خیالی ہرگز نہیں ہیں۔ بلکہ یہ جیتی جاگتی شخصیت راولپنڈی کے
ایک قدیم مشنری اسکول سینٹ میریز اکیڈمی فار گرلز مظہر قیوم روڈ کی پرنسپل
میم شیرن ڈیوڈ ہیں۔ پاکستانی خواتین اور بالخصوص پاکستانی خواتین اساتذہ کے
لیے ان کی شخصیت اور کردار ہمیشہ قابلِ فخر رہے گا۔ علمی اور تعلیمی حلقوں
میں انہیں احترام اور کام سے والہانہ لگاؤ رکھنے والی شخصیت کے حوالے سے
یاد رکھا جائے گا ۔ میمی شیرن ڈیوڈ کا تعلق مسیحی برادری کے ایک معزز تعلیم
پریزنٹیشن کا نوٹ راولپنڈی سے حاصل کی دورانِ تعلیم نصابی اور ہم نصابی سر
گرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہیں ۔ان کا شمار ذہین، فعال، مستعد ،باادب
اور باذوق طالبات میں ہوتا رہا ان کیساتھ پڑھنے والی طالبات جب اپنا جیب
خرچ میک اپ کی چیزیں خریدنے میں خرچ کرتیں تو یہ اپنی تمام رقم کتابوں کی
خریداری پر خرچ کرتیں تھیں ،سادگی کی اعلیٰ مثال تھیں۔ بحیثیت اُستاد اپنے
عملی کیرئیر کا آغاز کرنے کے بعد جب انہیں سینٹ میری اکیڈمی فار گرلز کی
پرنسپل کی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں تو اس اہم ترین ذمہ داری سے عہدہ براء
ہونے کے لیے وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ معیاری تعلیم کی
شمع کو فروزاں کرتے ہوئے انتھک محنت اور اپنے ساتھ کام کرنے والی اساتذہ کے
دلوں کو ایک ولولہ اور ہمت عطا کرنے والی یہ ایک ایسی محبِ وطن خاتون ہیں
جنہوں نے اہلِ وطن اورتعلیم کے ساتھ والہانہ محبت کا ثبوت دیا یہ وطن ِ
عزیز کے طالبات کو ترقی، تعلیم اور خوش حالی کی ارفع مقام پرفائز دیکھنے کی
خواہش مند ہیں کام کے حوالے سے ان دبنگ اور دوٹوک لہجہ ان کے خلوص اور کام
سے لگاؤ کا مظہر ہوا کرتا ہے۔
صنفِ نازک سے خاتونِ آہن بننے کے اس سفر میں ان کاکارنامہ صرف یہیں تک
محدود نہیں کہ انہوں نے اپنے ننھے مہمان کی آمد کے آخری دن تک اپنی نجی
زندگی پر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو فوقیت دی بلکہ انہوں نے اپنے سٹاف،
ایڈمن، والدین ، طالبات اور کولیگز کو اُس دن ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور
عملاً سب انگشتِ بدنداں رہ گئے جب ان سب نے بیٹے کی پیدائش کے اور ٹھیک
ساتویں دن صبح انہیں اُسی باوقار دھیمی مسکراہٹ پُر اُمید روشن آنکھوں کے
ساتھ اپنی سیٹ پر برا جمان دیکھا۔ اپنے کام سے عشق اور جنون ہی ہے جو
ناممکن کو ممکن بنا ڈالتا ہے کون سی ماں ایسی ہے جو درد کے اُس سمندر کو
عبور کر کے ماں کے عہدے پر فائز ہونے کے کرب سے آگاہ نہ ہو لیکن یہ اپنے
کام سے عشق اور جنون کا جذبہ ہی ہے جو دردِ بے کراں سے گزرنے کے صرف سات دن
بعد انہیں اپنی سیٹ پر آنے کا حوصلہ بخشتا ہے۔ اپنے کام سے لگاؤاور معیاری
تعلیم کے فروغ کا جنون ہی ہے جس کی وجہ سے اس مرقع سادگی شخصیت کو لوگ عزت
اور تکریم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
انتہائی سادہ لباس اور میک اپ اور بناوٹ سے پاک چمکتی آنکھوں والا چہرہ لیے
شیرن ایک ایسی خاتون ہیں جن میں ہمت ، عظمت اور استتطاعت نمایاں طور پر نظر
آتی ہے۔
اﷲ سے دعا ہے کہ وہ انہیں صحت ،زندگی اور پاکستان میں فروغِ علم کے لیے کئے
جانے والے اقدامات کرنے کا حوصلہ دے اور وہ پاکستانی طالبات کو حوصلہ ایسے
ہی بڑھاتی رہیں۔ ایسی ہی باہمت اور باحوصلہ پاکستانی خواتین ملک و قوم کا
قیمتی سرمایہ ہیں اور خواتین اساتذہ کے لیے مشعلِ راہ ہیں جب ہی تو شاعر نے
کہا ہے کہ
ہم مائیں ہم بہنیں ہم بیٹیاں قوموں کی عزت ہم سے |