تحریر: حلیمہ سعدیہ
دنیا میں کوئی بھی دو انسان یکساں فطرت نہیں رکھتے بعض اوقات یہ فرق نمایاں
نہیں ہوتا اور کبھی کبھی یہ فطری ہم آہنگی اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ ایک مدت
تک ساتھ زندگی بسر کرنے کے بعد ہی مزاج کے فرق کا اندازہ کیا جاسکتا ہے -
خاوند گھرانے کا ایک ایسا فرد ہوتا ہے جو مسلسل امتحان میں رہتا ہے۔ بطور
شوہر، باپ ،بیٹا اور بھائی اس پر آن ہی وقت میں اتنی ساری ذمہ داریاں عائد
ہو جاتی ہیں کہ وہ خود کو بھی بھول جاتا ہے ان ذمہ داریوں کو نبہاتے
نبہاتے۔ یہ بات اٹل ہے کہ مختلف قسم کی رشتہ داریوں پر مشتمل ایک گھرانے کو
چلانا نہایت ہی مشکل کام ہے۔ اس لئے اگر گھر کا سربراہ حکمت و تدبیر سے کا
م لے کر گھرانے کی گاڑی چلائے تو بہت راحت کے ساتھ وہ گاڑی چل سکتی ہے،
تاہم اگر صبر، ضبط اور حوصلے کا دامن چھوڑ دے گا تو پھر نا ختم ہونے والی
پریشانیاں اس کا دامن گیر رہیں گی۔
گھر میں جھگڑے اور نا چاقی کا ایک بڑا سبب ہوتا ہے گھر کے سربراہ کی اصول و
ضابطے کی بجائے رشتوں کو ان کی نزاکتوں کے اعتبار سے پرکھنا اور ان رشتوں
کے عظمتوں کے بارے میں جذباتی ہوکر فیصلے کرنا۔ ایک مشترکہ گھر کسی کے ایک
فرد کے نہیں بلکہ مختلف رشتے داروں سے مل کر بنتا ہے۔ اس میں ماں بھی ہے
باپ بھی ہیں، بہن، بھائی، بیٹا، بیٹی، دادا، دادی اور بعض اوقات نانا، نانی
بھی شامل ہوتے ہیں۔ اب ذرا سا غور کیجئے ان میں سے کوئی بھی ایسا رشتہ نہیں
غیر اہم ہو۔ ہر ایک کا تعلق اور حق اپنی اپنی جگہ اہم ہے۔ ان تمام رشتوں
میں بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے ہو سکتاہے کہ کسی کو اپنی رشتہ داریت کے
حقوق کی تسکین میں کمی محسوس ہورہی ہو تو ایسے میں پیدا ہونے والے شکوے اور
شکایات کا مرکز صرف ایک وہی گھر کا سرابرہ ہوتا ہے جو اکثر اوقات بیٹا یعنی
بیوی کا خاوند ہوتا ہے۔
ماں باپ اپنے دکھ اپنے بیٹے کو سنائیں گے، جبکہ بیوی خاوند کو، بیٹا بیٹی
باپ کو اور بہن اپنے بھائی کے سامنے دل کے حال کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ اس
تمام صورتحال کے دوران پیدا ہونے والے منظر نامہ پر اگر غور کیا جائے تووہ
گھر کا سربراہ کس نازک ذمہ داری پر فائض ہوسکتا ہے، اندازہ لگانا مشکل نہیں
ہے۔ ایسے میں اس ذمہ داری کو سہولت اور خوش اسلوبی سے نبہانا کسی جہاد سے
کم نہیں ہے۔
یہاں ضرورت اس امرکی ہے کہ اگر ماں بہو کی شکایت کرے تو وہ تحقیق کرے۔ اگر
بیوی ساس کی شکایت کرے تو بھی تحقیق کرنی چاہیے۔ تحقیق کے بعد جس کی بھی
غلطی سامنے آئے اس کو بغیر جذبوں کی کشش میں آئے اپنے ریے کی خوش اسلوبی سے
احساس دلایا جائے۔ گھر کا سربراہ کوئی جج نہیں ہوتا کہ وہ سزا قائم کرے،
بلکہ کمال حکمت عملی سے تمام معاملات کو سلجھائے۔ اس حکمت عملی کا سب سے
اہم راستہ یہ ہے کہ وہ جذباتیت سے کام نہ بلکہ مکمل تحقیق کے بعد اپنے رد
عمل کا اظہار کرے۔ رشتوں کی کسوٹی پر لگ کر کوئی فیصلہ نہ سنائے ، مثلا
اگرماں کہہ کہ ان کی بیوی کا رویہ ان کے ساتھ درست نہیں ہے تو ایسے میں وہ
صرف ماں ہونے کے ناطے یہ سمجھ لے کہ ماں ضرور سچ کہتی ہوں گی اور پھر بیوی
کو مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ ایک ہی رشتے کو خوامخواہ سر پر سوار نہ کرے،
کہ ماں کی بات سن کر بیوی کو کہا جائے گا تم ہی غلط ہو، یا بیوی کی محبت
میں ماں اور بہن بھائیوں کے خلاف ذہن بنا لے۔
اگر بغیر کسی تحقیق کے ماں کی بات کو ترجیح دے کر بیوی کو زیر عتاب لایا
جائے یا پھر بیوی کی بات کو سنتے ہی بہن بھائیوں پر تعیش آجائے تو ایسے میں
وہ سربراہ اپنی ذمہ داری کا غلط اور ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہوگا۔ ایسے شخص
کو کوئی بھی سمجھ دار اور عقل مند نہیں کہہ گے اور نہ ہی ایسی صورت میں
کوئی گھر کو صحیح معنوں میں چلا سکتا ہے۔ اسے چاہیے کہ تحقیق کا دامن
ہاتھوں سے نہ چھوڑے ، غور و فکر اور پھر اس کے بعد رد عمل کا اظہار کرے۔
محتاط اندازہ کے مطابق عموما دیکھا گیا کہ بیوی ہی بیچاری ہوتی ہے کیوں کہ
بیوی کے علاوہ تمام افراد اس گھرانے کے ماضی کے تسلسل سے چلتے آرہے ہوتے
ہیں۔ صرف ایک بیوی ہوتی جو ان رشتہ داریوں کے اکھاڑے میں نووارد ہوتی ہے۔
اکثر جگہوں پر اس کی غلطی نہ بھی ہو تو وہ الزام اس کے سر لگا دیا جاتا ہے۔
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ گھر کی روٹین کو سمجھنے میں بیوی کو وقت لگ جاتا
ہے۔ باہر کا فرد کہہ کر وہ الزام اس کے سر لگا دیا جاتا ہے۔ اس بیچاری پر
سب کی رقابت اور حسد کا نزلہ گھرتا ہے اور قصور وار نہ ہوتے ہوئے بھی وہیں
سب کے زیر اعتاب وہی رہتی ہے اور یہ سراسر ظلم ہے۔ بیوی کے خاوند پر حقوق
ہیں اور شریعت نہ متعین کیے ہیں۔ اب خاوند اپنی ماں بہن باپ وغیرہ کے ساتھ
اپنی رشتہ داری کی بھینٹ بیوی کو نہ چڑھائے اور میانہ روی اختیار کرے۔ |