مسند احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ میں ایک
حدیث ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ "اللہ نے حضرت
آدم سے لے کر مجھ تک ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے۔ جن میں سے تین سو
پندرہ صاحب کتاب تھے"۔ تین سو پندرہ صاحب کتاب نبیوں کے نام نہ تو قرآن
مجید میں ہیں اور نہ احادیث میں ان کا ذکر ہے، لہٰذا ہمارے لیے یہ ممکن
نہیں کہ ان کی تفصیل معلوم کرسکیں۔ صرف چند اشارے ملتے ہیں کہ حضرت آدم
علیہ السلام پر دس صحیفے نازل ہوئے تھے۔ لیکن یہ ہماری بدنصیبی ہے ہمیں یہ
بھی نہیں معلوم کہ وہ کس زبان میں تھے۔ چہ جائیکہ ان کے مندرجات کا علم ہو۔
حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے حضرت شیث علیہ السلام بھی پیغمبر تھے ان کے
متعلق بعض روایات میں ذکر ملتا ہے کہ ان پر بھی چند کتابیں نازل ہوئی تھیں۔
لیکن ان کا بھی دنیا میں اب کوئی وجود نہیں۔ قدیم ترین نبی، جن کی طرف
منسوب کتاب کا کچھ حصہ ابھی حال ہی میں ہم تک پہنچا ہے حضرت ادریس علیہ
السلام ہیں۔ غالباً آپ نے سنا ہوگا کہ فلسطین میں بحر مردار کے پاس بعض
غاروں سے کچھ مخطوطے ملے ہیں۔ ان مخطوطوں میں سے ایک کتاب حضرت اخنوخ یا
انوخ یعنی حضرت ادریس علیہ السلام کی طرف منسوب ہے۔ حال ہی میں اس کتاب کے
کچھ ترجمے انگریزی زبان میں شائع ہوئے ہیں۔ اگرچہ اس بات کا کوئی حتمی و
قطعی ثبوت موجود نہیں، لیکن اب تک کی تحقیق کے مطابق ہم اسے قدیم ترین نبی
کی کتاب کہہ سکتے ہیں۔ اس کتاب میں آخری نبی کی بشارت بھی ہے، جس کو بعد
میں عہد جدید (انجیل) کے باب "مکتوب یہودا" نے بھی نقل کیا ہے۔ حضرت ادریس
علیہ السلام کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق بھی ہمیں کچھ اشارے ملتے
ہیں۔ عراق میں "صابیہ" کے نام سے ایک چھوٹا سا گروہ پایا جاتا ہے جس کا ایک
مستقل دین ہے ان کا یہ دعویٰ ہے کہ "ہم حضرت نوح علیہ السلام کی کتاب اور
ان کے دین پر عمل پیرا ہیں" ان کا کہنا ہے کہ "ایک زمانے میں حضرت نوح علیہ
السلام کی پوری کتاب ہمارے پاس موجود تھی لیکن امتداد زمانہ کے سبب سے اب
وہ ناپید ہے۔ اس کے مندرجات صرف چار پانچ سطروں میں ہمارے پاس موجود ہیں۔
جن میں اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے"۔ اس کے بعد ایک اور نبی آئے ہیں جن کی
کتاب کا ذکر خود قرآن مجید میں موجود ہے۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔
(صحف ابراہیم و موسیٰ) دو مرتبہ قرآن مجید میں اس کا ذکر آیا ہے۔ ان کی
کتاب کے مندرجات یہودی اور عیسائی ادبیات میں تو نہیں قرآن میں چند سطروں
کی حد تک محفوظ ملتے ہیں۔ اسی طرح بعض ایسے انسان بھی ہیں جن کو صراحت کے
ساتھ نبی تو تسلیم نہیں کیا جاسکتا لیکن ان کی نبوت کے امکان کو رد بھی
نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سے ایک شخصیت "زردشت" کی ہے۔ پارسی انہیں اپنا نبی
مانتے ہیں۔ ان کی نبوت کا امکان اس بنا پر بھی ہے کہ قرآن مجید میں مجوس
قوم کا ذکر آیا ہے۔ مجوسیوں کا مذہب زردشت کی لائی ہوئی کتاب "آوستا پر
مبنی ہے" آوستا کے متعلق ہم تک کچھ معلومات پہنچی ہیں۔ جب ہم اس کا قرآن
مجید سے موازنہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کس کو کیا برتری حاصل ہے؟
زردشت کی کتاب اسوقت کی "زند" زبان میں تھی۔ کچھ عرصے بعد ایران پر دوسری
قوموں کا غلبہ ہوا اور نئے فاتحین کی زبان وہاں رائج ہوئی۔ پرانی زبان
متروک ہوتی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملک بھر میں مٹھی بھر عالم اور مختصصین کے
سوا زند زبان جاننے والا کوئی نہ رہا اس لیے زردشتی مذہب کے عماء نے نئی
زبان پازند میں اس کتاب کا خلاصہ اور شرح لکھی۔ آج کل ہمارے پاس اس نسخے کا
صرف دسواں حصہ موجود ہے۔ باقی غائب ہوچکا ہے۔ اس دسویں حصے میں کچھ چیزیں
عبادات کے متعلق ہیں اور کچھ دیگر احکام ہیں۔ بہر حال دنیا کی ایک قدیم
دینی کتاب کو ہم آوستا کے نام سے جانتے ہیں لیکن وہ مکمل حالت میں ہم تک
نہیں پہنچ سکی ہے۔ یہاں ایک چیز کا میں اشارۃً ذکر کروں گا۔ آوستا میں
دوسری باتوں کے علاوہ زردشت کا یہ بیان ملتا ہے: "میں نے دین کو مکمل نہیں
کیا۔ میرے بعد ایک اور نبی آئے گا جو اس کی تکمیل کرے گا۔ اور اس کا نام
رحمتہ للعالمین ہوگا" یعنی ساری کائنات کے لیے باعث رحمت۔
ہندوستان میں بھی کچھ دینی کتابیں پائی جاتی ہیں۔ اور ہندوؤں کا عقیدہ ہے
کہ یہ خدا کی طرف سے الہام شدہ کتابیں ہیں۔ ان مقدس کتابوں میں دید، پران،
اپنشد اور دوسری کتابیں شامل ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ سب کتابیں ایک ہی
نبی پر نازل ہوئی ہیں۔ ممکن ہے متعدد نبیوں پر نازل ہوئی ہوں، بشرطیکہ وہ
نبی ہوں، ان میں بھی خصوصاً "پران" نامی کتابوں میں کچھ دلچسپ اشارے ملتے
ہیں "پران" وہی لفظ ہے جو اردو میں "پرانا" یعنی قدیم ہے۔ اس کی طرف ہمیں
قرآن مجید میں ایک عجیب و غریب اشارہ ملتا ہے: (وانہ لفی زبر الاولین
26:196) اس چیز کا پرانے لوگوں کی کتابوں میں ذکر ہے)۔ میں نہیں جانتا کہ
اس کا پران سے کوئی تعلق ہے یا نہیں؟ بہرحال دس پران ہیں، ان میں سے ایک
میں یہ ذکر آیا ہے کہ "آخری زمانے میں ایک شخص ریگستان کے علاقے میں پیدا
ہوگا۔ اس کی ماں کا نام قابل اعتماد، اور باپ کا نام، اللہ کا غلام ہوگا۔
وہ اپنے وطن سے شمال کی طرف جاکر بسنے پر مجبور ہوگا۔ اور پھر وہ اپنے وطن
کو متعدد بار دس ہزار آدمیوں کی مدد سے فتح کرے گا۔ جنگ میں اس کی رتھ کو
اونٹ کھینچیں گے اور وہ اونٹ اس قدر تیز رفتار ہوں گے کہ آسمان تک پہنچ
جائیں گے"۔ اس کتاب میں جو مذکورہ الفاظ ہمیں ملتے ہیں ان سے ممکن ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اشارہ مستنبط کیا جاسکے۔
ان پرانی کتابوں کے علاوہ وہ کتابیں ہیں جو مسلمانوں میں بالخصوص معروف ہیں،
یعنی توریت، زبور اور انجیل۔ قبل اسکے کہ قرآن مجید کا آپ سے ذکر کروں بطور
تمہید ان کا بھی چند الفاظ میں ذکر کروں گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو
کتاب نازل ہوئی وہ "توریت" کہی جاتی ہے۔ لیکن دراصل توریت اس کتاب کا ایک
جزو ہے، توریت کے معنی ہیں "قانون"۔ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف
پانچ کتابیں منسوب کرتے ہیں، پہلی کتاب "کتاب پیدائش" کہلاتی ہے۔ دوسری
کتاب "کتاب خروج" جو مصر سے نکلنے کے حالات پر مشتمل ہے۔ تیسری کتاب "قانون"
ہے۔ چوتھی کتاب کا نام "اعداد و شمار ہے" کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے
حکم دیا تھا کہ یہودیوں کی قبیلے وار مردم شماری کی جائے۔ پانچویں کتاب "تثنیہ"
کے نام سے موسوم ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ پرانی چیزوں کو دوبارہ دہرایا
جائے، ان کو up to date کیا جائے یا ان کی تشریح کی جائے۔ شروع شروع میں
یہودیوں کے ہاں یہ پانچویں کتاب (تثنیہ) نہیں پائی جاتی تھی حضرت موسیٰ
علیہ السلام کے کوئی چھ سو سال بعد ایک جنگ کے زمانے میں ایک شخص ملک کے اس
وقت کے یہودی بادشاہ کے پاس ایک کتاب لایا اور کہا کہ مجھے یہ کتاب ایک غار
سے ملی ہے۔ معلوم نہیں کس کی ہے، مگر اس میں دینی احکام نظر آتے ہیں۔
بادشاہ نے اپنے زمانے کی ایک نبیہ عورت کے پاس اس نسخے کو بھیجا (یہودیوں
کے ہاں عورتیں بھی نبی رہی ہیں یا کم از کم وہ اس کا دعویٰ کرتے ہیں) اس
نبیہ نے جس کا نام ہلدا HULDA بیان کیا جاتا ہے یہ کہلا بھیجا کہ یہ حضرت
موسیٰ علیہ السلام ہی کی کتاب ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چھ سو
سال بعد اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کیا جانے لگا۔ اس کتاب کو
"تثنیہ" کا نام اس لیے دیا گیا کہ اس میں پہلی چار کتابوں کے احکام میں سے
کچھ احکام خلاصے کے طور پر اور کچھ اضافے کے ساتھ دہرائے گئے ہیں۔ بہر حال
ان پانچ کتابوں کی سرگزشت یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد
آنے والے انبیاء کے زمانے میں یہودیوں نے فلسطین کا کچھ حصہ فتح کیا اور
وہاں حکومت شروع کی تو کچھ عرصے بعد عراق کے حکمران بخت نصر (نبوکدنوصور)
نے فلسطین پر حملہ کیا۔ چونکہ اس کا دین یہودیوں کے دین سے مختلف تھا اس
لیے اس نے صرف ملک فتح کرنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ن دشمنوں کے دین کو
بھی دنیا سے نیست و نابود کرنے کے لیے توریت کے تمام قلمی نسخوں کو جمع
کرکے آگ لگا دی۔ حتیٰ کی توریت کا ایک نسختہ بھی باقی نہ رہا۔ یہودی مورخوں
کے مطابق اس کے ایک سو سال بعد ان کے ایک نبی "حضرت عزرا" Esdra نے جو (شاید
حضرت عزیر علیہ السلام ہوں) یہ کہا کہ مجھے توریت زبانی یاد ہے۔ انہوں نے
توریت املا کروائی۔ توریت کے اس اعادے کے کچھ عرصے بعد روما کے ایک حکمران
نے فلسطین پر حملہ کیا۔ سپہ سالار کا نام انٹیوکس تھا اس نے بھی وہی کام
کیا جو بخت نصر نے کیا تھا۔ یعنی یہودیوں کی کتابیں جمع کرکے جلادیں۔ اس
طرح دوسری مرتبہ وہ نابود کردی گئیں۔ اس کے کچھ عرصے بعد ایک اور رومی
حکمران نے طیطس نامی کمانڈر کی ماتحتی میں ایک فوج بھیجی اور اس نے تیسری
مرتبہ، فلسطین میں دستیاب شدہ یہودیوں کی تمام کتابوں کو جلادیا۔ اب ہمیں
توریت کے نام سے جو کتاب ملتی ہے وہ بائبل کے حصہ عہد نامہ عتیق (Old
Testament) میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب پانچ کتابیں ہیں۔ یہ
کتابیں تین چار مرتبہ کی آتش زدگی کے بعد اعادہ شدہ شکلیں ہیں۔ ان کا اعادہ
کس طرح ہوا اور کس نے ان کا اعادہ کیا اس کے متعلق ہمیں کوئی علم نہیں۔
البتہ جو شخص ان کتابوں کو پڑھتا ہے تو اسے دو چیزوں سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض
اوقات اسے ایسی چیزیں نظر آتی ہیں جو کھٹکتی ہیں اور اسے احساس ہوتا ہے کہ
یہ اصل میں نہ ہوں گی بلکہ بعد کا اضافہ ہیں۔ بعض مقامات پر کمی محسوس ہوتی
ہے اور تشنگی باقی رہتی ہے چنانچہ بعض چیزیں جو زیادہ ہوگئی ہیں وہ اس طرح
ہیں کہ جو کتاب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب ہے اس میں وہ باتیں
ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد پیش آئیں۔ اگر آپ کتاب "تثنیہ"
پڑھیں تو اس کے آخری باب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بیماری، حضرت موسیٰ
علیہ السلام کی وفات، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تدفین اور اس کے بعد کے
واقعات کا ذکر ملتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ حصہ بعد کا اضافہ ہے۔ مگر یہ تو ایسی
باتیں ہیں جنہیں ہر پڑھنے والا فوراً محسوس کرلیتا ہے۔ خدا ہی بہتر جانتا
ہے کہ اس میں دیگر کتنی چیزوں کا اضافہ ہوا ہے جو غیر محسوس ہوں۔ اسی طرح
جن چیزوں کی کمی نظر آتی ہے یا جن کا وہاں ہونا ضروری تھا مگر نہیں ہیں وہ
ایسی ہیں کہ کم از کم بیس مرتبہ اس طرح کے الفاظ ملتے ہیں کہ اس حکم کی
تفصیلیں فلاں باب میں ملیں گی۔ جن ابواب کے حوالے دئے گئے ہیں ان میں سے
ایک بات کا نام "خدا کی جنگیں" اور ایک اور باب کا نام "مخلص اور نیک لوگوں
کی کتاب" ہے۔ اور وہ باب سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ یہ کچھ باتیں توریت کے
متعلق تھیں جو میں نے آپ سے بیان کیں۔ توریت ضخیم صورت میں ہمارے پاس موجود
ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں میں اس کے ترجمے ہوچکے ہیں۔
توریت کے بعد مسلمانوں میں عام طور پر زبور کا نام لیا جاتا ہے اور ہمارا
تصور یہ رہا ہے کہ یہ بھی توریت اور انجیل ہی کی طرح ایک مستقل کتاب ہے۔
لیکن عہد نامہ عتیق (Old Testament) میں جو چیز حضرت داؤد علیہ السلام کی
طرف منسوب ہے اور جس کو وہ سام Psalm یعنی زبور کے نام سے موسوم کرتے ہیں
اس میں صرف خدا کی حمدو ثناء کی نظمیں ہیں۔ کوئی نیا حکم نہیں ہے۔ ہمارا یہ
تصور ہے کہ ہر نبی ایک نئی شریعت لاتا ہے لیکن اس کتاب میں ایسی کوئی نئی
شریعت نہیں ملتی۔ تاہم جس طرح پرانی کتابوں میں (کتاب ادریس سے لے کر ایران
کے آوستا تک) ایک آخری نبی علیہ السلام کی بشارت ملتی ہے اس طرح زبور میں
بھی ایسی چیزیں ملتی ہیں۔ نیز جو سرگزشت توریت کی رہی وہی زبور کی بھی رہی
ہے اس لیے میں اس کو چھوڑ کر اب انجیل کا ذکر کرتا ہوں۔
انجیل کے متعلق مسلمانوں کا تصور عام طور پر یہ ہے کہ وہ ایک مستقل کتاب
تھی جو خدا کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ لیکن ہمارے پاس
عیسائیوں کے توسط سے جو انجیل پہنچی ہیں وہ ایک نہیں بلکہ چار انجیلیں ہیں،
جو یہ ہیں متی Matthew، مرقس Mark، لوقا Luke، یوحنہ John۔ ہر انجیل ایک
الگ آدمی کی طرف منسوب ہے۔ یہ چار کتابیں بھی ساری انجیلیں نہیں ہیں بلکہ
خود عیسائی مورخوں کے مطابق ستر سے زیادہ انجیلیں پائی جاتی ہیں جن میں سے
ان چار کو قابل اعتماد اور باقی کو مشتبہ قرار دیا گیا ہے ان کو پڑھنے سے
یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے الہام یا وحی پر مشتمل
نہیں بلکہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمریاں ہیں۔ چار شخصوں نے
یکے بعد دیگرے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمری لکھی اور ہر ایک نے اس
کو انجیل کا نام دیا۔ لفظ انجیل کے معنی ہیں " خوشخبری" اور اس کی وجہ
تسمیہ غالباً یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جو حالات زندگی انجیل میں
ملتے ہیں ان کے مطابق عام طور پر وہ کسی گاؤں میں جایا کرتے تھے اور وہاں
کے لوگوں سے کہتے تھے کہ میں بشارت دیتا ہوں کہ خدا کی حکمرانی اب جلد آنے
والی ہے۔ شاید اس اساس پر کتاب کا نام بھی یہی ہوگیا لیکن اگر حضرت عیسیٰ
علیہ السلام پر کوئی کتاب نازل ہوئی تھی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اسے
لکھوایا نہیں اس لیے آج دنیا میں اس کا کوئی وجود نہیں۔ اب جو انجیلیں
موجود ہیں، ان کی حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے مختلف زمانوں میں حضرت
عیسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمریاں لکھیں اور ان سوانح عمریوں کو ہر مؤلف
نے انجیل کا نام دیا۔ ان میں سے چار کو کلیسا نے قابل اعتماد قرار دیا ہے
اور باقی کو رد کیا ہے۔ ان چار انجیلوں کے انتخاب کے متعلق کسی کو کوئی علم
نہیں کہ ان کو کس نے انتخاب کیا، کب انتخاب کیا اور کن معیارات کو سامنے
رکھ کر انتخاب کیا؟ بہر حال اس بات پر سب متفق ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کی لکھوائی ہوئی کتاب دنیا میں موجود نہیں ہے۔ جو چیز اس وقت ہمارے
پاس انجیل کے نام سے ملتی ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمریاں
ہیں۔ انہیں ہم "سیرت حضرت عیسٰی علیہ السلام" کہہ سکتے ہیں۔ بعینہ جس طرح
مسلمانوں کے ہاں سیرت نبوی کی کتابیں پائی جاتی ہیں۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے آپ پر نازل شدہ
احکام کو لکھوایا کیوں نہیں تھا؟ میرے ذہن میں جو جواب آتا ہے (ممکن ہے غلط
ہو) وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ ان سے پہلے کے نبی
حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو توریت نازل ہوئی تھی اس کی کیا درگت بنی۔
دشمن حملہ کرتے ہیں اس کی توہین کرتے ہیں اسے جلا دیتے ہیں اور نیست و
نابود کردیتے ہیں۔ غالباً انہوں نے یہ سوچا کہ کہیں میری کتاب کا بھی وہی
حشر نہ ہو۔ لہٰذا بہتر ہے کہ اسے لکھوایا ہی نہ جائے۔ اس طرح یہ کتاب لوگوں
کے ذہنوں میں رہے گی۔ عبادت گزار نیک لوگ اسے ادب سے یاد رکھیں گے اور اپنے
بعد کی نسلوں تک پہنچائیں گے۔ شاید یہی تصور ہو جس کی بنا پر حضرت عیسیٰ
علیہ السلام نے اپنی انجیل کو نہ لکھوایا۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ خدا چونکہ ازلی اور ابدی علم کا مالک ہے اس لیے یہ
نہیں ہوسکتا کہ وہ حضرت آدم کو ایک حکم دے اور بعد کے نبی کو کوئی دوسرا اس
کے بالکل برعکس حکم دے۔ البتہ یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ ایک نبی کو کچھ احکام
اور بعد کے نبی کو کچھ اور احکام اضافے کے ساتھ دیے جائیں۔ فرض کیجئے کہ
حضرت آدم علیہ السلام پر نازل شدہ کتابیں آج دنیا میں صحیح حالت میں موجود
ہوتیں تو (میرا تصور یہ ہے کہ) خدا کو کوئی نئی کتاب بھیجنے کی کوئی ضرورت
نہ ہوتی۔ وہی کتاب آج بھی کارآمد ہوتی۔ لیکن جس طرح ابھی ہم نے اس مختصر
مطالعے میں دیکھا کہ پرانے انبیاء کی کوئی کتاب بھی بلا استثناء ہم تک من و
عن کامل صورت میں نہیں پہنچی ہے اس لیے خدا نے چاہا کہ ایک مرتبہ انسان کو
ایسی مکمل کتاب دی جائے جس میں تمام احکام ہوں اور اس کی مشیت یہ بھی ہوئی
کہ یہ کتاب محفوظ رہے۔ وہ کتاب قرآن مجید ہے۔
اب ہم یہ دیکھیں گے کہ قرآن کس طرح محفوظ حالت میں ہم تک پہنچا ہے۔ اولاً
میں اس کی زبان کے بارے میں کچھ عرض کروں گا۔ یہ عربی زبان میں ہے۔ اس آخری
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کتاب کے لیے عربی زبان کا انتخاب کیوں ہوا؟
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زبانیں رفتہ رفتہ بدل جاتی ہیں۔ خود اردو زبان کو
لیجئے۔ اب سے پانچ سو سال پہلے کی کتاب مشکل سے ہمیں سمجھ میں آتی ہے۔ دنیا
کی ساری زبانوں کا یہی حال ہے انگریزی میں پانچ سو سال پہلے کی مؤلف "چاسیر"
(Chaucer) کی کتاب کو آج کل لندن کا کوئی شخص، یونیورسٹی کے فاضل پروفیسروں
کے سوا، سمجھ نہیں سکتا۔ یہی حال دوسری قدیم و جدید زبانوں کا ہے۔ یعنی وہ
بدل جاتی ہیں اور رفتہ رفتہ ناقابل فہم ہوجاتی ہیں۔ اگر خدا کا آخری پیغام
بھی کسی ایسی ہی تبدیل ہونے والی زبان میں آتا تو خدا کی رحمت کا اقتضاء یہ
ہوتا کہ ہم بیسویں صدی کے لوگوں کو پھر ایک نئی کتاب دے تاکہ ہم اسے سمجھ
سکیں کیونکہ گزشتہ صدیوں کی کتاب اب تک ناقابل فہم ہوچکی ہوتی۔ دنیا کی
زبانوں میں سے اگر کسی زبان کو یہ استثناء ہے کہ وہ نہیں بدلتی تو وہ عربی
زبان ہے۔ چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہم
عصر عربی یعنی قرآن مجید اور حدیث شریف میں جو زبان استعمال ہوئی ہے اور جو
عربی آج ریڈیو پر آپ سنتے ہیں یا جو آج عربی اخباروں میں پڑھتے ہیں، ان
دونوں میں بہ لحاظ مفہوم الفاظ، گرامر (صرف و نحو)، ہجے اور تلفظ، کوئی فرق
نہیں ہے۔ آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ ہوں اور میں ایک عرب
کی حیثیت سے اپنی موجودہ عربی میں آپ سے گفتگو کروں تو آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم اس کا ہر لفظ سمجھیں گے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مجھے جواب مرحمت فرمائیں تو آپ کا ہر لفظ میں سمجھ سکوں گا۔ کیونکہ ان
دونوں زبانوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ میں اس سے یہ استنباط کرتا ہوں کہ آخری
نبی پر بھیجی ہوئی آخری کتاب ایسی زبان میں ہونی چاہیے جو غیر تبدیل پذیر
ہو لہٰذا عربی کا انتخاب کیا گیا، عرض کرنا یہ ہے کہ اس عربی زبان میں دیگر
خصوصیات مثلاً فصاحت، بلاغت، ترنم وغیرہ کے علاوہ ایک خصوصیت ایسی ہے جس کا
ہم سب مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ وہ یہ کہ عربی زبان غیر تبدیل پذیر ہے اور اس کے
لیے ہمیں عربوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے مختلف علاقوں کی بولیوں
کو اپنی زبان نہیں بنایا۔ بلکہ اپنی علمی اور تحریری زبان وہی رکھی جو رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے چلی آرہی تھی۔
جہاں تک قرآن کا تعلق ہے آپ سب واقف ہیں کہ وہ بیک وقت نازل نہیں ہوا۔ جیسا
کہ توریت کے متعلق یہودیوں کا بیان کہ اسے خدا نے تختیوں پر لکھ کر ایک ہی
مرتبہ دے دیا تھا۔ اس کے برخلاف قرآن مجید تئیس سال تک جستہ جستہ، (نجماً
نجماً) نازل ہوتا رہا اور یہ ان مختلف زمانوں میں نازل شدہ اجزاء کا مجموعہ
ہے جو قرآن مجید کی صورت میں ہمارے پاس ہے۔ اس کا آغاز دسمبر سنہ 609ء میں
ہوا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار حرا میں معتکف تھے۔ وہاں حضر
جبرئیل علیہ السلام آتے ہیں اور آپ تک خدا کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ وہ پیغام
بہت ہی اثر انگیز ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک امی ہیں۔
انہیں لکھنا پڑھنا نہیں آتا۔ اس امی شخص کو جو پہلا حکم دیا گیا وہ ہے "اقراء"
یعنی پڑھ اور پھر قلم کی تعریف کی گئی ہے۔ پڑھنے کا حکم دے کر پھر قلم کی
تعریف کیوں کی جاتی ہے؟ اس لیے کہ قلم ہی کے ذریعے سے خدا انسا کو وہ چیز
بتاتا ہے جو وہ نہیں جانتا دوسرے الفاظ میں قلم ہی وہ چیز ہے جو انسانی
تمدن اور انسانی تہذیب کی حفاظت گاہ (Depository) ہے۔ اس کا وجود اس لیے ہے
کہ پرانی چیزوں کو محفوظ رکھا جاسکے۔ آنے والے اس میں نئی چیزوں کا اضافہ
کرتے ہیں۔ انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقاء کا راز یہی ہے اور اسی وجہ سے
انسان کو دیگر حیوانات پر تفوق حاصل ہے ورنہ آپ غور کریں گے کہ کوا آج سے
بیس لاکھ سال پہلے جس طرح گھونسلا بناتا تھا آج بھی اسی طرح بناتا ہے۔ اس
نے کوئی ترقی نہیں کی۔ لیکن انسان و جانور ہے جو چاند تک پہنچ چکا ہے۔ اس
نے اتنی ترقی کی کہ آج وہ ساری کائنات پر حکومت کررہا ہے۔ یہ ساری ترقیاں
انسان نے اس لیے کی ہیں کہ اس کو اپنے سے پہلے کے لوگوں کے تجربات کا جو
علم حاصل ہوا اس کو محفوظ رکھا اور اس میں اس نے اپنے ذاتی تجربوں سے روز
افزاؤں اضافہ کیا اور اس سے استفادہ کرتا رہا۔ اور یہ سب قلم کی بدولت ممکن
ہوا۔ آیت (علم بالقلم، علم الانسان مالم یعلم) میں اسی حقیقت کی طرف قرآن
مجید نے بہت ہی بلیغ انداز میں اشارہ کیا ہے۔ جب "سورۃ اقراء" (یعنی سورۃ
العلق) کی پہلی پانچ آیاتا نازل ہوئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم غار کو چھوڑ کر گھر واپس آئے اور اپنی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہا کو بتایا کہ مجھے آج یہ واقعہ پیش آیا ہے۔ مجھے خوف ہے کہ وہ شاید کسی
دن مجھے نقصان نہ پہنچائے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے تسلی دی اور کہا کہ
خدا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ضائع نہیں کرے گا۔ ورقہ بن نوفل میرا
چچا زاد بھائی ہے جو ان معاملات (یعنی فرشتے، وحی وغیرہ) سے واقف ہے۔ کل
صبح جاکر ہم اس سے گفتگو کریں گے، وہ آپ کو بتائے گا۔ میں ان چیزوں سے واقف
نہیں ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ شیطان کبھی آپ کو دھوکا نہیں دے سکے گا۔ ایک
روایت کے مطابق صبح کو وہ آپ کو اپنے ساتھ ورقہ بن نوفل کے پاس لے جاتی ہیں۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنے ان
کے عزیز دوست ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو حضرت خدینہ رضی اللہ عنہا
نے ان کو یہ قصہ سنایا اور کہا کہ انہیں اپنے ساتھ لے جاکر ورقہ سے ملاؤ۔
ورقہ بن نوفل بہت بوڑھے تھے۔ ان کی بصارت زائل ہوچکی تھی، مذہباً نصرانی
تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس پہنچے اور یہ قصہ
سنایا تو ورقہ نے بے ساختہ یہ الفاظ کہے: "اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) جو چیزیں تم نے ابھی بیان کی ہیں، اگر وہ صحیح ہیں تو یہ ناموس موسیٰ
علیہ السلام سے مشابہ ہیں"۔ "ناموس" کا لفظ اردو میں عام طور پر عزت کے لیے
مستعمل ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں یہ مفہوم نہیں ہوسکتا۔ بعض مفسرین ناموس کے
معنی "قابل اعتماد" لکھتے ہیں، وہ بھی یہاں موزوں نہیں ہے۔ بعض لکھتے ہیں
کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ناموس کا نام دیا جاتا ہے۔ اسلامی ادبیات
میں وہ "روح الامین" ہیں مگر یہ معنی بھی یہاں کام نہیں دیتے۔ میرے ذہن میں
یہ آتا ہے کہ "ناموس" اصل میں ایک اجنبی لفظ ہے، جو معرب ہوکر عربی زبان
میں استعمال ہوا۔ یہ یونانی زبان کا لفظ "ناموس" (Nomos) ہے۔ یونانی زبان
میں لفظ توریت کو نوموس یعنی قانون کہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ورقہ بن نوفل
کا بیان ہے کہ یہ چیز حضرت موسیٰ علیہ السلام کی توریت سے مشابہ ہے۔ اور
یہی معنی زیادہ قرین قیاس نظر آتے ہیں۔
قرآن مجید کی تبلیغ و اشاعت کے متعلق قدیم ترین ذکر ابن اسحٰق کی کتاب
المغازی میں ملتا ہے۔ یہ کتاب ضائع ہوگئی تھی لیکن اس کے بعض ٹکڑے حال ہی
میں ملے ہیں اور حکومت مراکش نے ان کو شائع بھی کیا ہے۔ اس میں ڈیڑھ سطر کی
ایک بہت دلچسپ روایت ہے، جسے ابن ہشام نے اپنی سیرۃ النبی میں معلوم نہیں
کس بناء پر یا سہواً چھوڑ دیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: "جب کبھی رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن مجید کی کوئی عبارت نازل ہوتی تو آپ سب سے
پہلے اس مردوں کی جماعت میں تلاوت فرماتے پھر اس کے بعد اسی عبارت کو
عورتوں کی خصوصی محفل میں بھی سناتے"۔ اسلامی تاریخ میں یہ ایک ہم واقعہ ہے،
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عورتوں کی تعلیم سے بھی اتنی ہی
دلچسپی تھی جتنی مردوں کی تعلیم سے۔ یہ قدیم ترین اشارہ ہے جو قرآن مجید کی
تبلیغ کے متعلق ملتا ہے۔ اس کے بعد کیا پیش آیا یہ کہنا مشکل ہے لیکن بالکل
ابتدائی زمانے ہی سے ہمیں ایک نئی چیز کا پتہ چلتا ہے وہ یہ کہ قرآن مجید
کو لکھوایا جائے اور غالباً حفظ کرانا بھی اسی ابتدائی زمانے سے تعلق رکھتا
ہے، جب حضرت جبرئیل علیہ السلام نے پہلی وحی کے موقع پر قرآن مجید کی سورۂ
اقراء کی پہلی پانچ آیتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچائیں
تو ایک حدیث کے مطابق حضرت جبرئیل علیہ السلام نے دو کام اور کیے۔ ایک تو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو استنجاء اور وضو کرنا سکھایا کہ نماز
کے لیے کس طرح اپنے آپ کو جسمانی طور پر پاک کریں۔ دوسرے یہ کہ نماز پڑھنے
کا طریقہ بھی بتایا۔ خود جبرئیل علیہ السلام امام بنے اور پیغمبر مقتدی کی
حیثیت سے پیچھے کھڑے دیکھتے رہے کہ پہلے کھڑے ہوں، پھر رکوع میں جائیں، پھر
سجدہ کریں وغیرہ اور ساتھ ساتھ خود بھی وہی کرتے رہے۔ ظاہر ہے کہ نماز میں
قرآن مجید کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں، لہٰذا ابتدائی زمانے ہی سے جب لوگ
مسلمان ہونے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حکم دیا
ہوگا کہ قرآن مجید کو حفظ بھی کرو اور روزانہ جتنی نمازیں پڑھنی ہوں ان
نمازوں میں ان کا اعادہ بھی کرتے رہو۔ گویا اس وقت ہمیں دو باتیں نظر آتی
ہیں۔ قرآن مجید حفظ کرنا اور اسی کو لکھنا۔ آدمی کو کسی نئی چیز کو ازبر
کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ اس کے سامنے کوئی تحریری عبارت ہو تو اس کو بار
بار پڑھتا ہے بالآخر وہ حفظ ہوجاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں قرآن کو حفظ کرنا
اور لکھنا دونوں ایک ہی زمانے کی چیزیں ہیں۔ ہمارے مورخ بیان کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب کوئی آیت نازل ہوتی تو وہ اپنے
صحابہ میں سے کسی ایسے شخص کو جسے لکھنا پڑھنا آتا ہوتا، یاد فرماتے اور اس
کو املا کراتے تھے۔ اہم بات یہ بیان ہوئ ہے کہ لکھنے کے بعد اس سے کہتے کہ
"جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھ کر سناؤ" تاکہ اگر کاتب نے کوئی غلطی کی ہو تو اس
کی اصلاح کرسکیں۔ یہ قرآن مجید کی تدوین کا آغاز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ تھا کہ لکھوانے کے بعد اپنے صحابہ کو حکم دیتے کہ
اسے ازبر کرلو اور روزانہ دو وقت کی نمازوں میں پڑھو۔ اس وقت دو نمازیں تھی
معراج کے بعد پانچ نمازیں ہوئیں تو دو کے بجائے پانچ مرتبہ اس کو لوگ نماز
میں دہرانے لگے۔ اس کا ایک عملی فائدہ یہ ہے کہ اگر آدمی کا حافظہ اچھا نہ
ہو اور سال بھر میں مثلاً صرف عیدالاضحیٰ اور عید الفطر کے دن قرآن مجید کو
حافظے کی مدد سے پڑھے تو ممکن ہے کہ اس کو بھول جائے لیکن اگر کوئی آدمی
روزانہ پانچ مرتبہ دہراتا ہے تو ظاہر ہے قرآن مجید اس کے حافظے میں رہے گا
اور وہ اسے نہیں بھولے گا۔
الغرض قرآن مجید کو لکھنے اور اسے حفظ کرنے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے دیا تھا۔ اس سے پہلے کے انبیاء علیہم السلام کی تاریخ میں
ایسی کوئی مثال ہمیں نظر نہیں آتی ہے۔ اس سے بڑھ کر ایک اور کام بھی ہوا وہ
یہ کہ فرض کیجئے میرے پاس ایک تحریری نسخہ موجود جس میں کسی نہ کسی وجہ سے
کتابت کی کچھ غلطیاں موجود ہیں اس غلط نسخے کو میں حفظ کرلیتا ہوں۔ اس طرح
میرا حفظ بھی غلط ہوگا۔ اس کی اصلاح کس طرح کی جائے؟ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے اس طرف بھی توجہ فرمائی اور حکم فرمایا کہ ہر مسلمان کو
کسی مستند استاد ہی سے قرآن مجید پڑھنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے بڑھ کر قرآن مجید سے کون واقف ہوسکتا ہے؟ اس
لیے ہر مسلمان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرآن سیکھنا اور
پڑھنا چاہیے۔ اگر اس کے پاس تحریری نسخہ موجود ہے تو اسے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے تلاوت کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم اگر فرمائیں کہ ہاں یہ نسخہ ٹھیک ہے تب اسے حفظ کیا جائے۔ جب
مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی تو ظاہر ہے کہ ایک آدمی سارے لوگوں کو تعلیم و
تربیت نہیں دے سکتا تھا۔ اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند
ایسے صحابہ کو جن کی قرآن دانی کے متعلق آپ کو پورا اعتماد تھا یہ حکم دیا
کہ اب تم بھی پڑھایا کرو۔ یہ وہ مستند استاد تھے جن کو خود رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم سند دیتے تھے کہ تم پڑھانے کے قابل ہو اور اس کا سلسلہ
آج بھی دنیا میں قائم ہے۔ اگر کوئی شخص کسی استاد سے قرآن مجید پڑھتا ہے تو
قرات کی تکمیل کے بعد استاد کی طرف سے اسے جو سند ملتی ہے اس میں وہ استاد
لکھتا ہے کہ "میں نے اپنے شاگرد فلاں کو قرآن مجید کے الفاظ، قرآن مجید کی
قرات کے اصولوں کو ملحوظ رکھ کر یہ تعلیم دی ہے۔ یہ بالکل وہی ہے جو میرے
استاد نے مجھ تک پہنچائی تھی اور اس نے مجھے اطمینان دلایا تھا کہ اس کو اس
کے اپنے استاد نے اسی طرح پڑھایا تھا۔ اس کا سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم تک پہنچتا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی محفوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔
اسلامی روایات (Tradition) کے سوا دنیا کی کسی قوم نے اپنی مذہبی کتاب کو
محفوظ کرنے کے لیے یہ اصول کبھی اختیار نہیں کیے تھے۔ یہ چیزیں قرآن مجید
کی تدوین کے سلسلے میں عہد نبوی میں ہی پیش آئیں مگر اسی پر اکتفا نہیں کیا
گیا۔ ایک اور چیز کی بھی شروع ہی سے ضرورت تھی۔ قبل اس کے کہ میں اس کا ذکر
کرو، قرآن مجید کے تحریری نسخوں کے متعلق بھی کچھ آپ کو بتاتا چلوں کہ ان
کا کب سے پتہ چلتا ہے۔ غالباً نبوت کے پانچویں سال کا واقعہ ہے کہ حضرت عمر
رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام قبول کیا۔ ان کے واقعہ سے آپ واقف ہوں گے۔ وہ
اس زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سخت جانی دشمن تھے۔ ایک
دن یہ طے کرکے گھر سے نکلے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (نعوذ
باللہ) قتل کر ڈالوں۔ راستے میں ان کا ایک رشتہ دار ملا جس نے اسلام تو قول
کرلیا تھا لیکن اسے چھپا کر رکھا تھا۔ اس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
سے پوچھا کہ ہتھیار سے لیس ہوکر کہاں جارہے ہو؟ چونکہ وہ رشتہ دار تھا اس
لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے بتا دیا کہ میں محمد کو (نعوذباللہ)
قتل کرنے جارہا ہوں کہ اس نے ہنگامہ مچا رکھا ہے۔ اس رشتے دار نے کہا اے
عمر، اپنے قبیلے کو بنو ہاشم کے قبیلے سے جنگ میں الجھانے سے پہلے اپنے گھر
کی خبر لو۔ تہماری بہن فاطمہ بھی مسلمان ہوچکی ہے اس کا شوہر بھی مسلمان
ہوچکا ہے۔ پہلے اپنے گھر کی خبر لو بعد میں دنیا کی اصلاح کرنا۔ حضرت عمر
رضی اللہ تعالیٰ عنہ حیران ہوئے اور سیدھے بہن کے گھر پہنچے۔ دروازے کے پاس
انہوں نے اندر سے کچھ آواز سنی جیسے کوئی شخص گارہا ہے یا خوش الحانی سے
کچھ پڑھ رہا ہے۔ انہوں نے بہت زور سے دروازہ کھٹکھٹایا، گھر سے ایک شخص
نکلا اور یہ اندر پہنچے۔ وہاں بہن اور بہنوئی سے جو سخت کلامی ہوئی اس سے
آپ لوگ واقف ہیں۔ میں مختصراً ذکر کررہا ہوں کہ بالآخر حضرت عمر رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے اپنی بہن کواس بات پر آمادہ کرلیا کہ جو چیزیں پڑھ رہی تھیں
وہ ان کو دکھائیں۔ انہوں نے غسل کرانے کے بعد آپ کو وہ چیز پیش کی۔ یہ قرآن
مجید کی چند سورتیں تھیں۔ ان کو پڑھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ متاثر
ہوئے اور مسلمان ہوگئے۔ اس واقعے سے میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا
ہوں کہ قرآن مجید کی کم از کم چند سورتوں کے تحریری صورت میں پائے جانے کا
ذکر سنہ ٥ نبوی ہی سے یعنی قبل ہجرت سے ملتا ہے۔ اس کے بعد جس تحریری نسخے
کا پتہ چلتا ہے اس کا ذکر بھی دلچسپ ہے۔ یہ غالباً بیعت عقبہ ثانیہ کا
واقعہ ہے۔ مدینے سے کچھ لوگ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
ہاتھ پر مسلمان ہوئے ان میں سے بنی زریق کے ایک شخص کے بارے میں مؤرخین نے
صراحت سے لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید کی اس
وقت تک نازل شدہ سورتوں کا مکمل مجموعہ ان کے سپرد کیا۔ یہ صحابی مدینہ
منورہ پہنچ کر اپنے قبیلے میں اپنے محلے کی مسجد میں اسے روزانہ باآواز
بلند پڑھا کرتے تھے۔ گویا قرآن مجید مدون ہونے یا تحریری صورت میں پائے
جانے کا یہ دوسرا واقعہ ہے جس کا مورخوں نے صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
میں یہ بیان کررہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے
قرآن کو کسی مستند استاد سے پڑھنا پہلی خصوصیت تھی۔ دوسری خصوصیت تحریری
صورت میں محفوظ رکھنا، تاکہ اگر کہیں بھول جائے تو تحریر دیکھ کر اپنے
حافظے کو تازہ کرلیا جائے اور تیسری خصوصیت اسے حفظ کرنا تھا۔ ان تین باتوں
کا حکم دیا گیا تھا۔ لیکن اس میں ایک پیچیدگی اس طرح پیدا ہوگئی تھی کہ
قرآن مجید کامل حالت میں بہ یک وقت نازل نہیں ہوا تھا۔ بلکہ جستہ جستہ 23
سال کے عرصے میں نازل ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو
میکانیکی طور پر مدون نہیں کیا کہ پہلی آیت شروع میں ہو اور بعد میں نازل
شدہ دوسرے نمبر پر رہے بلکہ اس کی تدوین الہام اور حکمت نبوی کے تحت ایک
اور طرح سے کی گئی۔ قرآن مجید کی اولین نازل شدہ آیتیں جیسا کہ میں نے ابھی
آپ سے عرض کیا سورۂ اقراء کی ابتدائی پانچ آیتیں ہیں۔ یہ آیتیں سورہ نمبر
96 میں ہیں۔ جب کہ قرآن مجید کی کل سورتیں 114 ہیں۔ ان میں 96 نمبر پر
ابتدائ سورۃ ہے۔ قرآن مجید میں اب جو بالکل ابتدای سورتیں ملتی ہیں، مثلاً
سورہ بقرہ وغیرہ وہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں۔ دوسرے الفاظ
میں قرآن مجید ترتیب کے لحاظ سے مدون نہیں ہوا بلکہ ایک دوسری صورت میں
مرتب ہوا۔ اس کی وجہ سے لوگوں کو دشواریاں پیش آسکتی تھیں۔ یعنی آج ایک
سورۃ نازل ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہدایت دیتے ہیں کہ اس کو
فلاں مقام پر لکھو۔ پھر کل ایک آیت نازل ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کہتے ہیں کہ اس کو فلاں آیت سے قبل لکھو یا فلاں آیت کے بعد لکھو
یا فلاں سورۃ میں لکھو۔ اس لیے ضرورت تھی کہ وقتاً فوقتاً نظر ثانی ہوتی
رہے۔ لوگوں کے ذاتی نسخوں کی اصلاح اور نظر ثانی کا ذکر بھی ہجرت کے بعد سے
ملتا ہے۔ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان شریف کے
مہینے میں دن کے وقت قرآن مجید کو جتنا اس سال تک نازل ہوا تھا باآواز بلند
دہرایا کرتے تھے اور ایسے صحابہ جن کو لکھنا پڑھنا آتا تھا وہ اپنا ذاتی
نسخہ ساتھ لاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاوت پر اس کا
مقابلہ کرتے جاتے تاکہ اگر ان سے کسی لفظ کے لکھنے میں یا سورتوں کو صحیح
مقام پر درج کرنے میں کوئی غلطی ہوئی ہے تو وہ اس کی اصلاح کرلیں۔ یہ چیز "عرضہ"
یا پیشکش کہلاتی تھی۔ مؤرخین مثلاً امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ نے
صراحت کی ہے کہ آخری سال وفات سے چند ماہ پہلے جب رمضان کا مہینہ آیا تو آپ
نے پورے کا پورا قرآن مجید لوگوں کو دو مرتبہ سنایا اور یہ بھی کہا کہ میں
سمجھتا ہوں کہ میری وفات قریب آگئی ہے کیونکہ قرآن حکیم کے متعلق جبرئیل
علیہ السلام نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں دو مرتبہ پڑھ کر سناؤں تاکہ اگر کسی
سے غلطیاں ہوئی ہوں تو باقی نہ رہیں۔ یہ تھی تدبیر جو آخری نبی نے آخری
پیغام ربانی کی حفاظت کے لیے اختیار فرمائی۔ اس طرح قرآن مجید کے ہم تک
قابل اعتماد حالت میں پہنچنے کا اہتمام ہوا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوگئی تو شروع میں قرآن مجید
کی طرف کسی کی توجہ مبذول نہ ہوئی۔ لوگوں کے پاس جو کچھ موجود تھا اس کو
نماز میں پڑھا کرتے تھے اور اس کا احترام کرتے تھے لیکن پھر ایسا واقعہ پیش
آیا جس نے نہ صرف اسلامی حکومت بلکہ تمام مسلمانوں کو مجبور کردیا کہ وہ
قرآن مجید کی طرف فوری توجہ دیں۔ اس زمانے میں قرآن مجید کا کوئی سرکاری
نسخہ موجود نہیں تھا اور غالباً کسی ایک شخص کے پاس بھی کامل قرآن مجید
لکھا ہوا موجود نہیں تھا۔ یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد
پیش آیا۔ ہوا یوں کہ ملک میں چند لوگ مرتد ہوگئے اور مسلیمہ کذاب نے نہ صرف
ارتداد کیا بلکہ نئے نبی ہونے کا اعلان بھی کردیا۔ وہ چونکہ ایک طاقتور
قبیلے کا سردار تھا اس لیے بہت سے لوگ اس کے حامی بھی ہوگئے۔ حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے جنگ کی۔ یہ جنگ بہت شدید تھی اور اس میں
مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی جب کہ دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی اور جنگ
بھی دشمن کے علاقے میں یمامہ کے مقام پر ہوئی۔ میں جب وہاں گیا تھا تو وہاں
کے لوگوں نے بتایا کہ یہ جنگ موجود شہر ریاض کے مضافات میں ہوئی تھی۔ اس
جنگ میں بہت سے مسلمان شہید ہوئے۔ ان شہید ہونے والوں میں چند لوگ ایسے بھی
تھے جو قرآن مجید کے بہترین حافظ تھے۔ مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ مدینے کے
مسلمانوں کو فتح پر خوشی ہوئی لیکن یہ اطلاع پاکر کہ بہت سے برگزیدہ اور
بہترین حافظ قرآن مسلمان اس جنگ میں شہید ہوئے ہیں رنج بھی ہوا۔ حضرت عمر
رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر قرآن مجید کے تحفظ
پر حکومت نے توجہ نہ کی اور حافظ قرآن رفتہ رفتہ آئندہ جنگوں میں شہید ہوتے
رہے یا طبعی موت سے اس دنیا سے رخصت ہوتے رہے تو پھر قرآن مجید کے لیے بھی
وہی دشواری پیش آئے گی جو پرانے انبیاء علیہ السلام کی کتابوں کے سلسلے میں
پیش آئ تھی۔ اس لیے وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہا
کہ اے امیر المومنین قرآن کے تحفظ پر توجہ فرمائیے۔ یمامہ کی جنگ میں چھ
ہزار مسلمان شہید ہوچکے ہیں جن میں بہت سے حافظ قرآن بھی تھے۔ حضرت عمر رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کی اس تجویز پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جواب،
ان کی سیرت کے ایک خاص پہلو کا مظہر ہے۔ وہ فدائے رسول تھے اور فدائے رسول
کا جواب ایسا ہی ہونا چاہیے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اے عمر (رضی اللہ تعالیٰ
عنہ) جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا وہ میں کیسے
کروں؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحث کرتے ہیں۔ بالآخر دونوں اس بات پر
رضا مند ہوئے کہ کسی تیسرے شخص کو حاکم بنائیں اور وہ جو فیصلہ کردے اس پر
عمل کریں۔ چنانچہ انہوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا
حاکم بنایا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک کاتب وحی تھے۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فوری جواب بھی وہی تھا جو حضرت
ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تھا کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے نہیں کیا وہ ہم کیسے کریں؟ دوبارہ بحث ہوئی۔ حضرت عمر رضی اللہ
تعالیٰ نے ان سے کہا اے زید! اگر لکھیں تو اس میں حرج کیا ہے؟ روایت میں
حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ یہ ہیں کہ واقعی حرج تو مجھے بھی
نظر نہیں آتا۔ یہ ایک جذباتی رویہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے نہیں کیا تو ہم کیسے کریں؟ لیکن اگر کریں تو اس سے کوئی امر مانع
نظر نہیں آتا۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ نے مجھے
حکم دیا کہ یہ کام میں سر انجام دوں تو مجھے یہ اتنا مشکل معلوم ہوا کہ
قرآن مجید کی تدوین کے مقابلے میں اگر مجھے جبلِ احد کے سر پر اٹھانے کا
حکم دیا جاتا تو وہ میرے لیے آسان ہوتا۔
قرآن مجید کی تدوین کے سلسلے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے احکام
قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے شہر مدینہ میں ڈھنڈورا پٹوا دیا کہ جس شخص کے پاس
قرآن مجید کا کوئی حصہ تحریری صورت میں موجود ہے اور رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے پاس "عرضہ" کے موقع پر جو تلاوت ہوتی تھی اس سے مقابلہ
کر کے تصیح شدہ ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پڑھا ہوا
نسخہ موجود ہے تو وہ لاکر اس کمیشن کے سامنے پیش کرے۔ کمیشن کے صدر حضرت
زید بن ثابت تھے لیکن کئی اور مددگار بھی تھے جن میں حضرت عمر رضی اللہ
تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے۔ اس کمیشن کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ قرآن مجید کے
جو نسخے پیش کیے جائیں قابل اعتماد ہوں، عرضہ میں پیش کیے ہوئے نسخے ہوں۔
اگر کوئی آیت کم سے کم دو تحریری نسخوں میں موجود ہو تو اسے لکھا جائے ورنہ
رد کردی جائے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں اس طرح قرآن مجید کی تدوین
ہوئی اور اس کو ایک کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی
نگرانی میں انجام دیا گیا۔ یہ بات بھی نہ بھلائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت کم از کم پچیس حافظ موجود تھے جن میں سے کچھ
انصار تھے اور کچھ مہاجرین، جنہیں سارا قرآن مجید زبانی یاد تھا۔ ان میں
ایک خاتون حافظہ حضرت ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تھیں۔ خود اس کمیشن
کے صدر، زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی حافظ تھے۔ اس لیے انہوں نے جو
کچھ لکھا اس میں یقین کے ساتھ لکھا کہ ان کے ذہن میں بھی اسی طرح موجود ہے
یہاں ایک اور چھوٹی سی بات کا ذکر کرتا ہوں کہ جب لوگ نسخہ لاکر پیش کرتے
تھے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہیں حکم دیتے تھے کہ قسم کھاکر بتاؤ
کہ یہ نسخہ جو تم پیش کررہے ہو وہی ہے جس کی تصیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے سامنے ہوئی ہے۔ وہ قسم کھا کر یقین دلاتے تو پھر اس سے
استفادہ کیا جاتا۔ جب پورا قرآن مجید لکھا جا چکا تو حضرت زید رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اسے شروع سے آخر تک پڑھا۔ اس میں مجھے ایک
آیت کم نظر آئی یہ آیت میرے حافظے میں تو موجود تھی مگر کسی تحریری نسخے
میں موجود نہیں تھی۔ چنانچہ میں نے شہر کے چکر لگائے۔ ہر گھر میں داخل ہوا
اولاً مہاجرین کے گھروں میں، کسی کے پاس یہ آیت تحریری صورت میں موجود نہیں
تھی۔ پھر انصار کے گھروں کو گیا۔ بالآخر ایک شخص کے پاس ایک تحریری نسخہ
ملا۔ وہ نسخہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پڑھا ہوا تھا
لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہدایت تھی کہ جب تک دو تحریری
نسخے نہ ملیں اس وقت تک اس کو قرآن کے طور پر قبول نہ کیا جائے۔ جبکہ یہ
آیت صرف ایک تحریری نسخے میں ملی تھی۔ لیکن یہاں مشیت خداوندی اپنا اثر
دکھاتی ہے۔ اتفاق سے یہ وہ شخص تھا جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ اس کے کسی کام سے خوش ہوکر کہا تھا کہ آج سے تمہاری
شہادت دو شہادتوں کے مساوی سمجھی جائے گی، ان کا نام خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ تھا۔ غرض یہ قدرت کی طرف سے پیشگی انتظام تھا۔ اس طرح اس آیت کو انہوں
نے صرف ایک شخص سے لے کر نقل کیا۔ ان کا بیان ہے کہ اس کے بعد میں نے قرآن
کو دوبارہ پڑھا تو ایک اور آیت کی بھی کمی نظر آئی۔ ممکن ہے کہ وہ ایک ہی
واقعہ ہو اور آیت کے متعلق راویوں میں اختلاف ہو۔ بہر حال وہاں بھی یہی کہا
جاتا ہے کہ اس نام والے ایک شخص نے وہ چیز بیان کی۔ یہ آیتیں جن کا ہمارے
پاس صراحت سے ذکر موجود ہے، کہ کون سی آیتیں تھی، فرض کیجئے کہ اگر آج ہم
ان کو قرآن مجید سے خارج بھی کردیں تو کوئی اہم چیز خارج نہیں ہوتی۔ قرآن
مجید کی جن آیتوں کی طرف یہ اشارہ ہے ان کا مفہوم دوسری آیتوں میں بھی
موجود ہے۔ لیکن بہر حال جس احتیاط سے قرآن مجید کی تدوین عمل میں آئی اس کا
مقابلہ تاریخ عالم کی دینی کتابوں میں سے کوئی کتاب بھی نہیں کرسکتی۔
ایک اور نکتہ یہاں بیان کرنا خالی از فائدہ نہ ہوگا اور اسی پر یہ تقریر
ختم کرتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے کا ذکر ہے، جرمنی کے عیسائی پادریوں نے یہ
سوچا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں آرامی زبان میں جو انجیل تھی
وہ تو اب دنیا میں موجود نہیں۔ اس وقت قدیم ترین انجیل یونانی زبان میں ہے
اور یونانی سے ہی ساری زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے ہیں۔ لہٰذا یونانی
مخطوطوں کو جمع کیا جائے اور ان کا آپس میں مقابلہ کیا جائے۔ چنانچہ یونی
زبان میں انجیل کے نسخے جتنے دنیا میں پائے جاتے تھے کامل ہوں کہ جزئ، ان
سب کو جمع کیا گیا اور ان کے ایک ایک لفظ کا باہم مقابلہ (Collation) کیا
گیا۔ اس کی جو رپورٹ شائع ہوئی اس کے لفظ یہ ہیں: "کوئی دولاکھ اختلافی
روایات ملتی ہیں" یہ ہے انجیل کا قصہ۔ غالباً اس رپورٹ کی اشاعت سے کچھ
لوگوں کو قرآن کے متعلق حسد پیدا ہوا۔ جرمنی ہی میں میونک یونیورسٹی میں
ایک ادارہ قائم کیا گیا "قرآن مجید کی تحقیقات کا ادارہ" اس کا مقصد یہ تھا
کہ ساری دنیا سے قرآن مجید کے قدیم ترین دستیاب نسخے خرید کر، فوٹو لے کر،
جس طرح بھی ممکن ہو جمع کیے جائیں۔ جمع کرنے کا یہ سلسلہ تین نسلوں تک جاری
رہا۔ جب میں 1933ء میں پیرس یونیورسٹی میں تھا تو اس کا تیسرا ڈائریکٹر
پریتسل Pretzl، پیرس آیا تھا تاکہ پیرس کی پبلک لائبریری میں قرآن مجید کے
جو قدیم نسخے پائے جاتے ہیں ان کے فوٹو حاصل کرے۔ اس پروفیسر نے مجھ سے
شخصاً بیان کیا کہ اس وقت (یہ 1933ء کی بات ہے) ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں قرآن
مجید کے بیالیس ہزار نسخوں کے فوٹو موجود ہیں اور مقابلے (Collation) کا
کام جاری ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں اس ادارے کی عمارت پر ایک امریکی بم گرا
اور عمارت اس کا کتب خانہ اور عملہ سب کچھ برباد ہوگیا لیکن جنگ کے شروع
ہونے سے کچھ ہی پہلے ایک عارضی رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ کے الفاظ یہ
ہیں کہ قرآن مجید کے نسخوں میں مقابلے کا جو کام ہم نے شروع کیا تھا وہ
ابھی مکمل تو نہیں ہوا لیکن اب تک جو نتیجہ نکلا ہے وہ یہ ہے کہ ان نسخوں
میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں تو ملتی ہیں لیکن اختلافاتِ روایت ایک بھی
نہیں۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ کتابت کی جو غلطی ایک نسخے میں ہوگی وہ
کسی دوسرے نسخوں میں نہیں ہوگی۔ مثلاً فرض کیجئے "بسم اللہ الرحیم" میں
"الرحمٰن" کا لفظ نہیں لیکن یہ صرف ایک نسخے میں ہے۔ باقی کسی نسخے میں
ایسا نہیں ہے۔ سب میں "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" ہے۔ اس کو ہم کاتب کی غلطی
قرار دیں گے۔ یا کہیں کوئی لفظ بڑھ گیا ہے مثلاً ایک نسخے میں بسم اللہ
الرحمٰن الرحیم ہے باقی نسخوں میں نہیں تو اسے کاتب کی غلطی قرار دیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایسی چیزں کہیں کہیں سہو قلم یعنی کاتب کی غلطی سے ملتی ہیں
لیکن اختلاف روایت یعنی ایک ہی فرق کئی نسخوں میں ملے ایسا کہیں نہیں ہے۔
یہ قرآن مجید کی تاریخ کا خلاصہ، جس سے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ قرآن مجید
میں خدا کا جو فرمان ہے (انا نحن نزلنا الذکر ونا لہ لحافظون) "ہم ہی اسے
نازل کرتے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے" یہ تمام واقعات جو میں نے آپ
سے بیان کیے اس آیت کی حرف بحرف تصدیق کرتے ہیں۔
|