پی کے

جنابِ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ’’ أرید من قریش کلمۃً تَدِینُ لھم بھا العرب‘‘ میں ’’تدین‘‘ سے مراد طاعت، اتباع اور فرماں برداری ہے اور ایک دوسری روایت ’’ إنّہ علیہ السّلام کان علی دین قومہ‘‘ میں ’’دین‘‘ سے یا تو حج، نکاح، میراث وغیرہ احکام ِاسلام مراد ہیں، جو ملت ابراہیمیہؑ کی باقیات کے طور پر اب عہد نبویﷺ میں بھی موجود تھے، یہی بعض محققین کا قول ہے ۔ اور یاسخاوت وشجاعت جیسے اقدار،عادات واخلاق اس سے مراد ہیں، جو کسی قوم کی خمیرمیں فطرت وطبیعت کا حصّہ ہوتے ہیں،دونوں اقوال منقول ہیں۔ خوارج کے متعلق جو حدیث میں آیا ہے ’’یمرقون من الدین مروق السّھم من الرّمےّۃ‘‘وہ دین سے ایسے نکلیں گے جیسے تیر شکار سے آر پار ہو تا ہے، اس میں بھی دین سے طاعت مراد ہے ،کیونکہ ایک آدمی نے جب حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے پوچھا ’’ أکفّارٌھُمُ؟ ‘‘کیا وہ لوگ کافر ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا ’’من الکفرِ فرّوا ‘‘ کفر سے تو وہ بھاگے ہیں اوردوسرا سوال تھا’’أفمنافقون ھُمُ؟ ‘‘ تو کیا وہ منافق ہیں؟ فرمایا ’’إن المنافقین لایذکرون اﷲ إلّا قلیلاً وھؤلاء یذکرون اﷲ بکرۃً وأصیلاً ‘‘منافق تو اﷲ کو بہت کم ہی یاد کرتے ہیں جبکہ یہ لوگ صبح وشام اﷲ کو یاد کرتے ہیں۔ ظاہر ہے بقولِ حضرت ِ علی ؓجب خوارج کا فر بھی نہیں ہیں اور منافق بھی نہیں، تو یہی اس کا معنی اور اس سے مراد ہوسکتا ہے کہ وہ جنت سے بھی آگے کو نکل جانے والے متشددین، قرآن وسنت کے طاعت گزار وفرماں بردار نہیں ہوں گے، چنانچہ فرمایا ’’قوم أصابتھم فتنۃ فعَمُوا وصمُّوا ‘‘ فتنے میں پڑ گئے سواندھے بہرے ہوگئے،راہِ حق سے بھٹک گئے،ضال اور بے راہ رو ہوگئے ،اسی لئے آپﷺ نے فرمایا کہ یہ لوگ جہاں بھی ملیں انہیں قتل کرو،ہمارے ایک بیان کے دوران ایک صاحب کھڑے ہوکر پوچھنے لگے،کیا کسی مسلمان کو بھی حاکم قتل کرسکتاہے ،ہم نے کہا،کیوں نہیں،اگر خدا نخواستہ وہ زانی ہے،باغی ہے، قاتل ہے،خارجی یا فتنہ پرورہے۔

بہرحال ہر شخص، ہر قوم، ہر سوسائٹی، ہرملک کا اپنا ایک دین ہوتا ہے ،یعنی زندگی گزارنے کا ایک طریقہ، کچھ عادات، خیالات وغیرہ جو کبھی نسلی اور قومی بنیادوں پر استوار ہوتے ہیں جیسے سامی مذاہب ،کبھی جغرافیائی تقسیم کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں جیسے آریائی اور منگولی مذاہب اورکبھی دوسری مختلف بنیادوں پر۔ اس طرح ابتدائے آفرینش سے اب تک کئی ایک ادیان وجود میں آئے ہیں، جن میں بہت سے تو حوادث زمانہ کی نذر ہوچکے ہیں اور مرورِ اےّام کے سبب آج ان کے نام تک سے کوئی واقف نہیں ہے، بہتوں کا صرف تاریخ میں تذکرہ ملتا ہے اور بہتیرے آج بھی کسی نہ کسی صورت دنیا کے نقشے پر موجود ہیں۔نام کے تو یہ بھی دین ہی ہیں لیکن ان سب میں دینِ اسلام الہامی اور آسمانی ادیان کے سلسلۂ ذھبیہ کی ایک کڑی اور ان سب کے لیے ناسخ اور خاتم دین، اﷲ کے آخری پیغام کا نام ہے۔

اسلام ایک مسلمان کو یہ تو اجازت نہیں دیتا کہ وہ اﷲ کے برحق دین کو اپنی ناقص عقل کی کسوٹی پر پرکھے اورجو اسے ٹھیک معلوم ہو، اسے لے اور جو دل کو نہ لگے، اسے چھوڑ دے۔ یا عقل پرستی کی رو میں بہہ کراپنے جذبات اور مخصوص مزاج کے تناظر میں، دوسرے ادیان کے ساتھ اس کا محاکمہ کرے اور پھر اس پر کوئی اپنا من چاہا حکم لاگو کردے۔ تاہم قرآن وحدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تقلیدی ایمان سے تحقیقی اور علیٰ وجہ البصیرت ایمان کی اسلام میں زیادہ اہمیت و فضیلت ہے،چنانچہ رانگ نمبر اور رائٹ نمبر معلوم کرنے کے لئے ’’پی کے‘‘میں بھی اسی تلاش وجستجوکی دعوت دی گئی ہے۔ اور اسی لئے بدعت و خارجیت سے بچنے کے لئے اسلام اپنے ماننے والوں کو عقل سے کام لینے، دل کی آواز سننے، دیکھنے، سوجھ بوجھ اور فکرونظرسے کام لینے، تحقیق کرنے، استنباط واجتہادکرنے، سوچنے اور غور کرنے کے لیے کہتا ہے۔ شعور، احساس، تنبّہ، تدبّر،تفکر، تیقّظ اور تحرّی جیسی چیزوں کی تحسین کرتا ہے۔ گویااسلام نقل وعقل میں اعتدال، وسطےّت(میانہ روی) اور بصیرت کو اختیار کرنے کی تحریض وترغیب دیتا ہے،بالفاظِ دیگر اسلام ان دونوں سے حصہ بقدرِ جثہ لینے کا داعی ہے۔

وہ اگر ایک طرف اندھوں بہروں، جاہلوں، حد سے نکلنے والوں، اندازے اور تخمینے لگانے والوں کے طرزِ عمل سے ڈراتا ہے اور اس کی مذمت کرتا ہے۔ آباء پرستی، رسوم پروری، گروہ بندی کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور راہِ حق کو بھی علی وجہ البصیرت اور ازراہِ انتخاب اختیار کرنے پر زور دیتا ہے، آباء واجداد سے توارُث وتقلید کی بنیاد پر، دیکھا دیکھی اوراندھا بہرا بننے کی نفی کرتاہے……تو دوسری طرف نِری عقل پرستی سے بھی اپنے ماننے والوں کو منع کرتاہے۔

’’پی کے‘‘ کے تناظرمیں جس طرح ہمیں ایک سچے اور بر حق خدا کو تلاش کرنے کے لئے ایک سچے اور برحق دین ومذہب کے سہارے کی ضرورت ہے، اسی طرح اُس دین ومذہب کی صحیح اور معتدلانہ تعلیمات کی تلاش و تحقیق بھی اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل ودانش کی وساطت سے ہمارا فریضہ ہے،’’الا بلا بر گردنِ ملا‘‘ کا زمانہ اب نہ رہا،یہ دلیل اور عقل ومنطق کا دور ہے،تو کیا کوئی ہے جو دینی معاملات میں معقولیت کو بروئے کار لائے؟
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 823254 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More