یقینا مذہب اسلام میں اخلاقی
معاملات،سماجی معاملات ،ملی مسائل،عوامی مسائل،گھریلومسائل،انسانی زندگی
میں روز مرہ واقع ہونے والے مسائل کے بارے میں واضح ہدایات ہیں ،احکامات
ہیں،یعنی دین اسلام کا مزاج انسانیت نوازی ہے،انسانی ہمدردی ہے ،دین
خیرکاداعی ہے ،حق کا علمبردار ہے،سچ کا گرویدہ ہے،جھوٹ کوناپسند
کرتاہے،آپسی رواداری ،اتحاد ،بھائی چارہ ،امن وآشتی کے پیغام کو دنیا میں
برپاکرنے کے لئے آیا ہے،اسلامی امت ایک عالمی امت ہے ،بین الاقوامی نیشن
ہے،دین ایک انسانی مذہب ہے ،فطری مذہب ہے،انسانوں کے مزاج سے ہم آہنگ ہونے
والا دھرم ہے،اس مذہب میں اصلاح معاشرہ پر بہت محنت کی گئی ہے،سماج سدھار
پر بہت زور دیا گیاہے،لوگوںکے ساتھ عدل وانصاف کوقائم رکھنے کی پوری تاکید
کی گئی ہے،مظلوم کی حمایت کی گئی ہے،ظالم کواس کے ظلم وبربریت کی سزا دی
گئی ہے،ہرانسان کواس کا پوراپورا حق دیاگیاہے،مرد کو مرد کا حق اورعورت کو
عورت کا حق نہایت عد ل کے ساتھ ،انصاف کے ساتھ عطاکیاگیاہے،اس امت کا تعارف
قرآن مقدس میں یوں بیان کیاگیاہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ تم بہترین امت ہو،تم
لوگوں کے لئے برپا کی گئی ہو،کیونکہ تم بھلائی کی بات کرتے ہو،لوگوں کو
برائیوں سے روکتے ہو،اوراللہ تعالی پر ایمان ویقین رکھتے ہو،یعنی یہ امت
لوگوں کے فائدے کے لئے برپا کی گئی ہے،انسانوں کی نفع رسانی کے لئے پیداکی
گئی ہے،اور یہ امت سرتاپا باعث خیر ہے ساری انسانیت کے لئے،صرف مسلمانوں کے
لئے نہیں ،بلکہ یہ امت ہرانسان کے نفع کے لئے ،اس کے فائدے کے لئے،اسکو
صحیح بات بتانے کے لئے،برائی سے روکنے کے لئے برپا کی گئی ہے،یعنی کوئی
تفریق نہیں کی جائے گی ،یعنی خدمت خلق کے سلسلے میں نہ ہندو دیکھاجائے گا
اورسکھ ،نہ یہودی نہ عیسائی ،بلکہ بلا تفریق مسلک ومذہب پوری مددکی جائی گی
،فوائد اور منافع کی جتنی بھی شکلیں ہونگی سب کو فراہم کیا جائیگا۔
اللہ کے رسول ﷺکی نبوت سے پہلے کی چالیس سال کی زندگی لوگوں کی خدمت میں
گزری ،آپ ﷺ یتیموں کے کام آتے تھے ،بیوائوں کا سہارے بنتے تھے ،کمزورں
اورمسکینوں کی مدد کرتے ہیں ،بخاری شریف میں سرور کائنات فخرموجودات حضرت
محمد ﷺ کو حضرت خدیجہ ؓنے اس مو قع پر جب پہلی بار آپ ﷺ پر غار حراء میں
وحی نازل ہوئی اور آپ ﷺ پریشان ہوکر اپنے گھر تشریف لائے توکچھ اس طرح تسلی
دے رہی ہیں ،نہیں ہرگز نہیں اللہ تعالی آپ کو رسوا نہیں کریں گے ،کیونکہ آپ
رشتوں کو جوڑتے ہیں ،صلہ رحمی کا معاملہ کرتے ہیں،آپ لوگوں کابوجھ اٹھاتے
ہیں ،مسکین کے لئے آپ مال کماتے ہیں،مصیبت زدہ اورپریشان حال انسان کی آپ
مدد کرتے ہیں ،اللہ آپ کوکامیاب کرے گا ،حضرت خدیجہ ؓ یہ اوصاف بیا ن کررہی
ہیں جو حضورﷺسے سب سے زیادہ قریب تھیں ،آپ ﷺ کی صبح وشام کو دیکھا ہوگا،آپ
کے ایک ایک عمل سے واقف ہونگی ،یہ نہیں کہا کہ آپ بہت نماز پڑھتے ہیں ،آپ
بہت تلاوت کرتے ہیں ،وغیرہ وغیرہ،اس بات سے یہ اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ
اسلام میں حقوق العباد کی کتنی اہمیت ہے ،ایک حدیث شریف میں بیان کیا گیا
ہے کہ سارے سارے بندے اللہ کا کنبہ ہے ،اللہ کو اپنے بندوں سے پیارہے
،اگرکوئی انسان کسی کمزورکی مدد کرتاہے توگویا وہ اللہ کی مدد کرتاہے ،حضرت
ابن عباس ؓ کی ایک روایت وہ فرماتے ہیں اگر کوئی اعتکاف کی مجلس میں
بیٹھاہو اورکوئی مریض ہے جس کی عیادت نہیں ہوپارہی ہے ،تو معتکف اعتکاف کی
مجلس کو چھوڑ دے اورمریض کی عیاد ت کرے ،اس کی دل بستگی کاسامان فراہم کرے
اوراگرکوئی ایساکرتاہے تواسکو ستر بار اعتکاف میں بیٹھنے سے زیادہ ثواب ملے
گا ،اسی حدیث کی وجہ سے ایک مرتبہ حضرت ابن عباس ؓ نے اپنا اعتکا ف چھوڑ
دیاتھا،بہرحال اسلام میں اخلاق کی ،خدمت خلق کی ،انسانیت نوازی اورانسانی
ہمدردی کی بہت اہمیت ہے،لیکن افسوس صدافسوس !عوام میں اسلام کے تئیں
جوافکار ونظریات ہیں وہ یکسر غلط ہیں ،آج اسلام کی شکل کو مسخ کرکے عوام کے
سامنے پیش کیا جارہاہے جس کہ وجہ سے لوگ اسلام سے بیزا ر ہورہے ہیں،اسلام
دشمنی لوگوں کے دلوں پیدا ہورہی ہے،اسی وجہ سے اسلامی شعائر کی پامالی
ہورہی ہے ،باریش انسان کو دہشت پسند سمجھاجارہاہے ،سب سے بڑی غلطی خودہماری
ہے کہ ہم نے اسلامی تعلیمات کو لوگوں تک صحیح طریقے سے پہنوچایا نہیں ،ہم
نے اسلامی تعلیمات کو نافذ کرکے لوگوں کودکھایا نہیں ،بس ہم نے اپنا نام
عبداللہ اور عبدالرحمن رکھ لیا ہے ،اگر ہم صحیح معنوں میں اسلام کے شیدائی
بن جائیں ،اسلامی اخلاق سے آراستہ و پیراستہ ہوجائیں تو لوگ اسلام سے
اورمسلمانوں سے محبت کرنے لگیں گے ،مسلمانوں کے عاشق ہوجائیں گے ،جیسے اللہ
کے رسول ﷺ کے جانی دشمن جب آپ کے قریب آتے ہیں ،آپ سے ملتے جلتے ہیں ،آپ کے
اخلاق کا مشاہدہ کرتے ہیں توآپﷺکے سچے عاشق بن جاتے ہیں ،آپ پر اپنی جان
نچھاور کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ،صحابہ کرام نے اسلام کو عام کیا
،اسلامی اخلاق کو نافذکرکے دکھایا تو پوری دنیا میں ایک انقلاب برپاکردیا
،جہاں کہیں تشریف لے جاتے ایمان کی فضاء قائم ہوجاتی ،ایمان کی بادبہاری
چلنے لگتی ،بڑے بڑے ظالم اورجابر لوگ اسلام کے اعلی اخلاق کو دیکھ کر اوراس
سے متاثر ہوکرنیک اورولی کامل انسان بن گئے ۔
افسوس !اسلام کی جو روحانی خوبصورتی تھی اس کو ہم نے اپنی زندگی سے
دورکردیا ،داڑھی رکھنے کو خود مسلمان لوگ معیوب سمجھنے لگے ،کرتا
اورپائجامہ تو فقیروں کا لباس تصور کیا جانے لگا ،آج ہم خود اپنی شناخت کو
فراموش کر بیٹھے ہیں ،کوئی امتیاز ہمارا باقی ہی نہیں رہا ،ہماری زندگی تو
قرآن وحدیث کی تعلیمات کے مطابق ہونی چاہئے لیکن |