قوم کی لٹتی ہوئی آبرو اور ہماری بے حسی:ایک لمحۂ فکریہ

شہر کی معاشرتی تباہی کے حوالے سے ایک تجزیاتی تحریر

اسلام سے پہلے سہماسہماوجود اور دبی کچلی ذات کانام’ ’عورت‘ ‘ تھا،ظلم وزیادتی سہناجس کامقدر اور مردوں کے لیے سامانِ نشاط بنناجس کانصیبہ،کبھی وہ گروی رکھی جاتی تھی،کبھی جوئے میں ہاری جاتی تھی اور کبھی بازار میں بیچی جاتی تھی۔کائنات کی سب سے بدترین چیزکانام عورت تھا۔نہ اس کی کوئی مرضی تھی اور نہ وہ کسی چیز کی مالک۔سماج میں نہ کوئی اس کی عزت تھی اور نہ ہی کوئی مقام۔شقاوت وبدبختی اس عروج پر تھی کہ لڑکی کی نگہداشت وکفالت باعث ندامت وشرمندگی تھی۔لڑکی کاوجود نحوست کی علامت اور قباحت کانشان تھا۔مگرپیغمبراسلامﷺنے سماج میں پنپتے ہوئے لڑکے اور لڑکی کے بھید بھاؤ کوختم کیا ۔ دونوں کومساوی حقوق عطافرمائے۔جو لڑکی کل تک باپ کی آنکھوں کاکنکر تھی اسے دل کانگینہ بنادیا،جس کی جگہ مردوں کی جوتیوں میں تھی اس کے مقام کواتنابلند کیاکہ سرکاتاج بنادیا ، کل تک جو ذلت کی علامت تھی اسے عزت وعفت اور عظمت کانمونہ بنادیا۔غرضیکہ فرش کی پستی سے اٹھاکر عرش کی بلندی تک پہنچادیا۔ان کی پرورش وصالح تربیت پر والدین کوجنت جیسی لازوال نعمت کا مژدۂ جانفزا عطافرمایااور فضیلت میں اتنابڑھادیاکہ ہادیٔ اعظمﷺنے ارشاد فرمایا:اپنی اولاد کوبرابردو ،اگرمیں کسی کوفضیلت دیتاتولڑکیوں کوفضیلت دیتا۔(طبرانی)

اسلام میں عورت کی عفت اورپاکدامنی کوبھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔اگر کوئی اس کی طرف غلط نگاہ ڈالے تو وہ عنداﷲ معتوب ہوگا۔اور کوئی اس کی عصمت کے تعلق سے غلط الزام لگائے تو ایسے شخص کواسّی کوڑے لگائے جائیں گے اور ہمیشہ کے لیے شرعی عدالت میں اس کی گواہی مردودو باطل قرار دے دی جائے گی۔عورتوں پر اسلام کے یہ وہ احسانات ہیں جنھیں دنیاکبھی فراموش نہیں کرسکتی۔مگر افسوس صد افسوس !جس پستی سے اسلام نے عورت کو نکالا تھا،اسلامی تعلیمات سے بغاوت کرتے ہوئے آج عورت پھر اسی ڈگر کی طرف چل پڑی ہے،جسے وہ آزادی سمجھ رہی ہے۔ درحقیقت یہ اس کی سوچ کافریب ہے، یہ آزادی نہیں بلکہ آوارگی ہے۔مسلم معاشرے میں آج جس طرح کی وارداتیں ہورہی ہیں اسے سننے کے بعد ایک حساس مسلمان کا دل جہاں درد سے کراہ اٹھتاہے وہیں سر شرم سے جھک جاتاہے۔آئے دن ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں جن پر روک لگانا شہر کے بااثر افراد کی اولین ذمہ داری ہے۔لڑکے لڑکیوں کااختلاط ، مسلم خواتین کاغیر مسلموں سے ناجائز تعلقات وغیرہ وغیرہ۔شہر کے مضافات ،ہوٹلیں،بس اسٹاپ حتی کہ تعلیم گاہیں بھی محفوظ نہیں رہیں۔ہر جگہ گناہوں کاماحول عروج پرہے۔ایسا نہیں ہے کہ پوراماحول ہی پراگندہ ہوچکاہے مگر جو کچھ اور جتناہورہاہے وہ بھی قابل برداشت نہیں۔کہاوت مشہور ہے ایک خراب مچھلی سارے تالاب کوگندہ کرتی ہے۔جو بیٹی باپ کی عزت ہے آج وہی بیٹی جانتے ہوئے باپ کی عزت کاجنازہ نکال رہی ہے۔

ہم یہاں چند باتوں کوان خرابیوں سے بچنے کے لیے ہدایۃًپیش کرتے ہیں تاکہ ان پر خاطرخواہ توجہ دی جائے۔اول تو لڑکیوں کوموبائل فون نہ دیاجائے ،اور اگر واقعی والدین کو لگتاہے کہ ہماری بچی کے پاس فون کاہونا ضروری ہے تو سادہ ہینڈ سیٹ دے دیں۔ اونچایا اینڈرائیڈ فون ضروری نہیں۔اگر والدین کومحسوس ہوتاہے کہ انٹرنیٹ کااستعمال تعلیم کے لیے مفید ہے تو گھر میں انٹرنیٹ کنیکشن کا اہتمام کریں،یہ احتیاط اس لیے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے آج کچھ خواتین اپناقیمتی وقت بھی ضائع کررہی ہیں اور اپنی عصمت سے بھی ہاتھ دھورہی ہیں۔کیا ہم ایسے واقعات نہیں جانتے کہ سوشل میڈیاکے ذریعے لڑکا اور لڑکی عشق ومعاشقے کی باتیں کررہے ہیں مگر جب ملاقات ہوئی تو وہ دونوں آپس میں بھائی بہن نکلے یاباپ بیٹی۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی بچیوں کے ریچارج خود کروائیں،بہت سے ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ جب مسلم لڑکیاں غیروں کی موبائل شاپ سے ریچارج کرواتی ہیں، دوکاندار کے پاس نمبر جانے کے سبب بعد میں وہ یا اس کے دوست لڑکی کو پریشان کرتے ہیں ۔والدین کوچاہئے کہ اسکول وکالج کے ذریعے نکلنے والی ٹرپ میں شمولیت سے بھی اپنی بچیوں کوروکیں۔روزآنہ اسکول وکالج کے گیٹ تک گھرکاکوئی بھی ذمہ دار شخص انھیں پہنچانے جائیں اور واپسی میں اپنے ساتھ لائیں۔یہی کام کوچنگ کلاسیس جاتے وقت بھی کریں بلکہ ممکن ہوتو کوچنگ کلاس کے باہر ہی کھڑے رہے اور اختتام پر ساتھ لائیں،یہ اس لیے ممکن ہے کہ کالج کی بہ نسبت کوچنگ کلاس کاوقت کم ہوتاہے۔حتی الامکان کوشش کریں کہ مسلم علاقوں ہی میں ٹیوشن کے لیے بھیجیں،غیر مسلم علاقوں میں جوکوچنگ کلاسیس ہو اگرچہ وہاں مسلم اساتذہ پڑھاتے ہومگر پھر بھی احتیاط کریں۔اس عمل کی حکمت اہل دانش سے مخفی نہیں۔اکسٹرا کلاسیس اور سہیلیوں کی گھر کی کسی بھی قسم کی تقریب میں بھیجنے سے پہلے تحقیق وتفتیش کرلیں۔کالج میں منعقد ہونے والی گیدرنگ میں بھی شامل ہونے سے روکیں کیونکہ اب گیدرنگ میں فلمی گانوں پر ڈانس کرنا ایک عام بات ہے۔حیرت ہوتی ہے ہمیں قوم کے معماروں(اساتذہ)پرجو بچوں کے لیے ایسے پروگرامات کاانعقاد کرتے ہیں جو بچوں کی اخلاقی گراوٹ کاسبب بنتے ہیں۔والدین کوچاہئے کہ احتیاطی تدابیر کااستعمال انتہائی حکمت عملی سے کریں کہیں ایسا نہ ہوکہ ہمارے ہی بچے ہماری نظروں میں مشکوک ہوجائیں یاہم ان کااعتماد کھوبیٹھیں۔اس لیے کہ ہر بچہ ایسی راہ کامسافر نہیں ہوتا۔اختصاراً ہم نے ان باتوں کوپیش کردیا ،اور بھی ایسی بہت سے خرابیاں ہیں جو ناسور کی طرح امت مسلمہ کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں مگر انھیں نہ بیان کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی تحریر۔مگران اشاروں سے ان کی ہولناکیوں کااندازہ ضرور لگایاجاسکتاہے۔اﷲ پاک عقل سلیم عطا عطا فرمائے۔
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 732400 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More