مقصدِ حیات۔۔ ۔۔!
(Imran Ahmed Rajput, Karachi)
قارئین دنیا میں انسان جب تک
اپنی حقیقت کو نہیں سمجھ پائے گا وہ گمراہیوں کے گھپ اندھیروں میں بھٹکتا
رہے گا۔ قارئین جب کسی بھی حقیقت یا سچائی کا علم جاننا ہوتا ہے تو دوہی
عوامل کے ذریعے اُسے صحیح طور پر جانا اور پہنچاناجا تا ہے۔ یعنی ایک تو
اُس کی ابتداء سے شروعات کر کے صحیح حقیقت اور صحت کا اندازہ لگایا جاسکتا
ہے یا پھر اُس کی صحیح حقیقت اُس کے تخلیق کارسے معلوم کی جاسکتی ہے ۔دونوں
ہی راستے عمدا اور قابلِ بھروسہ ہوا کرتے ہیں۔اور اگر یہ دونوں راستے ایک
ہی حقیقت بیان کررہے ہوں تو سمجھیں کے کامیابی مل گئی ۔ پس اسی طرح انسان
بھی ان دو راستوں پر چلتے ہوئے اپنے مقصدِ حیات کوپہنچ سکتاہے اور اپنی
علمی تحقیق و ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی وہ شناخت کھوج سکتا ہے جو
اُس کے تخلیق کار نے اسے اشرف المخلوقات کہہ کر علم و تحقیق کے دروازے اُس
کے لئے کھول دیئے ۔ قارئین ہم نے سوچا اِس موضوع پر ایک مفصل بحث کریں اور
اپنے قلم کوپُرذور جنبش دیں تاکہ شعورِ آگاہی قارئین تک پہنچا ئی جا سکے
لیکن پچھلے دنوں ہمیں علامہ نیاز فتح پوری صاحب کی کتا ب من و یزداں پڑھنے
کا موقع ملاجس میں تقریباً تفصیل کے ساتھ اِس موضوع پر گفتگو کی گئی ہے
جومیرے لئے کافی سحر انگیز ثابت ہوئی ،ہم سمجھتے ہیں یہ کتاب شعورِ انسانی
کے لئے ایک نایاب تحفہ ہے ہم اپنے قارئین کو رائے دینگے وہ اس کتاب کا ایک
بار ضرور مطالعہ کریں۔ لہذاخاکسارنے سوچا کہ ہمارا قلم اس طرح مفصل اور
لائق تحسین گفتگوں قارئین کے سامنے پیش نہ کرسکے گا۔ تو کیوں نہ ہم علامہ
صاحب کے قلم سے نکلی اُس حقیقت کا کچھ حصہ موضوع کی مناسبت سے اپنے قارئین
کے سامنے رکھیں جو کہ خدمتِ انسانی کے ساتھ ساتھ ایک قابل تحسین قدم ہے ۔
لہذاہم نے کچھ تصریحات کے ساتھ علامہ صاحب کے قلم سے لکھی ایک نایاب تحریر
آپ قارئین کو پیش کر رہے ہیں۔
قارئین اکثر لوگوں کے ذہین میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ خدا نے دنیا کو کیوں
پیدا کیا۔۔؟ قارئین یہ سوال خالص مذہبی ہے،یعنی یہ جستجو اُسی شخص میں پیدا
ہوسکتی ہے جو خدا کے وجود کا قائل ہے اور اُسکا پایا جانا تسلیم کرتا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں ایک سوچ منکر ِ خدا (ملحد)کی بھی ہے، اور جو
منکرِ خدا ہے وہ کون اور کس نے کی گفتگو نہیں کرتا بلکہ اُس کی تلاش یہ
ہوتی ہے کہ یہ عالم کیونکر ظہور میں آیا اور اس کے اندر انسان کی حیثیت کیا
ہے۔
جب کہ اس کے برعکس ایک پابند مذہب انسان چونکہ خدا کو بالکل اُسی طرح خالق
و مالک مانتا ہے جو ہر شے پر قادر ہے جس نے "کُن فیاکُن" کے ذریعے پل بھر
میں جو چاہا بنادیا جب چاہا مٹادیا ۔ اس لئے اصولاً اس کے سامنے کیونکر کا
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔کیونکہ ایک قادر و مطلق اور مختارِکل ہستی کو ہر
وقت قدرت و اختیار حاصل ہے کہ جب چاہے بغیر کسی ذریعہ سبب کے اپنے ارادہ سے
ہزار عالم پیدا کردے اور جب اُس کے جی میں آئے آناً فاناً محو کردے۔ لیکن
ایک منکر چونکہ دنیا کی پیدائش کو کسی ہستی کے ارادہ سے متعلق نہیں سمجھتا
بلکہ اُس کو مخصوص اسباب سے وابستہ جانتا ہے اور تدریجی ارتقاء کا قائل ہے
اِس لئے لا محالہ اُسے غور کرنا چاہئے کہ اصول آفرینش کیا ہیں اور کن اسباب
کے تحت کائنات نے موجودہ شکل اختیار کی ہے۔ ۔۔
لیکن بہر حال اس بات میں ایک مذہبی انسان کا نقطہ نظر منکر کے نقطہ نظر سے
بالکل علیحدہ اور واضح ہے اس لئے اگر مندرجہ بالا سوال دونوں کے سامنے پیش
کیا جائے تو ظاہر ہے کہ دونوں کا جواب ایک دوسرے سے مختلف ہوگا۔ لیکن غور
طلب بات یہ ہے کہ کیا واقعی دونوں اس سوال کا جواب دینے کے اہل ہیں ۔۔؟ ایک
مذہبی شخص جو پیدائش ِ عالم کے لئے کسی علت و سبب کے وجود کو ضروری نہیں
سمجھتا وہ نتیجہ و غایت پر غورو فکر کرنے کا مستحق کیونکر قرار دیا جاسکتا
ہے۔۔۔یعنی جب اس نے یہ تسلیم کرلیا کہ خدا قادر مطلق ہے وہ جو چاہے پیدا
کردے اور جب چاہے فنا کردے تو پھر کیوں کا سوال کیسا۔۔اس قسم کی چوں چراں
تو اسباب و علل سے متعلق ہوا کرتی ہے اور جب وہاں سِرے سے اُس کا انکار کیا
جاتا ہے تو استفسار کیونکر ہوسکتا ہے۔؟ البتہ ایک منکر خدا کے متعلق خیال
ہوسکتا ہے کہ اُس نے اس پر غور کیا ہوگا۔ لیکن اگر انصاف سے پوچھئے تو کہنا
پڑے گا ـاِس "کیوں ـ" کا جواب نہ خدا کا اقرار کرنے والا دے سکتا ہے نہ
انکار کرنے والا ۔ کیونکہ جس طرح مذاہب نے بہت سے رازوں سے پردہ نہیں
اٹھایا اُسی طرح سائنس بھی ابھی تک بہت سے معمہ کو حل نہیں کرسکی۔ یعنی اگر
ایک پابند ِ مذہب شخص یہ نہیں بتا سکتا کہ کائنات کے پیدا کرنے سے خدا کا
کیا مقصود ہے تو بڑے سے بڑا سائنسداں بھی نہیں بتا سکتا کہ مادہ و قوت کے
اس ہیجان کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ لیکن قارئین کس قدر حیرت ناک بات ہے کہ ان
رازوں کا معمہ حل نہ کرنے کے باوجود دونوں اس کا جواب دینے کی کوشش کرتے
ہیں اور ان میں سے ہر ایک اصرار کرتا ہے کہ وہی حق پر ہے اُسی کی بات سچ ہے
حالانکہ اِن میں سے کسی کے پاس کوئی ادانیٰ دلیل بھی اس دعوے کے لئے موجود
نہیں ۔
قارئین جہاں تک دنیا میں اہلِ مذاہب کی بات ہے تو اُن میں ایک جماعت تو
علماء ظواہر کی ہے جو اپنے آپ کو مخصوص شریعت کا پابند کہتے ہیں اور جو
مذاہب کو صرف ان کتابوں سے سمجھنا چاہتے ہیں جو اُن کے بعدمیں آنے والے
اسلاف لکھ گئے ہیں اور جن کی بناء پر سوسائٹی کا نظام مقرر کیا جاتا رہاہے۔
دوسری جماعت اہلِ تصوف کی ہے جنھوں نے اپنے مسلک کا نام شریعت نہیں بلکہ
طریقت رکھا ہے۔ اور جو تمام مسائل کو روحانیت سے سمجھنا اور سمجھانا چاہتے
ہیں ، مسلمانوں میں موجوداول الذکر جماعت کے پاس اس سوال کا کھلا ہوا جواب
موجود ہے اگر وہ اِس طرف دھیان دیں تو اُن کو زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں
کیونکہ قرآن نے کھلے ہوئے الفاظ میں واضح طور پر اس سوال کا جواب دیا ہے
(یعنی ہم نے انسان و جنات کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ عبادت
کریں۔۔القرآن) اوراگر آج لفظ عبادت کی صحیح کیفیت و ہیئت متعین ہوجائے تو
ایک مسلمان کے پاس اِس سوال کا جواب دینا کوئی مشکل نہیں رہے گا۔ قارئین
یہی وہ نقطہ ہے جس کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر کسی بھی طرح اِس نقطے کی
الجھی گدھی کو سلجھالیا جائے تو دنیائے عالم میں مثبتِ انسانی کا ایسا
انقلاب برپا ہوجائے کہ شاید پھر کسی تحریکِ جادواں کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
عام طور پر عبادت کا مفہوم نہ صرف اسلام بلکہ تمام دیگر مذاہب میں وہی ہے
جسے پوجا پاٹ یا پرستش سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ لیکن چونکہ دنیا میں کوئی فعل
ارادہ اور نتیجہ سے بے نیاز نہیں ہوسکتا اس لئے ہر شخص کا خواہ وہ کسی بھی
مذہب سے تعلق رکھتا ہو فطری حق ہے کہ وہ ان دونوں باتوں پر غور کرے ، یعنی
یہ کہ وہ کس ارادہ و نیت سے خدا کی پوجا کرتا ہے اور دوسرے یہ کہ جو غرض و
غایت اس نے سمجھ رکھی ہے وہ عبادت سے کس حد تک پوری ہوتی ہے۔ مذہبی اقوام
میں بلا استشنا ء کوئی قوم ایسی نہیں ہے جو اس ارادے و نیت سے عبادت نہ
کرتی ہو کہ اُس سے خدا خوش ہوگا۔ اور وہ ہماری مشکلات کو دور کرے گا پھر
اگر واقعی کبھی کسی کے مصائب دور ہوجاتے ہیں تو وہ اس کو اُسی عبادت کا
نتیجہ خیال کرتا ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ اپنے آپ کو ہی موردِ
الزام ٹھہراتا ہے کہ صحیح طور پر جو حق ِ عبادت کرنے کا تھا وہ ادا نہ
کرسکا۔ جس بنا پر خدا کی خوشنودی حاصل نہ ہوسکی،قارئین اس بات میں شک نہیں
کہ جس حد تک انسان کے جذبات و تاثرات کا تعلق ہے اِس خیال سے اُس انسان کو
کافی تسکین ملتی ہے اور وہ مایوسی کا مقابلہ آسانی سے کرسکتا ہے لیکن جب
سوال جذبات کی دنیا سے علیحدہ ہوکر صرف علمی تحقیق کا ہوتا ہے یا کسی ایسے
شخص کی تسکین کا جو کسی شے کا وجود بغیر علت و دلیل سے ماننے کے لئے تیار
نہیں تو لا محالہ غور کرنا پڑتا ہے کہ عبادت سے خدا کا خوش ہونا کیا معنی
رکھ سکتا ہے اور خدا کی خوشی یا رضامندی کا ہمارے دنیاوی حالات و اسباب سے
کیا تعلق ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے حقیقتِ خدا کا مسئلہ سامنے آتا ہے
یعنی یہ کہ جب تک ہم کو پہلے یہ نہ معلوم ہوجائے کہ خدا کیا ہے اُس کے وجود
کی حقیقت کیا ہے اُس وقت تک نہ ہم عبادت کی کوئی علمی توجیہہ کرسکتے ہیں
اور نہ اس سے کسی نتیجے کے پیدا ہونے پر حکم لگا سکتے ہیں ۔ قارئین خدا کے
متعلق انسان کا اولین تصور بالکل وہی ہے جو دنیا کے کسی مستبد بادشاہ و
حکمراں کے متعلق ہوسکتا ہے ، یعنی خوشامد و تعلق سے خوش ہونا ، تحائف و
نذرانہ قبول کرکے نظرِ خاص رکھنا اور سرتابی و نافرمانی کرنے والے سے غضب
ناک ہوکر سزائیں دینا ۔ اس میں شک نہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ رفتہ رفتہ نفس
خدا کی ماہیت و حقیقت پر بعض مذاہب کے خیالات زیادہ بلند و لطیف ہوگئے ہیں۔
لیکن جس حد تک پرستش کا تعلق ہے خدا کی ہستی اب بھی وہی خوش یا ناخوش
ہوجانے والی بتائی جاتی ہے اور اپنے بندوں کو سزا یا انعام دینے سے بدستور
دلچسپی رکھتی ہے۔ ایک طرف تو یہ بتایا جاتا ہے کہ خدا زماں و مکاں سے
علیحدہ احساس و تاثیر سے بیگانہ اور بے نیاز مطلق ہے اور دوسری طرف کہا
جاتا ہے کہ وہ برہمی و خوشنودی کا محل ہے اور انعام و انتقام کا جذبہ اس کے
اندر پایاجاتا ہے، میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایک ہی وقت میں خدا کو دو متضاد
صفات کے ساتھ جوڑنا کس طرح ممکن ہے اور اِس کی خوشنودی یا برہمی کیا معنی
رکھ سکتی ہے جبکہ وہ خود نہ کسی چیز سے متاثر ہوتا ہے اور نہ اُسے پوجا پاٹ
یا پرستش کی ضرورت ہے۔بعض اہلِ مذہب کہتے ہیں کہ عبادت سے خدا کو خوش کرنے
کا مفہوم خود اپنی اصلاح ہے ،جو بالکل درست بات ہے، لیکن یہاں یہ امر غور
طلب ہے کہ عبادت سے جو اپنی اصلاح وابستہ ہے وہ ہمارے اعمال و افعال سے بھی
کوئی تعلق رکھتی ہے یا نہیں۔۔؟ یعنی محض ہمارا عبادت کرلینا کافی ہے یا
اُسی کے ساتھ اپنی زندگی میں بھی تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ظاہر
ہیکہ محض عبادت خواہ کسی صورت میں ہو بے کار ہے اگر وہ ہمارے اخلاق و اعمال
پر اثر انداز نہیں ہوتی، اس لئے نتیجہ یہ نکلا کہ عبادت کا مدعا اپنے اندر
تبدیلی پیدا کرنا ہے اور اُسی کو خدا کی خوشنودی سے تعبیر کیا گیا تاکہ
لوگوں کو اس طرف توجہ ہو اور وہ اُسے ترک نہ کربیٹھیں۔ بظاہر یہ بیان بہت
دانشمند اور پر اثر ظاہر ہوتا ہے، لیکن اگر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ
انسان کی اصل گمراہی یہ ہے چونکہ اہلِ مذہب نے ہمیشہ یہی لوگوں کو سمجھایا
کہ خدا کی خوشنودی ہی حاصل کرنا عین مدعا ہے اس لئے یہ بات کبھی ان کے ذہین
میں آئی نہیں کہ عبادت کا تعلق خود اپنی اصلاح اعمال سے ہے اور اگر ہم اپنی
زندگی میں کوئی تغیر نہ پیدا کریں تو عبادت بیکار ہے۔ اس کا نتیجہ ایک طرف
تو یہ ہوا کہ عبادت نام قرار دیا گیا صرف چند مخصوص حرکات و مراسم کا اور
دوسری طرف لوگوں کے اخلاق پر یہ خراب اثر پڑا کہ خدا کو عبادت سے خوش رکھنے
کے اعتماد پر وہ دنیا وی معاملات میں ہر قسم کے بد عنوانی پر آمادہ ہوگئے
اور اخوت انسانی و ہمدردی کا جذبہ جو نظامِ تمدن کی جان ہے اُن کے اندر
ضعیف ہونے لگا۔اگر اس امر پر زور دیا جاتا کہ خدا تمھاری عبادت سے خوش نہیں
ہوتا بلکہ تمھاری اصلاح و ترقی سے خوش ہوتا ہے اور عبادت کا مدعا بھی یہی
ہے تو شاید دنیا کی حالت آج دوسری ہوتی۔۔۔۔۔ہر چند بعض عبادت کی ماہیت و
غایت بیان کرتے ہوئے اس حقیقت کا اعلان بار بار کیا ہے لیکن چونکہ عبادت و
پرستش میں حیات بعد الموت کی راحت کا خیال بھی شامل کردیا گیا ، اس لئے اس
دنیاوی زندگی میں اس کا نتیجہ خاطر خواہ برآمد نہیں ہوا اور عام طور پر لوگ
یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اصل زندگی تو مرنے کے بعد ہی شروع ہوگی اور چونکہ
عبادت کے بعد دِلی اطمینان ہوہی گیا ہے اس لئے دو روزہ زندگی کی اصلاح میں
کیا سرکھپا یا جائے ۔قارئین میری رائے میں انسان اور انسانیت کے لئے یہی سب
سے خطرناک بات ہے کہ یہ دنیا فانی ہے انسان فانی ہے اور بقا اُس زندگی کو
حاصل ہے جو مرنے کے بعد شروع ہوگی اور اسی کو سنوارنے کی ضرورت ہے گویا
انسانوں کا یہ اجتماع سرائے کے مسافروں کا اجتماع ہے جسے صبح یا شام منتشر
ہوجانا ہے پھر ظاہر ہے کہ جب تعلیم یہ ہوگی تو انسانوں میں آپس میں کیا
ہمدردی پیدا ہوسکتی ہے اور دنیاوی زندگی کی ترقی و اصلاح کے لئے کون سا
جذبہ کام کرسکتا ہے ۔۔۔جاری ہے۔ |
|