تنقید کے ترکش سے نکلے تیر

 انسان سے خطاکا سرزد ہونا خلاف فطرت نہیں ۔بلکہ اس سے چھوٹی ،بڑی غلطی کا ظاہر ہونا ممکن ہے ۔ایک صورت تو یہ ہے کہ اس سے غلطی سرزد ہوجائے اور ایک صورت یہ ہے کہ وہ غلطی پہ غلطی کرتاچلاجائے ۔اب ایسے میں اگر کوئی ان خطاؤں پر توجہ دلاتاہے اور نظر ثانی کا کہتاہے ۔عیوب کی نشاندہی احسن انداز میں کرتاہے تو ہمیں اسے برابھلاکہنے کی بجائے اپنا محسن سمجھناچاہیے جو ہماری اصلاح جاتاہے ۔لفظ تنقید سنتے ہیں کان کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایک منفی پہلو ہمارے اذہان پر گردش کرنے لگتاہے حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ یہ تنقید ہی تھی کہ انسان بتدریج ترقی کے مدارج تہہ کرتاچلاجارہاہے ۔

بہت سے لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ بہترین اجتماعی عمل وہ ہے جس میں کسی پر تنقید نہ کی جائے۔ یہ ایک منفی سوچ ہے۔ تنقید کوئی معیوب شی نہیں ہے۔ وہ ایک اعلیٰ درجہ کا فکری عمل( (Thinking Process) ہے۔ جہاں تنقید اور اختلاف رائے کا ماحول نہیں ہوگا وہاں ذہنی ارتقاء کا سفر رک جائے گا۔ اور کسی سوسائٹی کے لئے اس سے زیادہ مہلک کوئی اور چیز نہیں ہوسکتی کہ وہ ایسے کند ذہن افراد کا مجموعہ بن جائے جو شعور و ادراک کی نعمتوں سے محروم اور اعلیٰ فکری صلاحیتوں سے خالی ہوں۔ صاف گو انسانوں کی نا قدری، تنقید اور جرأت اظہار کی حوصلہ تملق پسندوں اور غیر سنجیدہ انسانوں کی زردفصل ہی نہیں اگاتی، بسا اوقات یہ چیز معاشرہ میں ذہنی جمود پیدا کرنے، اکابر پرستی (Hero Worship) کی طرح ڈالنے اور فکرو عمل کے سوتے خشک کرنے کا موجب بھی بنتی ہے۔ جب کسی قوم کے ارتقاء کا انحصار اس کی فکری صلاحیتوں پر ہوا کرتا ہے۔ قومیں احتساب عمل اور تنقید کی زور پر ہی ترقی کے مراحل طے کرتی ہیں نہ کہ مداہنت اور مصلحت کوشی کے زور پر۔

آپ میری بات سمجھ رہے ہوں گے کہ یہ اتنی طویل تمہید میں نے کیوں باندھی ۔وجہ یہ ہے کہ سرزمین کشمیر جس کو لوگ جنّت نظیر کہتے ہیں۔اس گلشن کو برباد کرنے کا کوئی موقع کسی نے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔وہ بات ہو کشمیرکی آزادی کی یا کشمیر کی عوام کے معاشی وملی مسائل کی ۔بہر صورت ندامت و پشیمانی ہی رہی ۔لیکن موجودہ حکومت آزاد کشمیر کے بارے میں لاکھ نقائص ہونے کے باوجود مجھے یہ کہہ لینے دیجیے کہ بڑے عرصے بعدپیپلز پارٹی کو یہ نعمت میسر آئی تو وہ انجام سے واقف تھے کہ اب عوام باشعور ہوچکی ہے ۔تعلیم نے سوئے ہوئے ذہنوں کو جگادیاہے ۔اپنے حقوق سے نابلد لوگ اپنے حقوق کو جاننے لگے ہیں ۔ایسے میں چوہدری عبدالمجید صاحب اور ان کے رفقاء جن میں سرفہرست وزیر خوراک جاوید اقبال بڈـھانوی نے کافی حد تک ان زخموں کو مندمل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ایک بہت بڑا مسئلہ ہمارے ہاں شعبہ صحافت اور ایک عام آدمی کا یہ مزاج بن چکاہے کہ وہ دوسرے کے اچھے کام کرنے پر دادتحسین دینے میں بخل سے کام لیتاہے اور تنقید آپ اس سے پوری دنیا کی کروالیں جوان نہ تھکے گانہ چپ ہوگا۔

دیکھیں !میں جس جانب آپ کی توجہ دلانا چاہتاہوں کہ خداراہ آپ تنقید کریں اس میں انسان بہتر سے بہترین کی منازل طے کرتاہے ۔لیکن تنقید برائے تنقید نہ ہو۔اس تنقید میں انسانیت کی اصلاح کا گلدستہ ہو۔نہ کے تعصب ،نفرت و عداوت کا تعفن ۔آپ میں سے کسی کے ذہن میں یہ بات آسکتی ہے کہ میں نے پیپلز پارٹی کی تعریف کی تو یہ میں نے ایک چھوٹی سی مثال کے طورپر پیش کی ۔میں نکیال کے حلقے کے بارے میں اچھی طرح جانتاہوں کیوں کہ مجھے وہ دن یاد ہیں جب چوہدری فیملی ،ملک فیملی کا بچہ نوکری کے لیے جاتاتھا،،توسر سکندرحیات خان صاحب کے بچھائے ہوئے سسٹم میں اس کے لیے کچھ گنجائش نہیں تھی ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج کشمیر کی سیاست کا انحصار وژن ،مشن پر نہیں ۔نسلی تعصب ،برادری ازم پر ہے ۔سردار صاحب نے قابل تحسین کام بھی کیے ۔اس میں بھی کوئی شک نہیں ۔لیکن جہاں جہاں خلاچھوڑااس کو پر کرنااتنا آسان نہیں ۔اسی طرح نکیال کے حلقے میں بڈھانوی صاحب نوکری ،ڈسپنسری ،نادرادفتر و دیگر فلاحی کام کررہے ہیں وہاں ان کی خدمت میں بھی عرض ہے کہ آپ بھی فقط چوہدری برادری پر نوازشات کے درازے نہ کھولے رکھیں ۔سدھن ،راجہ ،ملک سب ہی آپ کے حلقے کے باشندے ہیں سب کے ساتھ یکساں رویہ روا رکھیں ۔

قارئین !آپ تنقید کریں لیکن فقط تنقید نہ کرتے چلے جائیں جہاں تحسین پیش کرنے کا موقع ہووہاں تحسین بھی پیش کریں ۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 594218 views i am scholar.serve the humainbeing... View More