پاکستان میں اسلامی بینکاری کا بڑھتا ہوا رجحان

دور جدید میں بینکنگ کا مطلب سود پر قرض کا لین دین اور کاروباری ذرائع کو فروغ دینا ہے، جبکہ اسلام سود کی بنیاد پر قرض کے لین دین کی بالکل نفی اور ممانعت کرتا ہے، لیکن رہن رکھ کر قرض کا لین دین اور مضاربة و شرکة کے بنیادوں پر کاروبار کو فروغ دینا اور ارباب مال و ارباب ہنر دونوں کو باہمی اشتراک سے ترقی کرنے کے مواقع ضرور فراہم کرتا ہے، اگر ان اسلامی تعلیمات اور اصولوں کی بنیاد پر سرمایہ کاری کے طریقے اختیار کئے جائیں تو اسے ”اسلامی بینکنگ“کہا جاسکتا ہے، لیکن چونکہ مروجہ بینکنگ نظام کا لازمی جز سودی لین دین پر ہے، جبکہ اسلامی بینکنگ میں کلی طور پر اس سے اجتناب لازم ہے، جبکہ پاکستان میں عام مسلمانوں اور تاجروں کی خاطر خواہ تعداد کی یہ خواہش رہی کہ وہ سودی تجارت اور بینکاری سے نجات حاصل کر کے اسلامی اصولوں پر تجارت کریں، امریکا اور یورپ میں حالیہ اقتصادی بحران، مالیاتی اداروں کی بڑے پیمانے پر تباہی، پھر دبئی میں سودی بینکوں کا دیوالیہ ہونا، اتنے بڑے واقعات ہیں کہ جنہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، ان واقعات نے سودی معیشت و بینکاری کے ”بلبلے پن“ کو آشکار کردیا ہے، اس لئے دنیا بھر کے مسلمانوں میں اسلامی بینکنگ کی جانب رجوع کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے، پاکستان میں اسلامی بینکاری نظام کو متعارف ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے جبکہ اس سے پہلے کا بینکنگ سسٹم کئی صدیوں سے موجود ہے اور اپنی ایک ایڈوانس سطح پر پہنچ چکا ہے، اس کے مقابلے میں اسلامی بینکاری بھی بہت تیزی سے اپنا سفر طے کر رہی ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ پاکستان میں اسلامی بینکاری کا مارکیٹ شیئر بڑھتا چلا جا رہا ہے، 2009ء کی دوسری سہ ماہی میں اسلامی بینکوں کی افزائش 12.4 فیصد رہی جو کمرشل بینکوں کی اس مدت میں ہونے والی افزائش سے کہیں زیادہ ہے، پاکستان میں اسلامی بینکوں کے مجموعی اثاثہ جات 313 ارب روپے ہیں، اسلامی بینکنگ کی تیز رفتار پیش رفت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ 2012ء تک اسلامی بینکوں کا مارکیٹ شیئر 12 فیصد تک پہنچ جائے گا۔

اس صورتحال میں ملک کے تاجروں، صنعت کاروں اور عوام الناس کا یہ فرض ہے کہ وہ غیر سودی بینکاری کی حوصلہ افزائی کریں، کیونکہ سود اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھلی جنگ ہے، اس جنگ میں سود خوروں اور سودی کاروبار کرنے والوں کی ناکامی یقینی ہے، ملک سودی معیشت سے جتنا جلد چھٹکارا حاصل کرے یہ اس کی سالمیت اور استحکام کے لئے اتنا ہی مفید ہے، اس وقت پاکستان میں اسلامی بینکنگ میں 15 فیصد اضافہ کی شرح برقرار ہے، دنیا بھر کے 51 اسلامی ممالک میں 500 سے زائد اسلامی بینک اور مالیاتی ادارے اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں جس سے کروڑوں لوگ مستفید ہورہے ہیں، ان اداروں سے استفادہ کرنے والوں میں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی شامل ہیں جو آج غیر سودی بینکاری کو زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں، اگرچہ اس وقت اسلامی مالیاتی اداروں کے اثاثے عالمی بینکنگ اور مالیاتی اداروں کی کل مارکیٹ کا صرف ایک فیصد ہیں، لیکن آئندہ ایک عشرے میں توقع کی جارہی ہے کہ یہ بڑھ کر 8 سے 10 فیصد ہوجائیں گے، پاکستان میں اس وقت 6 اسلامی بینک کام کررہے ہیں جن کی ملک بھر میں 560 شاخیں ہیں، جبکہ 12 روایتی بینکوں کی اسلامی بینکنگ شاخیں بھی موجود ہیں، اسلامی بینکنگ کا ملک کے مجموعی بینکنگ اثاثوں میں حصہ 5 فیصد کے لگ بھگ ہے اور اسلامی بینکوں کا 35 ارب روپے کا تمسکاتی پروگرام ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا غیر سودی قرض منصوبہ ہے ،جس سے حکومت ِپاکستان استفادہ کرسکتی ہے۔

اسلامی بینکنگ دیگر اقسام کی بینکنگ سے کس طرح مختلف ہے اس کا اندازہ اس مثال سے ہوتا ہے کہ اسلامی بینک کمپنیوں کو فلوٹنگ انٹرسٹ ریٹ پر قرضے دیتے ہیں، فلوٹنگ ریٹ کا انحصار کمپنی کی شرح نمو پر ہوتا ہے، چنانچہ بینک کا نفع کمپنی کے منافع کی ایک خاص شرح کی صورت میں ملتا ہے، جب قرض کی اصل رقم واپس کر دی جائے تو نفع میں شراکت کا یہ معاہدہ ختم ہوجاتا ہے، اس نظام کی ایک اور مثال کاروبار میں سرمایہ کاری ہے، کاروبار کرنے والا افرادی قوت فراہم کرتا ہے جبکہ بنک اس میں سرمایہ لگاتا ہے، اس طرح نفع اور نقصان دونوں میں شرکت ہو جاتی ہے، سرمائے اور مزدور کے درمیان اس طرح کا شراکتی انتظام اسلام کے اس اصول کی نشاندہی کرتا ہے کہ کاروبار میں کسی ناکامی کا سارا بوجھ صرف قرض دار کو ہی نہ اٹھانا پڑے، دوسری طرف اس سے آمدن بھی متوازن طور پر تقسیم ہو جاتی ہے اور معیشت پر قرض دینے والے کے تسلط کا بھی سدّ ِباب ہو جاتا ہے، رہن کے معاملے میں بھی بینک اسلامی اصول پر عمل کرتے ہیں، اس نظام میں بینک کوئی چیز خریدنے کے لئے رقم فراہم نہیں کرتا بلکہ مطلوبہ شئے خود خرید لیتا ہے اور پھر اپنا منافع رکھ کروہ چیز صارف کو دوبارہ فروخت کر دیتا ہے، بینک صارف کو اس شے کی قیمت قسطوں میں ادا کرنے کی سہولت بھی دیتا ہے اور تاخیر سے ادائیگی کی صورت میں کوئی اضافی رقم یا جرمانہ بھی ادا نہیں کرنا پڑتا، اس تیسری مثال میں نادہندگی سے بچنے کے لئے فریقین کے درمیان سخت شرائط رکھی جاتی ہیں۔

آج اسلامی بینکنگ اور اسلامی سرمایہ کاری کا ہر طرف بہت شورہے، اسلامی دنیا میں بینکاری کے اس رجحان کو دیکھتے ہوئے مغرب میں بھی حکومتی سطح پر اس نظام کو فروغ دیا جا رہا ہے، اسلامک بینکنگ کا نظام اس وقت پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک میں رائج ہے گو کہ مغربی ممالک میں یہ تصور ابھی اتنا عام نہیں ہے، لیکن اب امریکہ میں بھی اسلامی بینکنگ اور مسلم فنانسنگ نظام متعارف کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے، یوں اس کے فوائد اب صرف اسلامی ممالک تک محدود نہیں رہے ہیں بلکہ دنیا بھر میں تسلیم کئے جارہے ہیں، اس سال برطانیہ سود سے پاک ”سکوک “ اسلامی بانڈ جاری کرے گا، ان بانڈز کی قدر سٹرلنگ پاؤنڈ میں مقرر کی گئی ہے تاکہ برطانیہ میں رہنے والے مسلمان اور دیگر ایسے لوگ جو سٹرلنگ پاؤنڈ میں کاروبار کرنے کے خواہشمند ہیں، اس موقع سے فائدہ اٹھا سکیں، مزید براں یورپ میں یورپی اسلامی سرمایہ کار بینک اور برطانوی اسلامی بینک جیسے کئی بڑے اسلامی مالیاتی ادارے ابھر کر سامنے آرہے ہیں، تھائی لینڈ اور سنگاپور بھی انہی خطوط پر آگے بڑھ رہے ہیں اورایشیاء میں ہانگ کانگ اور سنگاپور سب سے پرکشش اسلامی فنانس مارکیٹ کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔

اس وقت برطانیہ کی کئی یونیورسٹیوں میں اسلامی بینکنگ سے متعلق ماسٹر ڈگری پروگرام اس وجہ سے شروع کئے گئے ہیں کہ اُن کی بینکوں سے ایک بڑی رقم نکل کر مسلمان ممالک کی اسلامی بینکوں میں نہ چلی جائے، چنانچہ وہ اس سرمائے کو اپنی بینکوں میں محفوظ رکھنے کے لئے اپنے یہاں اسلامی بینکاری نظام کو فروغ دے رہے ہیں، اس قسم کے ماسٹر ڈگری پروگرام کی پاکستان میں بھی ضرورت تھی، وفاقی وزارت تعلیم کے زیر نگرانی چلنے والے شیخ زاید اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی میں معمول کی تدریسی سرگرمیوں کے علاوہ گزشتہ چند برسوں سے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اسلامی بینکاری میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ اور ماسٹرز کی ایوننگ کلاسز کامیابی سے جاری ہیں، اس وقت اسلامی بینکوں کو تربیت یافتہ اسلامی بینکاروں کی شدید ضرورت ہے اور انہیں معیاری تعلیم و تربیت کے حامل افراد درکار ہیں، اس سلسلے میں جہاں جامعہ کراچی اپنے اِس سینٹر کے ذریعہ یہ ضرورت پوری کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہی ہے، وہیں اس سے ادارے کے تعلیمی شعبے سے وابستہ شرعی امور کے معاون اور شریعہ ایڈوائزر تربیت یافتہ بینکاروں کی تیاری میں اہم کردار ادا کررہے ہیں تاکہ پاکستان کے اسلامی بینکنگ کو اسلامی اسکالرز اور اقتصادی ماہرین کی مشاورت ہی حاصل نہ ہو بلکہ بینکنگ سروسز اور Products شرعی ماہرین کی زیر نگرانی اسلام کے دائرے کے اندر رہ کر صارفین کی بآسانی پہنچ میں بھی ہو۔

آج اسلامی فنانس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس نے دنیا پر ثابت کیا ہے کہ اسلام ایک پرسکون اور مساوات پر مبنی دین ہے، یہی وجہ ہے کہ آج اسلامی بینکنگ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں موجود اسلامی مالیات اور بینکنگ کی مشترکہ اقدار نے اسے غیرمسلموں کے لئے بھی قابل ِ قبول بنا دیا ہے، اسلامی فنانس نے مساوات کے اصول کو اہمیت دے کر نفع و نقصان میں قرض دار اور قرض خواہ کی برابر شراکت کے ذریعے سرمایہ کاری کے عام مواقع فراہم کئے ہیں، اس طرح کے اصولوں کی بنیاد پر کام کرنا اقتصادی نظریات اور جمہوری اصولوں کے ساتھ پوری طرح مطابقت رکھتا ہے ،یعنی” لوگوں کے ذریعے لوگوں کے لئے معیشت۔“اور یہی وہ اصول ہیں جن پر عمل کر کے اسلامی ممالک اپنی اقتصادی تنہائی دور کرسکتے ہیں۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 357861 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More