ہم دنیا کی بھول بھیلوں میں اس
قدر مصروف ہو گئے ہیں کہ ہمیں یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ ہماری زندگی کا اصل
مقصد کیا ہے۔کبھی ہم نے سوچا کہ ہم نے اس دنیا کوکیا دیا۔انسان کو مالک
عزوجل نے اپنی مقدس کتاب میں انسان کو اپنا خلیفہ ،مددگاراور اپنی فوج بھی
کہا ہے۔الغرض کہ انسان اس کائنات کے اس وسیع وعریض خلاء میں بسنے والی
مخلوقات سے اعلیٰ ،برتر ،اشرف،اور افضل ہے۔جس کو اس نے اپنے مقرب
فرشتوں پر بھی فوقیت دی ہے۔یہ انسان دنیا میں پروردگار کی نائب اور ایلچی
بھی ہے مگر یہی انسان خطا کا پتلا بھی ہے ۔خیر و شر سے اس کی شخصیت زیروبر
ہوتی رہتی ہے ۔اسی انسان کے ایمان میں نشیب وفراز بھی آتے رہتے ہیں۔یہ
انسانیت کا بہترین غم خوار اور ہمدرد بھی ہے۔اور یہی انسان جب شیطان کے ذرا
سے چھونے سے باولا بن جاتا ہے تو انسانیت کو ہلاکت خیزیوں اور خون ریزیوں
سے بھی دوچار کرتا ہے چشم کائنات نے اگر اس انسان کو محسن انسانیت کے روپ
میں دیکھا ہے تو کبھی فرعونی و چیگیزی صفات(انسان کو گاجر مولیکی طرح کاٹتا
ہو )منصف بھی پایا ہے کبھی یہ محافظ ہے تو کبھی بھڑیا بن جاتا ہے ۔
جب اس کے دل میں شر گھر کر جاتا ہے تو اس سے ایسے اعمال سرزد ہوتے ہیں کہ
شیطان کو بھی اپنا قد چھوٹا لگنے لگتا ہے۔اور یہ وربل مم افل بن جاتا ہے
اورجب اس کے انگارہ خاکی میں ایمان کی جوت جاگتی ہے تو ایک لمحہ کے لیے لا
شعوری طور پراس سجدہ کرنے کو دل چاہتا ہے مگر اﷲ کریم کے سواکسی کو سجدہ
جائز نہیں اس انسان کو اﷲ پاک نے اپنی عبادات اور،اوروں کے درد دل کے واسطے
تخلیق کائنات کا ہیرو بنایا ہے ۔دوسروں کے دکھ درد بانٹنے اور ان کے کام
آنے کے لیے کائنات میں اس کا وجود بنایا ہے مگر آج اکثریت صرف اپنے ڈیڑھ دو
بالشت کے پیٹ کے لیے شب وروزعقل کے گھوڑے دوڑاتی رہتی ہے ۔ جسں طرح بکری ،دودھ
اور گوشت ، مرغی انڈے اور گوشت ،گائے کو دودھ ،گھوڑے کو باربرداری ،اور بیل
کو ہل چلانے کے لیے الگ الگ مقاصد زندگی ایک اس دنیا میں بھیجا گیا ہے ۔اگر
وہ یہ ذمہ داریاں نبھاتے ہیں تو ہم پالتے ہیں۔ان کی نگہداشت کرتے ہیں لیکن
جب وہ اپنی تمام ذمہ داریوں کی اہلیت سے محروم ہو جاتے ہیں تو ہم ان کو گھر
یعنی (حویلی)کی چار دیواری کی بجائے قصاب کی پھٹے پر دیکھنا پسند کرتے ہیں
۔نتیجہ یہ نکلا کہ اس کی عزت اس کی مطلوبہ صلاحیت سے مشروط تھی اس طرح
انسان کو بھی اس نیگوں آسمان کے نیچے ایک نصب العین دیکر بھیجا گیا ہے۔
وہ نصب العین وہی تو ہے جس کے انجام دینے والوں سے قرآن کریم اور ذخیرہ
احادیث کے صفات لیبرز ہیں اور اس کی انجام دہی کے بغیر ہمار ی ا فادیت و
اہمیت اس کی آیت کریم کے نزدیک دو کوڑی کی بھی نہیں رہتی اور آخرت میں
ہمارے ساتھ وہ سلوک ہو گا جو ہم دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں ۔ اگر گھڑی ٹائم
نہ دے تو ہم بیکار میں اسے کلائی میں سجا کر نہیں رکھتے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا
سوچیئے اگر انسان اپنے مقصد پیدائش کو پورا نہ کرے تو اس کا ٹھکانہ بھی بہت
برا ہو گا ۔اور وہ مقصد خلق اکبر خود متعین کر رہے ہیں ۔مگر آج انسان اس
قدر خودفریبی میں مبتلا ہے کہ ہر لمحہ ہر ساعت ضائع کر رہا ہے ۔اکثریت کی
کھیتی بنجر ہو رہی ہے ۔ پھر بھی طفل تسلیوں سے ددل کو مطمئن کیے ہوئے ہیں
۔میں صحافت کا ادنی سا طالبِ علم ہوں میں جب بھی اپنے دماغ پر زور دیتا ہوں
کہ ہم بحثیت انسان ہم کہاں جا رہے ہیں ۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ
انسان بچپن سے لے کر بڑھاپے تک کس طرح اپنے مذہب سے بے وفائی ، اپنے مقام
کی بے اعتنائی ،اور اصلاح چاہنے والوں کو کس طرح دھوکا دیتا ہے ۔ اس خود
فریب انسان کے لیے ہر نیا مسئلہ گذشتہ مسائل سے زیادہ نازک اور سگین بن
جاتا ہے ۔ جس کو کسی قیمت ،حتٰی کہ ابدی ناکامی کی قیمت پر بھی چھوڑنے کے
لیے تیار نہیں کسی بڑے دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر کسی ملک میں دس
پندرہ لاکھ مسلمان اکھٹے کر کے زبح کر دیے جائیں تو آپ انا اﷲ و انا الہ
راجعون پڑھ کر اور ایک آدھ تعزیتی جملہ کہ کر صرف چند ہی سکینڈبعد پھر سے
ہشاش بشاش نظر آنے لگیں گے۔لیکن اگر آپ کی داڑھ میں ذرا سا بھی درد ہو تو
پوری رات آپ کو نیند نہیں آئے گی۔تو ثابت ہوا کہ اپنا درد ساری انسانیت کے
دردسے زیادہ اہم ہے اور یہی انسان کسی سے وعدہ کرے تو یہی انسان چند لمحوں
کے بعداپنے وعدے سے پھر جاتے ہیں۔ وہ تو پھر اپنے سابقہ رویے کی طرح امید
بھی دلاتا ہے مگر اپنی اصلاح کی کوشش کو بھی مصنوعی مسئلے کی بھینٹ چڑھا کر
ملتوی کر دیتا ہے لوگ کہتے ہیں بس ذرا اپنے مسائل کو حل کر دوں پھر اﷲ کر
یم کا ہو جاوئں گا بس زرا فارغ ہو جاوئں اسی طرح ہر مسئلے کو ڈھال بنا کر
خود کو بے بس ظاہر کر دینا ہمارامعمول بن چکا ہے اوراب تو یہ ہماری روایت
بن چکی ہے ،انسان سوچتا رہتا ہے کہ بچپن گزرا اب ذرا شادی کر لوں پھر نئی
زندگی شروع کروں گا پھر اﷲ کی لیے اپنے آپ کو وقف کر دوں گاپھر جب شادی ہو
گئی تو پھر کہا بس اب بچے ہو لینے دو میں فارغ ہو لوں تو خود اﷲ کریم کی
ذات کے لیے خود کو وقف کردونگا۔ اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے دراصل انسان
دنیا کی رنگیینوں میں اس قدر گم ہے کہ آخرت کی کھیتی اجاڑ رہا ہے۔ آخرت کے
مقابلے میں دو منٹ کی اس زندگی کو انسان (سرائے )سمجھ بیٹھا ہے۔اورہر جائز
وناجائز طریقے سے اپنے لیے اپنے بچوں کے لیے سب کے لیے آسائشیں جمع کرنے
میں دوسروں سے بازی لے جانا چاہتا ہے۔حالانکہ انسان جا نتا بھی ہے کہ یہ
دنیا نہ تو آخری قیام گاہ ہے اور نہ ہی سیر گاہ، اور نہ ہی چراہ گاہ بلکہ
یہ تو ایک امتحان ہے۔جس کی تیاری کے لیے ایل بیت کے نقوش پاء پر چلنا
اورصالح معاشرے کے قیام کی جدوجہد کر نا نا گزیرہے مگریہ ناداں اپنے خول سے
نکلنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے ۔ اہل بیت کے نقش پاپرچلنے کی بجائے خود
ساختہ مسائل کی ریت میں منہ ٹھونس لیتاہے۔
وقت کی مثال برف کی تودے کی طرح ہے جس کوہر لمحہ پگھلنا ہے ۔جوانی چھن جاتی
ہے سر میں چاندنی اتر آتی ہے ،قوت،سماعت،بصارت کمزور پڑ جاتی ہے۔بات کرتے
ہوئے زبان لڑکھڑا جاتی ہے چلتے ہوئے پاوئں ڈگمگا جاتے ہیں سر کانپنے لگتا
ہے۔ ہاتھوں میں لرزش،سارا جسم کانپنے لگتا ہے،اب چارپائی سے رشتہ دن بہ دن
مضبوط ہوتا جارہا ہے دنوں اور سالوں کو وہ سمجھ رہا تھا کہ مجھے بڑا کر رہے
ہیں میرے علم میں اضافہ کر رہے ہیں ہائے آج پتہ چلا کہ وہ دن تو دراصل ساری
زندگی کی جمع پونجھی سمیٹ کر قبر کی تاریکی کی طرف دھکیل رہے تھے ۔اب وہی
انسان ماں کی گود سے قبر کی تاریکی کی طرف دونوں سے ہیبت ناک منا ظر کی طرف
رنگینیوں سے موت کی وادی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ہرگزرنے والا لمحہ اس کی زندگی
مٹاتا چلا آ رہا ہے۔
اے غافل گھڑیاں تجھے دیتا ہے منا دی
خالق نے عمر کی گھڑی اک اورگھٹا دی
اب موت کا فرشتہ انسان کو سامنے کھڑا نظر آتا ہے اور ایک نظر فرشتے پر
ڈالتا اپنے انجام کی طرف کی طرف ڈالتا ہے اوردوسری نظر گھر کے سامان ،کیر
،کوٹھی ،باغات پرڈالتا ہے جن کو جمع کرنے اور گھر کو سجانے کے لیے اس نے
اپنا آپ تک کھو دیا ۔اور اس رزق کی تلاش میں سر گرداں رہا ۔جس نے اس کی
پرواز میں کوتاہی پیدا کر دی۔کبھی دیکھتا ہے کہ اسکے اس سامان پر گھر کی
بہو ،بیٹیوں کا قبضہ ہے۔ہر کو ئی گھر میں زمین جائیداد کے بٹوارے کرنے
اوراسکی موت کا انتظاررکنے میں مصروف تھا۔سامنے فرشتہ کھڑا ہے خالق کی طرف
سے روح قبض کرنے کے اشارے کا منتظر ہے۔لیکن وہ چارپائی پر بے سدھ پڑا سب
کچھ دیکھ اورمحسوس کر رہا ہے مگر اب وہ پچھتانے لگا ہے ۔ کہ میں نے اس دنیا
کو کیا دیا اور دنیا نے مجھے کیا صلہ دیااس موقع پر قرآن پاک نقشہ کھینچتا
ہے وہ کہتا ہے کہ۔
اور جب موت کو سامنے دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ کاش مجھے اس دنیا میں مہلت مل
جائے تو میں صدقہ کرونگا اور غلبہ دین کی جدوجہد کرونگا۔ نیکوکاروں میں
شامل ہونگا مگر تم اس لمحے ڈھیل میں نہیں رہو گے۔
اب تو افسوس ملتا ہے کہ میں نے کیا کیا ۔مجھ سے تو بہت بھول ہوگئی ۔اپنے
ہاتھوں کو بے دردی سے ملتا ہے مگر جب کچھ سمجھ نہیں آتا توبھاگ جانے کی
سوچتا ہے۔لمحہ فکر یہ ہے کہ ہم سوچیں اور وقت اجل کے آجانے سے پہلے اپنا
محاسبہ کریں خود فریبی کی چادر کو تار تار کر دیں۔اور غور کریں کہ ہمیں اس
دنیا میں کس لیے بھیجا گیا ہے اور ہمیں یہاں کیا کر نا ہے مختلف سوچیں آرہی
تھیں ۔رشتہ دار جلد سانس خارج ہونے کی دعا مانگ رہے تھے۔کوئی کہہ رہا تھاکہ
ارے بھئی، سورۃیسٰین پڑھو، جان نہیں نکل رہی ہے دوسری طرف سے ایک معصوم بچی
اپنے ننھے سے ہاتھ باندھے آسمان کی طرف فریاد کر رہی تھی کہ ہائے اﷲ چاچو
کی موت آسان کر دے ہم سے چاچو کا تڑپنا نہیں دیکھا جاتا اچانک فرشتے نے قدم
بڑھانا شروع کر دیے وہ تو چارپائی پر لیٹا تھا۔اس نے اپنے تیئں فرشتے کی
گرفت سے بھاگ جانے کی ناکام کوشش کی مگر خود بے حس وحرکت پایا۔وہ سب کچھ
دیکھتا رہا اور اچانک فرشتے نے اپنا کام کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہر طرف چیخ وپکار
،واویلا،شور ،بین،مختلف آوازیں آ رہی تھی رونے کی آوازوں کے درمیان کوئی
کہہ رہا تھا بہت اچھا،دولت مند تھا، بہت امیرآدمی تھاپھر وہی انسان خود کو
حاکم اور سب کو محکوم سمجھتا تھا آج چار کندھوں پر ایک بے بس ڈھانچے کی طرح
آخری قیام گاری کی طرف بڑھ رہا تھا۔پیچھے ،دوستوں،رشتہ داروں کی قطار
تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہیں کلمہ شہادت،کہیں مرحوم کے واقعات، تو کہیں ورثاؤپسماندگان
کی اگلی زندگی، غرض مختلف راستے پر کوئی چل رہا تھا اوروہ چار کندھوں پر
پڑا مردہ بے حس حرکت اندھیری قبر میں جا رہا تھا۔میں سمجھتا ہوں کہ میری
نظر میں انسان کے تین دوست ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اورکوئی نہیں ہے،پہلا دوست دولت جو
ہر رشتے کو خرید دیتی ہے وہ دولت ہے جس کے سہارے پر انسان مکھی کو بھی
اہمیت نہیں دیتا اس وقت جب انسان مرنے لگتا ہے تو یہ دولت اسے چھوڑدیتی ہے
اس کا ساتھ مزید نبھانے سے پیچھے ہٹ جاتی ہے انسان کے دوسرے دوست کا کردار
شروع ہو جاتا ہے جو اپنی دوستی کو نبھاتے ہیں۔یعنی مرنے کے بعد قبر تک
چھوڑنے جاتے ہیں تو دوست احباب رشتہ دار ہر انسان کا دوسرا دوست احباب رشتہ
دار ہے جو انسان کو قبرکے دہانے تک چھوڑآتے ہیں یعنی ان کی دوستی مد فن تک
جاتی تھی جبکہ انسان کا تیسرااور آخری دوست اس کے اپنے اچھے اعمال جو قبر
کی اندھیری اور تاریکی میں اپنے دوست کا ساتھ نبھاتے ہیں اور دفاع کرتے ہیں
اور ساتھ بھی رہتے ہیں۔لیکن یہی انسان دنیا میں دولت پر رشک کرتا ہے شاید
وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ دولت ہے تو سب کچھ میرے بس میں ہے لیکن آج جب وہ بے
یارومددگار کاندھوں پر سوار ہو کراندھیری کوٹھڑی میں جا رہا ہے تو سب
منتظرہیں جو دنیا میں وہ عیاشیاں کرتا تھا۔اکڑ کے چلتا تھا ،خدا کے احکامات
کو نظر انداز کرتا تھا وہی انسان آج بے حس و حرکت پڑا تھا۔زمین کہ رہی تھی
کہ یہ مجھ پر اکڑکر چلتا تھا ۔پاؤں اور زبان کہ رہی تھی کہ اس نے ہم سے
اتنے گناہ کرواے کہ ہمیں خود شرم محسوس ہوتی ہے۔قبر بانہیں پھیلا کر
استقبال کر رہی تھی کہ میرے پاس تو آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قبرستان کے اردگرد گھر
بنانے کیڑے مکوڑوں کی اکثریت بھی انتطار کر رہی تھی کے کوئی انسان ہمارے
گھروں کے حصار میں قبر میں جا رہا ہے۔لیکن پروردگار کی رحمت بھی ساتھ
تھی،وہ فرماتا ہے کہ میرا بندہ ہے۔کیا ہوا جو اس نے گناہ کیے مگرمیں تو
رحیم ہوں۔ میرے حبیب کی امت میں سے ہے۔میرے حبیب کے صدقے میں میں نے بہت
دفع اس کو موقع دیا کہ یہ میرے پاس آجاے میرا بندہ بن کے آجائے مگر یہ تو
سنتا ہی نہیں تھا یہ دنیا میں مجھے بھول گیا اب اس کی توبہ کی کوئی اہمیت
نہیں؟
میری گزارش ہے کہ دنا کی دوستی میں اپنے اس دوست کا بھرپور ساتھ، خیال،اور
دفاع کرتے رہیے کیونکہ اسی دوست یعنی (نیک اعمال)نے ہمارا دوستی کا فرض قبر
میں چکانا ہے یعنی اس دوست (نیک اعمال) نے قبر کی تاریکی میں ہمارا ساتھ
اور دفاع کرنا ہے۔
میری دنیا ہے کہ پروردگار ہر انسان کو ہدایت دے اور ہمیں نیک عمل اچھے کرنے
کی توفیق دے۔ |