کرپشن انگریزی لفظ ہے جس کے
معنیٰ خرابی، بدچلنی اور اخلاقی بگاڑ کے ہیں اسی طرح کرپٹ شریر، رشوت خور،
خراب کرنے، رشوت دینے، گندہ کرنے اور بگاڑ دینے کے معنوں کیلئے مخصوص ہے۔
ان الفاظ کے اصل مفاہیم کے برعکس ہمارے معاشرے میں کرپٹ کا مطلب ان
حکمرانوں اور سرکاری ملازمین کیلئے استعمال ہوتا ہے جو ناجائز ذرائع سے
دولت اکٹھی کرتے ہیں۔ یہیں خرابی سے شروع ہوتی ہے جب رشوت ستانی کو ہی
خرابی تصور کرلیا جائے۔ معاشرے میں بے شمار خرابیاں، برائیاں اور بگاڑ اسی
وقت سرائیت کرتے ہیں جب ان اعمال کے بارے میں ابہام پائے جائیں۔ ہر مکتبہ
فکر، پیشے سے متعلق افراد اور گروہ تمام تر خرابیوں کے حامل ہونے کے باوجود
بزعم خود پارسا، نیک، ایماندار اور منزہ عن الخطا بن جائیں اور دوسروں میں
ہر قسم کی برائیوں کے جراثیم کی نشاندہی شروع کردیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ رشوت ستانی کسی بھی معاشرے میں زہر قاتل سے کم
نہیں، یہ وہ برائی ہے جو دوسری بے شمار برائیوں کو جنم دیتی ہے۔ سرکاری
ملازمین میں ناجائز فوائد کیلئے کوئی بھی کام کرنا کرپشن ضرور ہے مگر دفتری
اوقات کی پابندی نہ کرنا، اپنی تمام تر صلاحیتیں استعمال کرکے فرائض انجام
نہ دینا، ناجائز طریقے سے اچھی تعیناتی اور ترقی کا حصول، ٹیلی فون اور
دوسری سہولتوں کا غیر ضروری اور قواعد کے خلاف استعمال، ا فسران کی طرف سے
گاڑیوں کی دیکھ بھال و خبرگیری میں عدم توجہی، ایک سے زائد گاڑیاں اپنے زیر
استعمال رکھنا، نچلے درجے کے ماتحتین کو اپنے ذاتی ملازم کے طور پر خدمات
انجام دینے کیلئے مجبور کرنا وغیرہ وغیرہ بھی کرپشن ہی کے زمرے میں آتا ہے۔
بدقسمتی سے اس کو برائی ہی نہیں سمجھا جاتا چہ جائیکہ کرپشن۔ کرپشن میں بھی
رشوت ستانی ہی وہ واحد قسم ہے جس کا لینے والا جانتا ہے کہ وہ مال حرام لے
رہا ہے۔ جبکہ ناجائز منافع خوری کرنے والا، ملاوٹ کرنے والا اور ملازمین کا
ناجائز حق دبانے والابھی اپنی ناجائز آمدنی کو اکل حلال سمجھتا ہے،
باقاعدگی سے رمضان میں زکوٰۃ و صدقات اداکرتاہے، غرباء و مساکین کیلئے راشن
کی تقسیم کا اہتمام کرتا ہے اور بھاگ بھاگ کر حج وعمرے کی ادائیگی کیلئے
جاتا ہے۔ اسی طرح وہ سرکاری و نجی اداروں کے ملازمین بھی جو نقد کی شکل میں
ناجائز آمدنی وصول نہیں کرتے مگر اس کے علاوہ سارے غیر قانونی فوائد سے
مستفیض ہوتے ہیں وہ اپنی تنخواہ کو حلال ہی سمجھتے ہیں۔
جس طرح ترقی اور خوشحالی چاروں اطراف سے ہوتی ہے اسی طرح زوال بھی ہمہ جہتی
ہوتا ہے۔ تلخ اور افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں بگاڑ آچکا ہے، اخلاقی
اقدار انحطاط پزیر ہی نہیں بہت نچلے درجے میں پہنچ چکی ہیں، کوئی پیشہ اور
کاروبار ایسا نہیں جس میں کرپشن کسی نہ کسی شکل میں موجود نہ ہو۔ کرپشن سکہ
رائج الوقت کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ ان تمام تر خرابیوں، بد اعمالیوں اور
قانون شکنیوں وغیرہ کی وجوہات میں سر فہرست بری حکمرانی ہے۔ مقتدر حلقوں کی
قواعدسے چشم پوشی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ایک عام سا غریب، ان پڑھ اور
معاشرے میں کوئی مقام نہ رکھنے والا شخص بھی یہ سمجھتا ہے کہ کوئی بھی خلاف
ضابطہ قدم اٹھالو کچھ نہیں ہوتا۔ یہ ایک کمپیوٹر سافٹ وئیر کی طرح ہے جس کے
ذریعے بہت سے موبائیل نمبرز پر کوئی بھی پیغام بھیجا جاسکتا ہے۔ بری
حکمرانی نے تقریباً ہر شہری تک یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ کسی قسم کی قانون
شکنی کی صورت میں اول تو متعلقہ حلقے کوئی تادیبی کاروائی کرنے کیلئے عمل
میں ہی نہیں آئیں گے اور اگر کسی سرپھرے نے ایسا کچھ سوچا بھی تو اس سے
کوئی ڈیل کی جاسکتی ہے، قواعد کی موشگافیوں میں معاملے کو الجھایا جاسکتا
ہے، کسی بڑے چھوٹے کی مدد لی جاسکتی ہے اور تادیبی عمل سے فرار ممکن بنایا
جاسکتا ہے۔ یہ ایسا پیغام ہے جس نے ساری برائیوں کی جڑ کی جگہ حاصل کرلی
ہے۔ خاندان، سماجی رسم و رواج اور ریاست کا چلن انسانی عادات اور شعور کی
سمت متعین کرتا ہے، شخصیت کی تعمیر کرتا ہے، نیکی کی طرف ترغیب دیتا ہے،
برائی سے روکتا اور گمراہی سے بچاتا ہے۔ انسان کی ابتدائی تربیت ماں کی گود
سے شروع ہوتی ہے اور معاشرے کا مشاہدہ اس کے خیالات کو پختہ کرتا ہے۔ جب
بچے کے گھر میں ہی کرپشن زدہ ماحول رائج ہو، جہاں پانی، بجلی و گیس کی چوری
کو برائی نہ سمجھا جائے، تھوڑے سے مفاد کو چھوڑیں بلا ضرورت جھوٹ کی عادت
ہو، غیر محتاط گفتگو کی جائے، اسکول مدرسے کے اساتذہ بچوں کے رول ماڈل بننے
کے بجائے ولن کا روپ ڈھال لیں، اسکول آتے جاتے وین کے ڈرائیور ٹریفک قوانین
کی دھجیاں اڑائیں، بازار سے آنے والی اشیاء میں ملاوٹ نظر آئے، ٹی وی فلموں
میں جرائم اور جرائم پیشہ کو دیو مالائی کردار کے طور پر پیش کیا جائے،
روزانہ تمام ٹی وی چینل اپنے پرائم ٹائم میں حالات حاضرہ کے نام پر مرغوں
کی لڑائی دکھاتے رہیں، والدین اپنے نالائق بچوں کی سرزنش کے بجائے ان کے
امتحانوں میں حاصل شدہ مارکس بڑھوانے کی دوڑ دھوپ کریں، اسکول کالج میں
داخلے کیلئے سفارشوں اور رشوت کا بندوبست کریں تو ہمہ اقسام کی برائیاں، بد
اخلاقیاں، بد چلنیاں اور قوانین کی خلاف ورزیاں ہی وہ طلسماتی چابیاں تصور
کی جائیں گی جن سے ہر تالا کھل سکتا ہے۔
کرپشن جس سے آجکل مراد رشوت ستانی لی جاتی ہے میں بھی اصل مجرم صرف رشوت
لینے والے کو ہی سمجھا جاتا ہے جبکہ رشوت دینے والا بھی اس گناہ میں برابر
کا شریک ہوتا ہے بلکہ بعض صورتوں میں رشوت دینے والا بڑا مجرم ہوتا ہے اور
رشوت کے لینے دینے کے عمل کا اصل منفعت اندوز بھی۔ رشوت دینے والے کو دو
بڑے طبقات میں با آسانی تقسیم کیا جاسکتا ہے جن میں پہلا طبقہ معاشرے کے ان
افراد پر مشتمل ہوتا ہے جو اپنی کسی جائز ضرورت کے تحت کسی کو رشوت دینے پر
مجبور ہوتا ہے تاکہ اس کا کوئی رکا ہوا کام ہوجائے، وقت کی بچت ہو اور
متعلقہ دفتر کے غیر ضروری چکر نہ لگانے پڑیں۔ دوسرا گروہ ان بااثر،
باوسیلہ، باحیثیت اور بزعم خود معززین پر مشتمل ہے جو کہ اپنے مزموم مقاصد
کے حصول کیلئے چاہے کاروباری ہوں یا دوسرے باقاعدہ منصوبے کے ساتھ سرکاری
محکمے کے اہلکاروں اورمقتدرین تک رسائی حاصل کرتے ہیں، انہیں ایسی پیشکش
کرتے ہیں جو لگی بندھی تنخواہ پانے والوں کیلئے پرکشش ہو اور بظاہر کوئی
زیادہ پرخطر بھی نہ ہو۔ لالچ، ترغیب و تحریص کو کامیاب ہوتا دیکھ کر اپنے
منصوبے کو بروئے کار لاتے ہیں اور اس پیشکش سے کئی گنا زیادہ فائدہ اٹھاتے
ہیں۔ ایسی آفرز کو عام طور پر اسپیڈ منی، گریسنگ یا کمیشن کا نام دیا جاتا
ہے۔ چند ایک مستشنیات کو چھوڑ کر عموماً رشوت دینے والا ہی وہ شخص ہوتا ہے
جو اس کرپٹ ڈیل کا اصل اور سب سے بڑا بینی فشری ہوتا ہے اور مروجہ اقدار کے
مطابق باعزت بھی۔ رشوت دینے اور لینے سے متعلق ایک حدیث جو سنن ابوداؤد میں
درج ہے اس کی اصل روح بھی اسی طرف نشاندہی کرتی ہے روایت کے مطابق رسول
اللہ ﷺ نے رشوت دینے اور لینے والے دونوں پر لعنت کی ہے (حدیث نمبر ۰۸۵۳)۔
ہمارے ہاں کثرت استعمال کے باوجود اس پر بالکل غور نہیں کیا گیا کہ راشی کے
لفظی معنی رشوت دینے والے کے ہیں اور مرتشی سے مراد رشوت کا وصول کنندہ ہے۔
لعنت بھیجنے میں پہل راشی یعنی رشوت دینے والے پر کی گئی ہے۔
رشوت کا سدباب کرنے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے جو ادارے تشکیل دئے
ہیں ان کے نام بظاہر احتساب اور انٹی کرپشن کے ہیں مگر ان کا استعمال
بالائی سطح پر اپنے مخالفین کو ہراساں کرنے کے مقصد کیلئے ہوتا ہے اور نچلی
سطح پر کرپشن کو فروغ دینے کیلئے، جس کا نتیجہ ان محکموں کے قیام کے مقصد
کے بالکل برعکس نکلتا ہے۔ یہ ادارے تاحال کر کٹ کے بارہویں کھلاڑی یا فلموں
کے مہمان اداکار جتنی کارکردگی بھی نہیں دکھاسکے ہیں۔ ان کی ناکامی کی سب
سے اہم وجہ بھی وہی ابہام ہیں جن کا خیال ان کی تشکیل کے وقت نہیں رکھا
گیا۔ دوسری اہم وجہ ان محکموں کے ملازمین کی بھرتی ہے جس میں ہر قسم کی
کرپشن روا رکھی جاتی ہے، مقدم عہدوں پر دوسرے محکموں کے افسران اپنے سیاسی
اثر رسوخ کی بنیاد پر قابض ہوجاتے ہیں اور نچلے ملازمین کی ترقی کی راہ میں
رکاوٹ بنتے ہیں۔ مالی طور پر ترغیب دینے کی روایت بھی قومی احتساب بیورو کے
علاوہ کسی دوسرے ادارے میں نہیں پائی جاتی لہذا کم تنخواہ اور ترقی کے
مناسب مواقع موجود نہ ہونا بھی نچلے ملازمین میں اشتعال دلانے اور غیر
روایتی فوائد کے حصول پر آمادگی کا باعث بنتے ہیں۔ ان اداروں کی ثمر آوری
کیلئے جو اقدامات عموماً اٹھائے جاتے ہیں وہ بھی بغیرکسی جذبہ کے، نیم
دلانہ اور کلریکل سوچ کے مظہر ہیں یعنی سال میں ایک بار انٹی کرپشن کا دن
یا ہفتہ منانا، کسی پنج ستارہ ہوٹل میں سمینار منعقد کرنا، وغیرہ شامل ہیں۔
ان سمینار میں بڑی حکومتی شخصیات جن کی اکثریت نے اس مقام پر پہنچنے کیلئے
ہر قسم کی بدعنوانی، برائی، قانون شکنی، مقتدرین کی کاسہ لیسی اور غیر
اخلاقی روا رکھی ہوتی ہے، پہلے سے لکھی ہوئی خوشنما تقریریں کرکے اپنا فرض
ادا کرتے ہیں مزید چار چاند لگانے کیلئے مختلف شعبہ ہائے زندگی کی نامور
شخصیات کو مدعوکرکے ان سے انٹی کرپشن جیسے موضوع پر لیکچر لینا، لنچ یا ڈنر
کا انتظام بھی شامل ہوتا ہے جس کے بعد دوسرے دن سے اپنے معمول پر لوٹ جانا
بجائے خود کرپشن ہی کی ایک شکل ہے جس سے یہ ضرورظاہر ہوتا ہے کہ ہم لوگ
کتنی سنجیدگی سے اس ناسور کا علاج کرنا چاہتے ہیں۔ ا س کے علاوہ سال میں
انٹی کرپشن، احتساب بیورو اور دوسرے متعلقہ ادارے اپنی کارکردگی کی تماثیل
بھی پیش کرتے ہیں جن میں یہ بتایا جاتا ہے کہ سال گزشتہ کے مقابلے میں
ادارے نے اپنے فرائض کی بجاآوری کابہتر مظاہرہ کیا، سرکاری خزانے کو
پہنچائے جانے والے نقصانات کا سراغ لگایا اور پہلے سے زیادہ مقدمات کا
اندراج ہوا علیٰ ہذا القیاس۔ اور یوں وہ اپنے تئیں اپنے فرائض منصبی انجام
دیتے ہیں۔
جب تک اس بات اہتمام نہیں کیا جاتا کہ ہم اصلی برائی کا ادراک کریں، اس سے
بچنے کی تربیت دیں، برائی سے اجتناب کرنے والوں کو اس کی جزا ملے اور لوگوں
کے دلوں میں یہ خوف جاگزیں ہو کہ کسی بھی خلاف قانون عمل کے ارتکاب کی صورت
میں سزا سے فرار ناممکن ہے کرپشن چاہے بڑی ہو یا چھوٹی ختم نہیں کی جاسکتی۔ |