اسے پاکستان کی بدقسمتی کہیے کہ
یہاں ہر کوئی ملک سے زیادہ اپنی فکر میں مبتلا ہے حکمران ہے تو حکومت کے
جانے کی فکر سے پریشان سیاستدان ہے تو اپنی لیڈری کی دکان بڑھانے کی کوشش۔
لاوارث ہے تو یہ ملک اور اس کے عوام۔ بے قصور عوام بھی نہیں ہیں کہ باربار
ٹھوکر کھاتے ہیں اور پھر اسی بادشاہ کے دربار میں حاضری کو اپنا فخر سمجھتے
ہیں اسی کو ووٹ دیتے ہیں اور یہ سیاستدان ان کی ڈور یوں اپنے ہاتھ میں
رکھتے ہیں کہ جس وقت چاہے ڈھیلی کردو اور جب دل کرے کھینچ دو اورتماشے کا
شور دل میں اٹھے تو شہر کو آگ لگادو۔ اور ایسا ہی بلدیہ ٹاؤن کراچی میں ہوا
جے آئی ٹی کے مطابق بھتہ نہ دینے پر اس فیکٹری کو زندہ انسانوں سمیت آگ
لگادی گئی فیکٹری تو جلی سو جلی مالی نقصان جو ہوا سو ہوا مال تو آجائے گا
فیکٹری تو بن جائے گی لیکن وہ انسان جو زندہ جلادیئے گئے وہ اب کبھی نہیں
آسکیں گے ان کے لواحقین انہیں ہمیشہ روتے رہیں گے لیکن پھر مجبوراً ہی سہی
ووٹ دیں گے اور انہیں نامعلوم افراد کو دیں گے جن کو پورا کراچی جانتا ہے
لیکن چپ ہے کیونکہ یہ اتنے طاقتور ہیں کہ انسانوں کو زندہ بھی جلا سکتے ہیں
حالانکہ جلانے کی سزا اللہ جل شانہ نے صرف اپنے لیے مخصوص رکھی۔ کسی سخت
ترین جرم پر بھی اس سزا کا اختیار انسان کو نہیں دیا کجاکہ بے قصور کو دی
جائے۔ کراچی پاکستان کا معاشی دل ہے جب یہاں خون رُکتا ہے تو پورا پاکستان
ڈول جاتا ہے اور اسی کو بطوردھمکی استعمال کیا جارہا ہے اور مسلسل کیا
جارہا ہے۔ ایم کیوایم اگر اس دھمکی کو کھلم کھلا استعمال کررہی ہے تو دوسری
جماعتیں بھی کسی نہ کسی طریقے سے اس میں شامل ہیں ،بھتہ بھی کسی ایک جماعت
کا حربہ نہیں ہے۔ لیکن سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے بارے میں اقرار جرم کرنے والے
نے جے آئی ٹی کے سامنے اقرار جرم کیا اور ہوتے ہوتے یہ الزام ایم کیوایم کے
سر ڈال دیا اور ایم کیوایم کے احتجاج پر اب جناب وزیراعظم نے اس جے آئی ٹی
کو مسترد کرتے ہوئے ایک اور جے آئی ٹی رپورٹ مرتب کرنے کا حکم صادر کیا ہے
اسی طرح رپورٹیں مرتب اور مسترد کرتے دو چار سال اور لگ جائیں گے اور لوگ
اس حادثے کو بھول جائیں گے اور ہمارے سیاستدان پھر ہیرو بن جائیں گے اور یہ
حادثہ لوگوں کے ذہن سے محو ہوجائے گا، مجرم کسی اور فیکٹری کو آگ لگانے کی
منصوبہ بندی شروع کر دیں گے اور ان تحقیقات کو سیاست کی آڑ دے کر سیاست کی
نظر کر دیا جائے گا ۔سیاسی مصلحتیں ،مفاہمتیں اور مخالفتیں اس بساط پر اپنی
اپنی چالیں چلتی رہیں گی اور عوام اپنی قسمت کو روتے رہیں گے ہمارے سیاسی
لیڈر پنترے بدلتے رہیں گے اور اپنے ہی کیے مطالبے واپس بھی لیتے رہیں گے۔
جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے جس طرح فوج اور
رینجرز کو تنقید کا نشانہ بنا یا ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ کسی دشمن ملک
کی فوج پر حملہ آور ہیں اور تمام تر خرابیاں اسی کی وجہ سے کراچی کے گلی
کوچوں میں پل رہی ہیں انہوں نے حسب روایت احتجاجاً استعفیٰ دینے اور پھر
واپس لینے کا اعلان بھی کیا اگرچہ اب ان اعلانات کی نہ کوئی اہمیت رہی ہے
اور نہ ہی میڈیا پر بلکہ کراچی میں بھی اس سے کوئی سنسنی پھیلتی ہے کیونکہ
ڈراپ سین سبھی جانتے ہیں کہ کیا ہوگا اور کل رات انہی الطاف بھائی نے جنرل
راحیل شریف سے پھر مطالبہ کیا کہ جے آئی ٹی فوج کی سربراہی میں بنائی جائے
یعنی شفاف تحقیقات کے لیے پھر فوج کا سہارا، چلئے حکومت اور فوج اس مطالبے
کو مان بھی لے کیونکہ اگر گناہ گار اور بے گناہ کی پہچان ایسے ممکن ہے تو
ہو جائے لیکن کیا اگر رپورٹ پھر بھی یہی ہوئی تو اسے تسلیم کر لیا جائے گا
یا ایک اور دھمکی دے دی جائے گی اور اگرڈانڈے کسی اور پارٹی سے جا ملے تو
پھر اس کے مطالبے پر ایک اور ٹیم ایک اور رپورٹ مرتب کرے گی پھر مسترد ہوگی
سلسہ آگے ہی چلتا جائے گا اور کئی سالوں بعد بلدیہ ٹاؤن لواحقین تھک ہار کر
چپ ہو جائیں گے چپ تو وہ اب بھی تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کی آواز
سیاست کے شور میں دب جائے گی اور بس ۔بلدیہ ٹاؤن ایک بہت بڑا حادثہ اور
سانحہ تھا اور اگر آگ جان بوجھ کر ہی لگائی گئی تھی تو بہت ہی بڑا ظلم اور
گناہ بھی ۔حکومت کو سیاسی مصلحتیں چھوڑ کر معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے
گناہ گاروں کا تعین جلد از جلد ہونا چاہیے اور مکمل تحقیقات اور اس کے
یقینی نتائج کی بنیاد پر سزا کو اتنی ہی تیزی سے لاگو ہونا چاہیے تاکہ
اعتراضات در اعتراضات کا سلسلہ چل ہی نہ سکے اور ایک روایت قائم تو ہو۔
حکومت کو کوئی دباؤ قبول نہیں کرنا چاہے وہ ایم کیوایم کا ہو، جماعت اسلامی
کا ہو، اے این پی یا کسی اور جماعت کا۔ حکومت حکومت ہوتی ہے پورے ملک کے
لیے، عوام کے لیے ،سیاسی جوڑ توڑ کے لیے نہیں جوڑ توڑ حکومت سے باہر رہ کر
کرنے کے کام ہیں۔ حکومت کے پاس کام کرنے کا موقع ہے وہ کام کرکے دکھائے
بغیر جوڑ توڑ کے عوام کے ووٹ اور اس کی حمایت اس کے ساتھ رہے گی۔ بلدیہ
ٹاؤن میں ہونے والا ظلم کوئی عام سی بات نہیں تھی ظلم تو ایک شخص پر ہو تو
بھی اس کی سزا ہے اور زندہ جلانے جیسا جرم اور ظلم دکھانے سے تو تاریخ کی
کتابیں بھی معذوری ظاہر کرتی ہیں پھر وہ نمرود کون تھا جس نے اولاد ابراہیم
کو کو یوں بھڑکتی آگ میں جلایا۔ اس کا تعین بھی ہونا ضروری ہے اور جب تعین
ہو جائے تو رحم کا سوال بھی پیدا نہیں ہونا چاہیے، چاہے یہ کسی کا ذاتی فعل
ہو یا جماعتی اور اجتمائی اور اس کی سزا میں سستی کرتے ہوئے ان زندہ جلتے
ہوئے انسانوں کی چیخیں ذہن میں رہنی چاہیے جنہیں بے گناہ جلایا گیا جبکہ
خدا کی دوزخ میں بھی صرف گناہ گار ہوں گے۔ |