ڈھونڈوگے ہمیں ملکوں ملکوں

ہم ایسی بینظیرقوم ہیں کہ جس کی مثال ڈھونڈے سے نہیں ملتی ۔ہم نتیجہ تو ہمیشہ اپنی مرضی کاچاہتے ہیں لیکن عمل سے ہمیشہ غافل ہی رہتے ہیں۔شاید عمل ہماری سرشت میں سِرے سے شامل ہی نہیں البتہ یہ یقینِ محکم ضرورکہ فتح ہماراہی مقدربنے گی۔جب نتیجہ ہماری مرضی کے مطابق نہیں نکلتا توہم اسے ’’مقدرکا لکھا‘‘سمجھ کراپنے آپ کو مطمٔن کرلیتے ہیں ۔ہم عالمِ دیں تو نہیں لیکن اتناضرور جانتے ہیں کہ بقول اقبال
تقدیر شکن قوت باقی ہے ابھی اِس میں
ناداں جسے کہتے ہیں تقدیر کا زندانی

لیکن کیاکیجئے کہ یہاں تو پوری قوم ہی تقدیرکی زندانی ہے اوریہ سمجھتی ہے کہ آسمان سے فرشتے اُن کی مددکو اتریں گے اوروہ کامران ٹھہرے گی۔گزری اتوارپاکستان اوربھارت کاکرکٹ میچ تھا۔پورالاہور سنسان اور ’’گلیاں ہو جان سونجیاں ،وچ مرزایار پھرے‘‘کی عملی تصویر ۔پوری قوم ٹی وی سکرین پرنظریں جمائے یہ دیکھنے کے لیے بیتاب کہ کب دِلی کے لال قلعے پرسبز ہلالی پرچم لہراتاہے ۔الیکٹرانک میڈیاکئی دنوں سے پاکستانی شاہینوں کے جھپٹنے ،پلٹنے کی نویدسناتے ہوئے کہہ رہاتھا کہ
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ افتاد

قوم کو فتح کااتنا یقین کہ ہرکسی کی زبان پر’’تُم جیتویا ہارو ،ہمیں تُم سے پیارہے‘‘۔ہوامگر یہ کہ بھارت نے ہمارے شاہینوں کی وہ ’’دھلائی‘‘کی کہ شاہین کَرگس بن گئے اوروہی الیکٹرانک میڈیاجو پیاربھرے نغمے گا رہاتھا ایسا طوطاچشم نکلا کہ فوراََہی یہ کہنے پر اُترآیا
وہ فریب خودرہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں
اُسے کیا خبر کہ کیا ہے راہ و رسمِ شاہبازی

ہندوستانی الیکٹرانک میڈیانے جب طنز کے تیروں کی بوچھاڑ کردی توشرمندہ شرمندہ سے سکندربخت کویہ کہناپڑا ’’پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست‘‘۔ پکچرتو واقعی ابھی باقی تھی اورہمارا ایمان بھی متزلزل نہیں ہواتھا کیونکہ ہرطرف یہی شورتھا کہ میچ ’’فِکس‘‘تھا ۔کسی نے بے پَر کی یہ بھی اُڑاڈالی کہ بھارتی وزیرِاعظم نریندرمودی نے وزیرِاعظم پاکستان کوفون ہی انڈین ٹیم کی لاج رکھنے کے لیے کیاتھا۔کسی نے یہ کہاکہ جتنی دیرتک سِری نواسن آئی سی سی کاصدر ہے ،پاکستان کے ساتھ ایساہی ہوتارہے گاتو کسی نے اسے ’’بِگ تھری‘‘کا کارنامہ قراردیا لیکن یہ سوچاتک نہ گیاکہ جب ورلڈکپ کی تاریخ کے معمرترین کپتان کی سربراہی میں ٹیم میدان میں اُترے گی توپھر ’’اِس طرح توہوتا ہے ،اِس طرح کے کاموں میں‘‘۔ ہمارے ’’ٹُک ٹُک مصباح‘‘کے بارے میں مشہورہے کہ جس میچ میں وہ نصف سینچری سکور کرلیں وہ میچ پاکستان لازمی ہار جاتاہے ۔اِس میچ میں بھی مصباح نے ٹُک ٹُک کرتے 76 رنز بنالیے اورپاکستان میچ ہارگیا ،گویا ’’گھرکو آگ لگ گئی گھرکے چراغ سے‘‘۔

چونکہ بقول سکندربخت پکچرابھی باقی تھی اِس لیے ہم نے بھی اپنے عزمِ صمیم کو’’مہمیز‘‘دی اورایک دفعہ پھرویسٹ انڈیزکے خلاف ہونے والے میچ کے لیے اپنے آپ کوتیار کرنے لگے ۔ہماراخیال تھاکہ ویسٹ انڈیزمیں توکوئی ’’لال قلعہ‘‘بھی نہیں جس کے چھِن جانے کے خوف سے لرزہ بَراندام ویسٹ انڈیزکا سربراہ ہمارے وزیرِاعظم کودرخواست کرے گا ۔اب سری نواسن کاخوف تھانہ بِگ تھری کااِس لیے یہ میچ توہم آسانی سے جیت جائیں گے ۔ہمارے ذہن میں یہ خیال بھی تھاکہ ویسٹ انڈیزتو ورلڈکپ کی کمزورترین ٹیم آئرلینڈ سے بھی ہار چکاہے اِس لیے وہ بھلاہمارے ’’شاہینوں‘‘کا کیامقابلہ کرے گالیکن ہمارے بوڑھے شاہین ٹُک ٹُک مصباح نے یہ کہہ کرہمیں ڈرادیا کہ ’’ہماری ٹیم میں ایسے کھلاڑی ہیں کہ جس دِن یہ کھلاڑی پَرفارم کرگئے ، وہ دِن ہمارا ہوگا‘‘ ۔ مصباح کے اِس بیان کے بعدہم یہ سوچنے پرمجبور ہوگئے کہ اگرہماری ٹیم ورلڈکَپ کے آخری میچ تک بھی پَرفارم نہ کرسکی تو پھرہمارا کیابنے گا؟۔جب میں نے یہی بات اپنی ایک دوست سے کہی تواُس نے کہا’’فکر نہ کرو ، ورلڈکَپ ہماراہی ہے ‘‘۔میں نے حیرت سے پوچھا وہ کیسے ؟۔ اُس نے کہا’’1992 ء کے ورلڈکَپ میں بھی اسی طرح سے پاکستانی ٹیم کی دُھلائی اور دھنائی ہورہی تھی لیکن ہم پھربھی ورلڈکَپ جیت گئے کیونکہ یہ کَپ ہمارے مقدرمیں لکھ دیا گیاتھا ۔اب بھی وہی کچھ ہورہاہے اورجگہ بھی وہی اِس لیے مجھے یقین ہے کہ پاکستان ’’جِتے ای جِتے‘‘۔ہم پریشان تھے کہ اگرواقعی کوئی ایسامعجزہ رونما ہوگیا توکہیں ایسانہ ہوکہ ہمارے ٹُک ٹُک مصباح بھی وزارتِ عظمیٰ کے مضبوط ترین اُمیدواربن کر سامنے آجائیں ۔میاں برادران کی توایک کپتان کوبھگتے بھگتے کمردہری ہوچلی ہے ،اگر دوسراکپتان بھی میدانِ سیاست میں کود پڑاتو پھرمیاں برادران کاکیا بنے گا؟۔ویسے ہمیں یقین ہے کہ ایسا ہونے والانہیں کیونکہ ہم نے دینِ مبیں کے عین مطابق اپنے گھوڑے تیار رکھنے کی بجائے ’’خچروں‘‘ کومیدان میں اتارا ہواہے جس کانتیجہ تووہی ہوناتھا جوہمارے سامنے ہے۔ جَو کاشت کرکے گندم کی اُمیدرکھنا احمقوں کی جنت میں بسنے کے مترادف ہے لیکن کیا کیجئے کہ ہم توایسے ہی ہیں۔

لیجئے ! پاکستان ویسٹ انڈیزسے بھی 150 رنزسے ہارگیا اورالیکٹرانک میڈیا پھرچیخنے لگاکہ ’’پاکستانی کرکٹ ٹیم کے شیر ،کرائسٹ چرچ میں ڈھیر‘‘۔یہ بجاکہ یہ شکست بھی ذلت آمیزہے لیکن ہمیں خوشی ہے کہ پاکستانی شاہینوں نے ایک ’’ورلڈریکارڈ‘‘ اپنے نام کرلیا ۔ہوا یوں کہ جب ہمارے شاہینوں کو یقین ہوگیا کہ وہ کسی صورت میں بھی 311 رنزکا پہاڑ عبورنہیں کرسکتے تواُنہوں نے ایک ایسی چال چلی کہ دنیانگشت بدنداں رہ گئی ۔ہمارے شاہینوں نے صرف ایک سکور کے عوض اپنے 4 کھلاڑی آؤٹ کرواکر وَن ڈے کی تاریخ کاایساریکارڈقائم کیاجسے رہتی دنیاتک نہیں توڑا جاسکے گا۔ہمارے شاہین پَت جھڑ کے پتوں کی طرح ایک ایک کرکے جھڑتے اور ’’کالے‘‘ڈانس کرتے رہے ۔ اِس ہارکے بعد تو سکندربخت نے بھی نہیں کہا کہ ’’پکچرابھی باقی ہے میرے دوست‘‘۔شاید اُنہیں بھی یقین ہو چلاہے کہ ’’اِن تلوں میں تیل نہیں‘‘۔اِس لیے بہتریہی ہے کہ ورلڈکَپ میں فتح کے خواب دیکھنے کی بجائے ہم اپنی روزمرہ زندگی کی طرف لوٹ آئیں اور ’’شاہینوں‘‘کو اُن کے حال پرچھوڑ دیں لیکن اعتزازاحسن کہہ رہے تھے کہ کھیل میں ہارجیت ہوتی رہتی ہے ،یہ ہمارے بچے ہیں،ہمیں اِن پرتنقید کرنے کی بجائے اِن کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور اپنارویہ یہ رکھناچاہیے کہ
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ، ہارے بھی تو بازی مات نہیں

بجا ، بالکل بجاسوال مگریہ ہے کہ اگروہ لَڑ کرہارے ہوتے توہم بھی کہتے کہ گرتے ہیں شہسوارہی میدانِ جنگ میں ،لیکن وہ توراہ ورسمِ شاہبازی سرے سے بھول چکے ہیں، اُن کی حوصلہ افزائی کیوں کر کی جاسکتی ہے ۔
 
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 642955 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More