ماضی قریب کے گزرے سالوں میں
پاکستان کے مسائل میں خطرناک اضافہ ھوا ھے اور ان کے حوالے سے باتیں بھی
ھوتی رھی ھیں۔ ان گزرے سالوں سے پہلے اور ان کے دوران گورنمنٹ ملازمین کی
تنخواھوں میں کافی دفعہ اضافہ کیا گیا ھے اور ان کو کسی نہ کسی صورت میں
سہولیات بھی حاصل ھیں، جیسے میڈیکل الاوُنس،میڈیکل کی چھٹی،کام کے مناسب
اوقات،اتوار کی چھٹی،بغیر دباوُ کے کام کرنے کا ماحول،کچھ کو گھر یا گھر کے
کراےُ کی سہولت،ملازمین کی یونین کی سہولت۔ آج تک کی پاکستان میں گزاری
زندگی کا چشم دید مشاھدہ ھے کہ سرکاری دفاتر میں اگر کوئی کام چوری،رشوت
خوری،بے ایمانی ،جھوٹے میڈیکل بنوا کر چھٹی کرنا چاھے تو ان برائیوں پر عمل
کرنے کا عجیب سازگار ماحول میسر ھے،جو کہ ایک مفت کی بری سہولت ھے اور اس
کی وجہ بدانتظامی ھے۔
لیکن پاکستان کے کل ملازمین کا تقریباً ۸۰ فیصد طبقہ پرائیویٹ ملازمین نام
کی مخلوق ھے، جن کے۷۳ فیصد طبقے کے مسائل انتہائی خطرناک ھو چکے ھیں۔ ان
میں مجبور سسکتے بلکتے جوان،بوڑھے مردوں کے ساتھ،انتہائی مجبور خواتین کے
ساتھ، نابالغ بچے بھی شامل ھیں۔ ان کی تنخواھیں کم نہیں انتہائی کم ھیں،عام
طور پر چھٹی کی کوئی سہولت نہیں ھے،ایک آدھی چھٹی کرنے پر بھی خاصا دباوُ
ھوتا ھے، زیادہ تر ملازمین کے کام کے اوقات دس سے بارہ گھنٹے تک ھیں،کوئی
مسلہ ھو تو کسی قائدے قانون کے بغیر چند منٹوں میں نوکری سے برخاست کر دیا
جاتا ھے۔ اکثر اداروں میں پرائیویٹ ملازمین کی ملازمت میں سر جھکا کر
گالیاں سننا اور کبھی مارپیٹ کا نشانہ بننا بھی شامل ھے۔ امیروں کے گھر بھی
غریب لوگوں کے اداروں جیسے ھی ھیں اور ٹی وی چینلز پر ملازمین کی تشدد سے
اموات ، ذمہ داروں پر مقدمات کی خبریں بھی چلتی رھتی ھیں،لیکن آج تک کبھی
ان کو سزا کی خبر نہیں سنی۔ ان بیچاروں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ تقریباً ۸۰
فیصد پرائیویٹ ملازمین کے کم و بیش۷۵ فیصد ملازمین کو علاج معاجے کی مناسب
سہولتیں نہیں ھیں۔ پرائیویٹ ملازمین کی حق تلفی کر کے ان کے ذھنوں سے یہ
احساس ختم کیا جا رھا ھے کہ وہ بھی اس ملک کے باعزت شہری ھیں۔ عملی طور پر
ان کیلئے کوئی ادارہ بھی کام نہیں کر رھا۔ کچھ برائے نام محکمے پرائیویٹ
ملازمین کے نام پر کاغزات میں سب اچھا دکھانے اور رشوت لینے کا کام کرتے
نظر آتے ھیں۔ چند سوشل سیکورٹی ھسپتال ھیں لیکن ان میں علاج کرانے کا حق یا
اجازت کم و بیش ۲یا ۳ فیصد پرائیویٹ ملازمین کوحاصل ھے۔ پرائیویٹ ملازمین
کے آنسو ارباب اختیار کی آنکھوں سے ھمیشہ اوجھل رھتے ھیں۔ کسی انسان کی
ناحق جان لے لی جائے تو خوف اور سہم کی ایسی فضا بنتی ھیں جسے ھم دھشت گردی
کہتے ھیں اور جو کچھ پاکستان میں پرائیویٹ ملازمین کی اکثریت کے ساتھ ھو
رھا ھے وہ کس درجے کی دھشتگردی ھے اس کا تعین اب میڈیا کے افراد کی توجہ کا
متقاضی ھے۔ پرائیویٹ ملازمین کے استحصال کے وہ واقعات جن کا مشاھدہ میں نے
خود کیا ھے،جب بھی یاد آتے ھیں، مجھے انتہائی ذھنی تکلیف کا سامنا کرنا
پڑتا ھے، سمجھ نہیں آتا کہ جن کے ساتھ بیتی ھے ان کا کیا حال ھو گا ۔
پرائیویٹ ملازمین کی اکثریت کا حال ایسا ھے جیسے زندہ انسانوں کے روپ میں
چلتے پھرتے مردے، ان چلتے پھرتے مردوں کی زندگی بحال کرنے کیلئے فوری
اقدامت کی ضرورت ھے،قانون کو حرکت میں لانے کی ضرورت ھے۔ اگر انسانوں کے ان
سکتے بلکتے گروہ کیلئے کوئی مضبوط سسٹم حرکت میں آ گیا تو ٹھیک،ورنہ سیاست
سیاست کھیلنے والے یہ جان لیں کہ ان مجبور بےآواز لوگوں کی آھوں، بدعائوں
سے وہ کسی صورت نہیں بچ سکیں گے۔ |