حال ہی میں پاکستان میں موجود متعدد درآمد شدہ فوڈ آئٹمز
کے بارے میں ایک ایسا انکشاف ہوا ہے کہ جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بسنے
والی مسلمان آبادی کے لیے تشویش کا باعث ہے- آپ بھی یہ سن کر یقیناً چونک
جائیں گے کہ پاکستان میں درآمد کی جانے والی اکثر کھانے پینے کی اشیاء میں
حرام اجزاء پائے جاتے ہیں۔
کھانے پینے کی درآمدی اشیا میں موجود حرام اجزا کے حوالے سے یہ تہلکہ خیز
انکشاف وفاقی وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ایک اعلیٰ افسر میاں اعجاز نے
کیا ہے-
|
|
میاں اعجاز نے قائمہ کمیٹی کے اراکین کے سامنے امریکا اور یورپی ممالک سے
برآمد کی جانے والی کھانے پینے کی ایسی 19 اشیاء کی فہرست پیش کی ہے جن میں
شامل اجزا ’حلال‘ نہیں تھے۔
حرام اجزا پر مشتمل ان اشیاء میں گوشت، ڈیری پراڈکٹس، سُوپ، چاکلیٹ، ٹافیاں
اور پاستا شامل ہیں۔
اس اعلیٰ افسر نے کمیٹی کو بتایا کہ ان درآمدی اشیاء میں سے بعض میں سرخ
اور سفید وائن، جیلاٹین اور جانوروں سے حاصل کیا گیا رنگ ای - اکیس شامل ہے۔
اگر حرام اجزا پر مشتمل اشیا کی مکمل جائزہ لیا جائے تو سامنے آنے والی
اشیا میں دو برانڈز کے چکن ٹونائٹ (ہالینڈ سے درآمد)، ببلیکیوز (یوکے)،
چھوپا ببل (ہالینڈ)، پاسکول یوگی کڈز (اسپین)، تین برانڈز کے اسکیٹل فروٹس
(یوکے)، پکنک چکن (امریکا)، سلیما سوپ (یوکے)، کنور چکن سوپ (فرانس)، کپ اے
سوپ (یوکے)، ٹیولیپ چکن (ڈنمارک)۔ رائس چکن بروکولی (امریکا)، پاستا چکن
بروکولی (امریکا)، پاستا کریمی چکن (امریکا)، ہینز ڈنر چکن (یوکے)، جیل۔او
(امریکا) اور پوپ ٹریٹس (امریکا) شامل ہیں۔
|
|
اس فہرست میں شامل چکن کے تیار کردہ چند فوڈ آئٹمز ایسے بھی ہیں جو کہ
اسلام کے ذبح شدہ گوشت کے اصولوں کے حوالے سے مشکوک ٹھہرتے ہیں جبکہ چند
اشیا کے حلال یا حرام ہونے کی تصدیق کے لیے کوئی معقول وضاحت موجود نہیں۔
قائمہ کمیٹی کے اراکین کو اس بات سے بھی آگاہ کیا گیا ہے کہ ایک پاکستان
حلال اتھارٹی قائم کی جا رہی ہے، جو اندرون ملک تیار کی جانے والی اور
بیرونی ممالک سے درآمد کی جانے والی اشیائے خورد و نوش کے حلال ہونے کو
یقینی بنائے گی۔
اس اتھارٹی کے قیام کے بعد ملک میں فروخت کی جانے والی ڈبہ بند اشیاء کے
لیے حلال سرٹیفیکیشن لازمی قرار دی جائے گی۔
اتھارٹی کی تشکیل کے لیے ایک بل کا مسودہ وفاقی کابینہ اور مشترکہ مفادات
کونسل کو منظوری کے لیے بھجوا دیا گیا ہے جس کے بعد وزارت اس پوزیشن میں
ہوگی کہ ملک میں حرام اجزاء پر مشتمل کھانے پینے کی اشیا فروخت نہ ہوسکیں۔
|
|
دوسری جانب متعلقہ وزارت کے حکام کی جانب سے درآمد ہونے والی حرام اشیا کی
ذمہ داری لینے سے انکار کی وجہ سے قائمہ کمیٹی کے اراکین نے آج جمعرات کو
صوبائی حکومتوں کے متعلقہ افسران کے ساتھ اجلاس طلب کرلیا ہے۔
قائمہ کمیٹی بر ائے سائنس اور ٹیکنا لوجی کے چیئرمین طارق بشیر چیمہ کا
کہنا ہے کہ ’مختلف مارکیٹوں میں سینکٹروں حرام اشیاء فر وخت ہو رہی ہیں، ہم
سڑسٹھ برسوں میں حلال اور حرام کی تمیز نہیں کر سکے۔ حرام اشیاء بیچنے والی
جن دکا نوں کی نشاندہی ہو چکی ہے، ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے‘۔
|
|
تعجب کی بات یہ ہے کہ اس چونکا دینے والے انکشاف کے بعد کوئی بھی حکومتی
عہدیدار اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نظر نہیں آتا جبکہ اسلامی ملک ہونے کے
ناطے پاکستان میں حلال اور حرام اشیاء کا یہ معاملہ انتہائی حساس ہے- |