سال ٢٠٠٩ میں خواتین پر تشدد کے واقعات

عورت ماں بھی ہے، بیوی بھی، بہن اور بیٹی بھی ہے۔ اپنے ہر کردار میں اس کے جذبات و احساسات ایسے ایسے انوکھے رنگ دکھاتے ہیں کہ دیکھنے والے حیران رہ جائیں۔ کہتے ہیں عورت جفا پیشہ اور فتنہ گر ہوتی ہے یہ سب الزام نسوانی احترام اور فطرت کے بنائے ہوئے قوانین کی نفی کرتے ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ عورت وفا پیشہ اور ایثار و محبت کا لازوال شاہکار ہے۔ ماں، بیوی، بہن، بیٹی چاہے وہ ان میں سے کسی بھی روپ میں ہو اس کا ہر رشتہ تقدس کا داعی ہے۔ وہ عہد وفا کی سچی اور کردار کی بےداغ ہوتی ہے۔ لیکن کیا آج کے معاشرے میں اس کو وہ اہمیت حاصل نہیں ہے جس کی وہ حقدار ہے مرد عورت کو کمزور سمجھتا ہے اور پھر ہر دور میں ناپاک خواہشات کے حامل لوگ عورت سے زیادتی کرتے آئے ہیں جبکہ اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اسلام ایک ایسا واحد مذہب ہے جس نے عورت کو اس کا صحیح مقام و مرتبہ دیا، اسے عزت و توقیر عطا کی۔ اسلام نے عورت کو ظلم کی کال کوٹھری سے نکال کر اسے اس مقام پر بٹھا دیا جس کی وہ حقدار تھی۔ اسلام نے عورت کا جو معتبر اور قابل قدر کردار متعین کیا تھا مسلمانوں نے اسے ملحوظ خاطر نہیں رکھا، آج بھی عورت آبادی کا آدھا حصہ ہونے کے باوجود اپنے حقوق حاصل کر نے کے سلسلے میں خو اتین ابھی بھی کمزور ترین مخلوق ہیں مسلسل جدوجہد اور مصائب کا سامنا کرنے کے باوجود سیاست میں ابھی تک کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہیں۔ وہ خواتین جو دیہی علاقوں میں رہتی ہیں آج بھی زیور تعلیم سے محروم ہیں علاقائی فرسودہ رسومات کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں جن میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں تو عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے پر بھی پابندی ہے وہاں رہنے والی عورت آج بھی اپنی مرضی سے اپنی زندگی کے لیے کوئی بھی فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں نہ صرف پاکستان کے قبائلی علاقے بلکہ بیشتر ایسے علاقے ہیں جہاں اگر عورت اپنی مرضی سے شادی کر لے تو اسے کاروکاری کے الزام میں قتل کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان کے دیہی علاقوں زیادہ تر خواتین کی دوران زچگی بہتر علاج معالحے کے فقدان کی وجہ سے موت واقع ہو جاتی ہے نہ صرف خواتین کو ایسے مسائل کا سامنا ہے بلکہ انہیں گھریلو تشدد کے واقعات میں کئی ایسی حوا کی بیٹیاں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں ایسا صرف تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک میں ہی نہیں ہوتا بلکہ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک جو اکثر عورتوں پر ظلم کے حوالے سے مسلم ممالک پر اعتراض کرتے ہیں خود ان ممالک میں بھی عورتوں پر تشدد کے واقعات کم نہیں ہوتے چنانچہ سویڈن کے اخبار میں عورتوں پر تشدد کے واقعات کے اعداد شمار شائع ہوئے جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے تہذیب وتمدن کے دعویدار ممالک کی حالت کیسی دردناک ہے فکر انگیز اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سویڈن میں تقریبا ً ہر سال بارہ ہزار خواتین اپنے قریبی تعلق رکھنے والے یا واقف کار افراد کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوتی ہیں اور یہ تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے تاہم عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ عورتوں پر تشدد کے واقعات میں اکثریت کے بارے میں معلوم ہی نہیں ہوتا لیکن ایسے واقعات جو رپورٹ ہوتے ہیں ان سے اندازہ لگایا جاتا ہے پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کے جائزے کے مطابق 2007 میں 4500 واقعات رونما ہوئے لیکن ان واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا گیا جبکہ2009 کے دوران پاکستان میں خواتین پر تشدد کے تقریباً ساڑھے سات ہزار واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ رواں سال کے دوران بھی ان میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں میں خواتین پر تشدد کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں جن میں لاہور کے قریب کوٹ رادھاکشن میں بھٹہ خشت پر کام کرنے والی لڑکی کے کان اور ناک کاٹ دیئے گئے، پسرور میں خاتون کو اس کے شوہر نے جلا کر ہلاک کردیا، پھولنگر میں تین خواتین کے بال کاٹ کر منہ کالا کیا اور سرعام تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس سال2010 کے آغاز میں ہی لاہور کے علاقے ڈیفنس میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس سے معاشرے کے ہر فرد کی آنکھ اشک بار ہوئی یہ واقعہ 24 جنوری کو لاہور کے علاقے ڈیفنس میں ہوا ایک 12 سالہ گھریلو ملازمہ کو وحشیانہ تشدد کر کے قتل کر دیا گیا دیا۔

نفسیاتی ماہرین کے مطابق معاشرے میں ناخواندگی، دینی حقوق اور فرائض سے لاعلمی کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ عورت فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد کے زیادہ واقعات پنجاب میں پیش آئے جن کی تعداد چار ہزار416 ہے جبکہ سندھ ایک ہزار380 واقعات کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔ صوبہ سرحد میں 779، بلوچستان میں 763 واقعات رپورٹ کئے گئے ہیں۔ تحقیق سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں تشدد کے واقعات درج ہی نہیں ہو پاتے۔ حالیہ برسوں کے دوران میڈیا کی ترقی کے باعث بھی خواتین پر تشدد کے واقعات منظر عام پر آئے ہیں لیکن اس کے باوجود پورے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔ میڈیا پر تشدد کے واقعات کی نشاندہی تو کر دی جاتی ہے مگر ریاستی اداروں اور سماجی تنظیموں کو بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
Abid Hussain
About the Author: Abid Hussain Read More Articles by Abid Hussain: 2 Articles with 1580 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.