یہ کیسا مقدمہ ہے

یہ ایک ایسی مظلوم عورت ہے۔ جس کی پکار پر کوئی ابن قاسم مدد کو نہ آیا۔ اس پر ظلم کرنے والے خود اس کی اپنی قوم کے افراد ہیں۔ جو کبھی غیر مسلموں پر ظلم کے خلاف کھڑے ہوجاتے تھے۔ آج ڈالروں کی جھنکار نے انہیں اپنی قوم کی اس بیٹی کی چیخوں سے بے نیاز کردیا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور ایک مظلوم نہتی عورت، جس کے بچوں کو اس سے چھین کر مار ڈالا کے خلاف مقدمہ چلا رہی ہے۔ اس مقدمے پر ساری دنیا کی نظریں ہیں، یہ امریکی عدالت میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مقدمہ ہے۔ اس مقدمہ کو دیکھنے کے لئے عدالت کی عمارت کی اندر اور باہر فٹ پاتھ پر پاکستانی اور مقامی امریکی مرد و عورتوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ یہ لوگ علی الصبح عدالت کی عمارت کے باہر جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ان میں برقعہ پوش اور حجاب پہنے عورتیں بھی تھیں، باریش نوجوان بھی، بچے بھی تو لبرل قطع وضع اور خیالات رکھنے والے مرد اور عورتیں بھی۔ ’ کچھ ایسے بھی ہیں جو صرف ایک مسلمان اور انسان ہونے کے ناطے ڈاکٹر عافیہ کے پیشی پر آئے ہیں۔ یہ حجاب پہنے خاتون اپنی دو جواں سال بیٹیوں اور چھوٹے بچے لے کر آئی ہیں۔ عدالت کو بتایا جارہا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کے پیٹ میں زخم ہے اور آنتوں سے خون جاری ہے اور اب تک انہیں حکومت کسی ڈاکٹر کو نہیں دکھا رہی‘۔ جج ۔۔۔لیکن اب تک انہیں کسی ڈاکٹر یا لائسنس یافتہ فزیشن کو کیوں نہیں دکھایا گیا؟‘ امریکی وکیل استغاثہ ۔۔۔ مدعاعلیہ اپنا طبی معائنہ کسی خاتون ڈاکٹر سے کروانا چاہتی ہے اور خاتون ڈاکٹر دستیاب نہیں ہوسکیں‘۔ یہ ہے امریکہ کا انصاف ۔ ایک اور جھلک ملاحظہ ہو ۔۔۔۔ استغاثہ کی طرف سے پیش کئے گئے گواہ احمد گل نے، جو افغانستان میں امریکی افواج کے لیے مترجم تھے، عدالت کو اٹھارہ جولائی سن 2008 کے واقعات بتاتے ہوئے کہا کہ ان کی کمر اس پردے کی طرف تھی جس کے پیچھے ڈاکٹر صدیقی موجود تھیں۔ جب امریکی فوجی کیپٹن سنائیڈر نے چیخ کر کہا کہ ”اس کے پاس رائفل ہے” تو انہوں نے مڑ کر دیکھا کہ ڈاکٹر صدیقی بندوق اٹھائے پلنگ کے پاس کھڑی تھیں۔ مسٹر گل کا کہنا تھا کہ انہوں نے ڈاکٹر صدیقی کو رائفل سمیت دھکا دیا

اور جب امریکی چیف وارنٹ افسر نے ان کے پیٹ میں گولی ماری تب وہ بمشکل ان سے رائفل چھین پائے۔ اس دوران ان کے مطابق رائفل سے دو گولیاں چلیں۔ گزشتہ روز کیپٹین سنائیڈر نے بیان دیا تھا کہ ڈاکٹر صدیقی رائفل تانے پلنگ پر گھٹنوں کے بل بیٹھی تھیں۔ وکیل صفائی لنڈا مورینو کے پوچھنے پر مسٹر گل نے واضح طور پر کہا کہ انہوں نے ڈاکٹر صدیقی کو پلنگ پر گھٹنوں کے بل بیٹھے نہیں دیکھا۔ وکلاء صفائی کی جرح پر مسٹر گل نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد وہ امریکی حکومت کے تعاون سے امریکہ منتقل ہو چکے ہیں اور امریکی شہریت حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ ہیں خریدے ہوئے گواہ۔ لیجئے ایک اور گواہ ملاحظہ کیجئے۔ یہ گیری وڈ ورتھ ہیں، جو کہ رہی ہیں کہ میں نے بیس برس پہلے اس لڑکی کو بارہ گھنٹے کے نیشنل رائفل کے بنیادی کورس میں پسٹل شوٹنگ کرتے ہوئے دیکھا تھا،جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ ہزاروں طلبہ میں سے اس طالبہ کو بیس برس بعد کیسے شناخت کرسکتی ہیں تو ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔اس لڑکی نے چار سو سے بارہ سو راؤنڈ چلائے تھے۔ لیکن یہ پسٹل سے چلائے تھے۔ کسی رائفل سے نہیں چلائے تھے۔ اس جواب سے ساری عدالت کو ششدر کردیا´ ایک اور گواہ ایف بی آئی کے ایجنٹ بروس کیمرمین کا کہنا تھا کہ جولائی ۸۰۰۲ میں عافیہ نے انھیں بتایا تھا کہ میں نے یہ رائفل ڈرانے کے لئے اٹھائی تھی۔ تاکہ میں فرار ہوسکوں ۔ میں نے اس بیان کے بارے میں اپنے اعلیٰ حکام کو آگاہ کردیا تھا، لیکن جب دفاع کے وکیل ایلن شارپ نے اس ایف بی آئی کے ایجنٹ کو اس کے تحریر کردہ نوٹس دکھائے جس میں ایسی کسی رائفل کا کوئی ذکر نہ تھا تو اس کی زبان گنگ رہ گئی۔ یہ ہیں عافیہ کے مقدمے کے گواہ۔۔۔۔۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی جن کا تعلق دہشت گردی سے جوڑا جاتا رہا۔ لیکن ان کے خلاف مقدمے میں دہشت گردی کا کوئی الزام نہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر الزام ہے کہ انہوں نے افغانستان کے صوبے غزنی کے ایک پولیس ہیڈ کوارٹر میں ان سے تفتیش کے لیے آنے والی امریکی ٹیم پر ایم فور رائفل سے حملہ کیا۔ استغاثہ کے پیش کردہ ایف بی آئی کے ماہرین نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر صدیقی کی انگلیوں کے نشان ان کاغذات پر سے تو ملے ہیں جو مبینہ طور پر حراست کے وقت ان کے پاس سے دستیاب ہوئے تھے لیکن اس رائفل پر نہیں ملے جس سے انہوں نے مبینہ طور پر گولیاں چلائی تھیں۔ مقدمے کی ابتدائی سماعت نے اس وقت ڈرامائی شکل اختیار کرلی جب عدالت کو بتایا گیا کہ ملزمہ نے مبینہ طور پر جس گن سے امریکی فوجیوں پر گولیاں چلائی تھیں اس بندوق پر عافیہ صدیقی کی انگلیوں کے نشان یا کوئی اور ثبوت موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس بندوق سے فائر کی گئی گولیوں کے خول موجود ہیں جبکہ دوران سماعت عافیہ صدیقی نے ایک بار پھر امریکہ کے عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امریکہ کی عدالت سے انہیں انصاف کی توقع نہیں اور مجھ پر لگائے تمام الزامات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں یہ ہیں اس مقدمے کے ثبوت جن کا کوئی سر ہے نہ پیر۔ پراسیکیوٹر نے اس بات کا اعتراف کیا کہ عافیہ صدیقی کا القاعدہ یا طالبان سے تعلق کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور نہ ہی اس تعلق کے شبہ میں ان کے خلاف کوئی الزام عائد کیا جاسکتا ہے۔ دنیا میں اس مظلوم عورت کا مقدمہ ہے۔ مستقبل میں سپر پاور کے خلاف ایسی ایف آئی آر ہوگی۔ جس سے مشرف اور بش کبھی نہ بچ سکیں گے
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 419005 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More