گزشتہ دنوں خلیجی ممالک کے
تعمیراتی منصوبوں کے حوالے سے ایک رپورٹ نظر سے گزری، ان منصوبوں پر اٹھنے
والے اخراجات کے جو اعداد وشمار بتائے گئے ہیں، اسے سن کر ہم جیسے لوگوں کے
تو ہوش ہی اڑ جائیں۔ رپورٹ میں قطر کے حوالے سے بتایا گیا کہ وہاں فٹ بال
ورلڈکپ 2022ء کی تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں، ورلڈکپ کی میزبانی کے لیے جو
شرائط لاگو کی گئی تھیں ان کے تحت میدانوں، ہوٹلوں اور سڑکوں کے نظام کو
بہتر کیا جارہا ہے۔ میچ دیکھنے کے لیے آنے والوں کے لیے ہوٹلوں میں 90 ہزار
کمرے بنائے جائیں گے۔ لازمی بات ہے، موجودہ ہوٹلیں یہ ضرورت پوری نہیں
کرسکتیں۔ اس لیے درجنوں نئی فائیواسٹار معیار کی ہوٹلیں تعمیر کی جائیں گی،
کھیلوں کے مقابلے 7 شہروں میں ہوں گے، اس لیے ان ساتوں شہروں کا
انفراسٹرکچر نئے سرے سے تعمیر ہوگا۔ بڑی بڑی سڑکیں بنائی جارہی ہیں، پل بن
رہے ہیں، زیرزمین تیزرفتار ریل گاڑی چلائی جائے گی۔
پتا ہے ان تمام منصوبوں پر کتنی لاگت آئے گی، صرف 60 کھرب روپے!!!
اب دبئی کا حال سنیں، وہاں محمد بن راشد کے نام پر ایک نیا شہر بسایا جارہا
ہے، بتایا گیاہے کہ یہ شہر سیاحت، آرٹ اور کاروبار کا مرکز ہوگا۔
یہاں100ہوٹل اور دنیا کا سب سے بڑا شاپنگ مال تعمیرہوگا، 6 ارب درہم کے آئی
لینڈ منصوبے پر کام شروع ہوچکا ہے، یہ دنیا کا سب سے بڑا سیاحتی پوائنٹ
ہوگا۔ دبئی میں 3 کلو میٹر طویل اور 120 میٹر چوڑی واٹرکینال بھی تعمیر کی
جارہی ہے، جس پر منفرد پل ہوں گے، پرتعیش کشتیاں چلیں گی، کینال کے اردگرد
عالمی معیار کے 4 ہوٹل، شاپنگ سینٹر اور مخصوص تفریحی مراکز بھی ہوں گے اس
منصوبے پر ساڑھے 7 ارب درہم خرچ ہوں گے۔ اور بھی بہت سارے تفریحی منصوبوں
پر کام ہورہا ہے جن پر لاگت کا تخمینہ کروڑوں نہیں اربوں درہم میں لگایا
گیا ہے۔
مضمون نگار نے ان منصوبوں کا ذکر کرنے کے بعد پاکستانی حکمرانوں کو ان سے
فائدہ اٹھانے کی ترغیب دی ہے۔ بلاشبہ کھربوں روپے کے منصوبوں سے قطر اور
عرب امارات کو زبردست معاشی فوائد حاصل ہوں گے، یہ جتنی انویسٹ کررہے ہیں،
اس سے کئی گنا زیادہ کمائیں گے۔ ان منصوبوں کے نتیجے میں لاکھوں مستقل اور
عارضی ملازمتیں نکلیں گی۔ ان اسامیوں کو پر کرنے کے لیے دنیابھر سے لوگ قطر
اور دبئی کی طرف دوڑیں گے۔ پاکستان بھی ان مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھاسکتے
ہیں۔ یہ تو صورت حال کا ایک رخ ہے، میں آپ کو ایک دوسرا رخ دکھانا چاہتا
ہوں۔
عالمی سطح پر ہر سال تعلیمی اداروں کی درجہ بندی کی جاتی ہے، جس میں بتایا
جاتا ہے کہ گزشتہ برس سہولیات اور معیار کے اعتبار سے کون سے تعلیمی ادارے
کس کس نمبر پر رہے، گزشتہ دنوں اس حوالے سے تازہ رپورٹ شائع ہوئی ہے، اس
میں حسب معمول مسلم ممالک کے لیے یہ شرمناک بات سامنے آئی کہ دنیا کی
بہترین 500 یونیورسٹیوں میں سے ایک کا بھی تعلق مسلم دنیا سے نہیں، دوسرے
الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ عالم اسلام کی کوئی یونیورسٹی معیاری
یونیورسٹی کا درجہ حاصل نہیں کرسکی۔ سائنس، ٹیکنالوجی، آرٹ غرض ہر لحاظ سے
بہترین تعلیمی ادارے مسلم ممالک کی بجائے امریکا اور یورپ میں ہیں۔ بہت سے
قارئین کے لیے یہ حیران کن بات ہوگی کہ عربی زبان اور اسلامیات تو ہمارا
موضوع ہے مگران موضوعات پر بھی اعلیٰ تعلیم بالخصوص پی ایچ ڈی کا جو معیار
یورپی یونیورسٹیوں میں ملتا ہے وہ مسلم ممالک کے تعلیمی اداروں میں ناپید
ہے۔
سوال یہ ہے کہ مسلم ممالک اس دوڑ میں پیچھے کیوں ہیں؟ یہ مسئلہ وسائل کی
کمی کا نہیں ہوسکتا، مسلم ممالک کے پاس پیسوں کی کمی نہیں، آپ نے کالم کے
شروع میں پڑھا، صرف دو مسلم ممالک کس طرح پیسا لٹا رہے ہیں، یہ ملک ہوٹلوں،
شاپنگ پلازوں اور تفریحی گاہوں پر کھربوں روپیہ خرچ کررہے ہیں لیکن وہاں
کوئی ایک معیاری یونیورسٹی نہیں ہے۔ قطر اور دبئی میں جو بڑے تعلیمی ادارے
ہیں، وہ دراصل یورپی تعلیمی اداروں کے کیمپس ہیں۔ ان لوگوں نے خالص تجارتی
نقطہ نظر سے خلیجی ممالک میں اپنی یونیورسٹی کے کیمپس کھول رکھے ہیں، مسلم
حکمرانوں کی دولت کا ہم اندازہ ہی نہیں لگاسکتے۔
عرب ممالک میں ایسے ایسے شہزادے موجود ہیں، اگر صرف ان کے زیراستعمال ایک
آدھ گاڑی ہی بیچ دی جائے تو اس سے معیاری یونیورسٹی بنائی جاسکتی ہے۔ مسلم
ملک برونائی میں دولت کی جو ریل پیل ہے، اس کے بارے میں آپ نے ضرور سنا
ہوگا، بتایا جاتا ہے کہ وہاں کے حکمران نے آج تک پرانے نوٹ کو ہاتھ نہیں
لگایا۔ اس کے محلات کے باتھ روموں کو کی ٹونٹیاں بھی سونے کی ہیں، تیل کی
دولت سے مالامال اس ملک میں جمعدار جھاڑو لگانے کے لیے بھی اپنی ذاتی گاڑی
میں آتا ہے۔ اور یونیورسٹیاں؟ ایک بھی نہیں۔ آج کل مسلم ممالک کے طلبہ
اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے زیادہ تر ملائیشیا کا رخ کررہے ہیں لیکن مسئلہ
وہی ہے، وہاں بھی امریکا اور یورپی ممالک کے یونیورسٹیوں نے اپنے کیمپس
قائم کررکھے ہیں، معیاری تعلیم صرف وہیں سے ملتی ہے، باقی ملائیشیا کی اپنی
یونیورسٹیوں کا حال بھی برا ہے۔ملائشیا یورپی ممالک کی نسبت سستا ہے،
امیگریشن قوانین قدرے نرم ہیں۔ کرنسی ریٹ بھی کم ہے، اس لیے طلبہ کا یورپی
یونیورسٹیوں میں پڑھنے کا خواب وہاں جاکر پورا ہوجاتا ہے، انہیں کم خرچ میں
یورپی یونیورسٹی کی سند مل جاتی ہے۔ ترکی تعلیمی میدان میں ابھی کچھ
انگڑائی لے رہا ہے، مسلم دنیا کی سب سے معیاری یونیورسٹیاں ترکی میں ہی ہیں
مگر عالمی طور پر اپنا لوہا منوانے کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
پاکستان کو دیکھ لیں، یہاں اربوں روپے میٹرو منصوبوں پر پھونکے جارہے ہیں،
جبکہ یونیورسٹیوں کی حالت آپ کے سامنے ہے۔ سوچنے کی بات ہے، کیا راولپنڈی
اور اسلام آباد کے درمیان لوگ سفر نہیں کرتے ہیں، دونوں شہروں کے درمیان
کوئی سڑک نہیں ہے، لوگ گدھے گاڑیوں پر دھکے کھاتے ہوئے جاتے ہیں؟ ایسا کچھ
بھی نہیں ہے، دونوں شہر ملے ہوئے ہیں، سڑکوں کی حالت بھی بہتر ہے، اس کے
باوجود محض دکھاوے اور واہ واہ کے لیے 50 ارب روپے سے دونوں شہروں کے
درمیان میٹروبس منصوبہ بنایا جارہا ہے، اس رقم سے پورے پاکستان کے دیہاتوں
کی سڑکیں بن سکتی تھیں، بہرحال بات تعلیمی اداروں کی چل رہی تھی، اگر
پاکستانی حکومت چند ارب روپے خرچ کرکے عالمی معیار کی یونیورسٹی بنانا
چاہیے تو کیا اس کے لیے یہ ناممکن ہے، جو کچھ اربوں روپیہ میٹرو منصوبوں پر
اڑا سکتی ہے، اس کے لیے یونیورسٹی بنانا کیا مشکل ہے؟
یہ بات تو واضح ہے، عالمی معیار کی یونیورسٹیاں بنانے کے لیے مسلم حکمرانوں
کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے، اصل مسئلہ ترجیحات کا ہے۔ تعلیم سرے سے
ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ اس حوالے سے دو باتیں ہوسکتی ہیں، یا
تو مسلم حکمرانوں کو 20 ویں صدی میں بھی تعلیم کی اہمیت کا احساس نہیں ہے،
انہیں اس چیز کا علم ہی نہیں ہے کہ اس جدید دور میں سائنس وٹیکنالوجی اور
دیگر علوم میں مہارت قوموں کی زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ دوسری بات
یہ ہوسکتی ہے کہ مسلم حکمران جان بوجھ کر اپنے ملکوں میں معیاری تعلیم کا
بندوبست نہیں کرتے، وہ عام آدمی کو تعلیم یافتہ بناکر اپنے پاؤں پر کلہاڑی
کیوں ماریں گے؟ مجھے تو یہی بات درست لگتی ہے، کیونکہ اگران مسلم حکمرانوں
اور بالادست طبقوں کو اعلیٰ تعلیم کی اہمیت کا احساس نہ ہوتا تو یہ اپنے
بچوں کو دنیا کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں کیوں داخل کراتے!! |