بسنت ………… مقتول جو قاتل ٹھہری

یہ بہار یا بسنت بھی عجیب ہے۔ پھل، پھول، شگوفے کھلتے ہیں۔ہرطرف رنگ ہی رنگ، انسان پر بھی عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے۔ اک مسکان سی دل میں پھوٹتی محسوس ہوتی ہے۔ آدمی فطرت کے بکھرے رنگوں پر دھیان نہ دے اور فطرت کے عطا کردہ حسن سے لطف اندوز نہ ہو تو اداسی محسوس ہوتی ہے۔بہار ہر کسی کو بھلی لگتی ہے ہر کوئی اس کی آمد کا جشن مناتا ہے۔ پنجاب خصوصاً لاہور میں اس جشن کا نام بسنت ہے جو آسمان کو رنگ برنگی پتنگوں سے سجا دینے کا نام ہے۔یہ فطرت کی فیاضی پر لاہور کے باسیوں کے طرف سے خوشی کا اظہار تھا مگر کیا کریں ہمارے حکمران جو فہم و فراست سے محروم اور قوت فیصلہ سے بے گانہ ہیں انہوں نے چند لوگوں کے دباؤ میں آکر اس خوبصورت موسم کی خوشی کو قتل کر دیا ہے اور الٹا بسنت کو قاتل قرار دے دیا ہے۔ ٹریفک حادثوں میں اگر گاڑیوں کی زد میں آکر چار آدمی مارے جائیں تو گاڑیوں پر پابندی نہیں لگتی، ٹریفک کی اصطلاح کی جاتی ہے۔موٹی ڈور یا کیمیکل لگی ڈور کی وجہ سے کچھ لوگ اگر زخمی یا ہلاک ہوئے تو اس قاتل ڈور پر پابندی لگائی جاتی مگر یہاں تو وہ تہوار ہی ختم کر دیا گیا ہے۔

مجھے اپنا بچپن یاد ہے جب سردی اپنے جوبن پر آتی تو مائیں گھر کی چھتوں پر چار پائیاں بچھا کر دھوپ سے لطف اندوز ہوتیں اور بچے پتنگ بازی میں مشغول ہو جاتے۔ جوں جوں فروری قریب آتا پتنگ بازی میں شدت آتی جاتی۔ ہر اتوار یا چھٹی کا دن منی بسنت کی طرح ہوتا ۔ لوگ بے تابی سے بسنت کا انتظا رکرتے۔ بسنت کے دن عید کا سماں ہوتا اور لاہور کے لوگوں کا عیدین کے بعد یہ سب سے بڑا تہوار ہوتا تھا۔ چند ہلاکتوں کے بعد وارثوں کا شور مچانا بڑا فطری تھا مگر مذہبی حلقے جو افسوسناک حد تک جمود کا شکار ہیں ،بھی میدان میں آگئے اور اک نئی بحث کہ یہ ایک مذہبی تہوار ہے یا نہیں، شروع کر دی۔

چنگیز خاں اور ہلاکو کے حملوں سے پہلے مسلمان تحقیق اور علمیت میں دنیا کے امیر تھے۔ یونانیوں نے دور قدیم میں جو تحقیقی کام کیا اسے مسلمانوں نے نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ ایک عروج دیا۔ چنگیز خاں اور ہلاکو نے ثمرقند ،بخارا اور بغداد کو جب جلا کر رکھ دیا۔ مسلمان سائنسدان محقق اور علماء قتل کر دیے۔ تویورپ نے اس خلاء کو پورا کیا۔ وہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ تھی جو اب تک جاری ہے۔یورپی قومیں آج بھی ہر عمل میں ہم سے بہت آگے ہیں۔ انہوں نے انسانیت کو فروغ دیا ہے۔ علم کو ترقی دی ہے۔ تحقیق میں ہم سے بہت آگے ہیں مگر مسلمان اس وقت سے لے کر آج تک مکمل جمود کا شکار ہیں۔ انسانیت سے بے بہرہ، فرقہ پرستی اور تعصب کا شکار۔ ہر بات میں منفی پہلو ڈھونڈتے ہیں۔ اسلام دین فطرت ہے اور فطرت انسان کو خوش دیکھنا چاہتی ہے۔ بسنت ایک خوشی کا تہوار ہے اس کو کسی طرح بھی مذہب یا کسی فرقے سے نہیں جوڑا جا سکتا اور لوگوں کی خوشی کو قید بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اب بھی بسنت ہوتی ہے۔ گھٹی گھٹی، سہمی سہمی، پولیس گردی کا شکار۔ مگر ذمہ دار اس بات کو نہیں سمجھتے کہ لوگوں سے خوشی زبردستی چھینی نہیں جا سکتی۔بلکہ سرکاری خزانے سے بہت سا روپیہ بسنت کے خلاف بے معنی نعرے بازی سے بھرے پوسٹروں اور بینروں پر خرچ کیا جاتا ہے۔

شیخ المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین کی کوئی اولاد نہ تھی انہوں نے اپنے بھانجے تقی الدین کو بیٹا بنایا ہوا تھا۔ تقی الدین نوجوانی میں فوت ہو گئے ۔خواجہ صاحب کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا۔ انہوں نے دنیا چھوڑ کر تقی الدین کی قبر پر چلہ کاٹنا شروع کر دیا۔ بہت سے مریدوں نے انہیں تسلی دی، سمجھایا مگر وہ وہاں سے واپس آنے کو تیار نہ ہوئے۔ تمام مرید اُن کی بے پناہ اداسی اور غمگین رہنے سے پریشان تھے۔ حضرت امیر خسرو اُن کے مرید تھے۔ انہوں نے ایک دن دیکھا کہ کچھ عورتیں پیلے کپڑے پہنے، پیلے پھول ہاتھوں میں لئے ڈھول بجاتے ہوئے جا رہی ہیں۔ آپ نے پوچھا تو پتہ چلا بسنت منا رہی ہیں۔ آپ نے پیلا لباس پہنا، پیلا دوپٹہ لیا اور بسنت کی نسبت سے ایک نغمہ لکھا ’’آج بسنت منا لے سہاگن۔ جاگیں تیرے بھاگ سہاگن‘‘ اور یہ نغمہ گاتے، رقص کرتے ہوئے حضرت خواجہ نظام الدین کے پاس پہنچ گئے۔ رقص کرتے ہوئے جب انہوں نے چہرے سے دوپٹہ ہٹایا تو حضرت خواجہ مسکرا دئیے اور غم کی حالت سے باہر آگئے۔ اس واقعے کی یاد میں حضرت خواجہ کی درگاہ پر ہر سال بسنت منائی جاتی ہے۔ لوگ پیلے کپڑے پہنتے، پیلی پگڑیاں باندھتے او رپیلے پھول لئے درگاہ میں نظر آتے ہیں۔

اسلامی سال قمری سال ہے۔ جبکہ ہم تاریخوں کا حساب عام طور پر شمسی سال کے حساب سے کرتے ہیں اور شمسی سال جس کا ہم نے انتخاب کیا ہے وہ عیسوی سال ہے۔ اسے استعمال کرتے ہم اسلامی اور غیر اسلامی کی بات نہیں کرتے۔ ہندوستان کی سرزمین جو آج کئی حصوں میں بٹ چکی ہے۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال اور بہت سے حصے اس میں شامل تھے۔ ہم ہندوستانی تہذیب کے وارث ہیں۔ ہندوستانی لوگ ہندسوں کے موجد ہیں۔ یہاں کا شمسی سال بھی اسی طرح ہے جس طرح عیسوی سال۔ بسنت اس سال کی ابتداء ہے۔ ہندوستانی شمسی سال میں بھی بارہ مہینے ہیں اور ان بارہ مہینوں کو چھ رتوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے دو مہینے چیت اور ساکھ کو بسنت رُت کہتے ہیں۔ اگلے دو مہینے جیٹھ، ہاڑھ کو گرمی رُت اور پھر ساون بھادوں کو ورشا رُت کہتے ہین۔ یہ مون سون کا موسم ہے۔ پھر اسوج اور کاتک کے مہینے جو خزاں کا موسم ہے اسے شاراد رُت کہتے ہیں۔ اگلے دو مہینے سردی کے ابتدائی مہینے مگر اور پوہ کو ہیمنت (Hemani) رُت کہا جاتا ہے۔ آخری دو مہینے ماگ اور پھاگن انتہائی ٹھنڈے موسم کے مہینے ہیں اور انہیں سسرا (Sisira) رُت کہتے ہیں۔ اسی تہذیب کے حوالے سے سخت سردی کے بعد جب بہار کا موسم آتا ہے سردی سے جھلسے ہوئے پودوں پر پیلے پیلے پھول آتے ہیں تو یہاں کے لوگ خوشی مناتے ہیں۔ اسی خوشی کا نام بسنت ہے۔ کچھ لوگ یقینا بسنت کو ناپسند کرتے ہوں گے مگر آج بھی اس مقتول بسنت کو اگر زندگی کی ہلکی سی رمق بھی مل جائے تو پابندی لگانے والوں کو احساس ہوگا کہ یہ تہوار آج بھی عوام کا انتہائی مقبول تہوار ہے۔ جس پر کوشش کے باوجود پوری طرح پابندی لگانے میں حکومت ناکام ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ موٹی یا کیمیکل کی ڈور پر پابندی لگا دے۔ پتنگ کا زیادہ سے زیادہ سائز مقرر کر دے تا کہ حادثات کم سے کم ہوں۔ مگر اس پر لاگو بے جا پابندی ختم کردے۔

لاہور کے لوگ بسنت پر پتنگ بازی کرتے ہیں۔ پتنگ بازی یوں تو بہت سی جگہوں پر ہوتی ہے مگر لاہور سے اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ بسنت کا ذکر جب بھی پتنگ بازی کے حوالے سے ہوتا ہے لاہورہی کی بات ہوتی ہے۔ اس لیے اب یہ چند صدیوں سے خالصتاً لاہور کا مقامی تہوار ہے۔ مگر تیزی سے پنجاب کے دیگر علاقوں میں بھی مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ پتنگ بازی کبھی لاہور کے علاوہ تھوڑی بہت فقط نیپال میں ہوتی تھی۔ باقی علاقوں میں بسنت تو منائی جاتی ہے مگر اپنے اپنے انداز میں۔اب پتنگ بازی لاہور کا تہوار ہے، ایک خوبصورت تہوار، تہذ یبی تہوار، ثقا فتی تہوار۔ خدارا اسے زندہ رہنے دیں۔ لوگوں کو خوشیوں سے محروم نہ کریں۔
تنویر صادق
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500529 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More