ستارہ آنکھ میں آیا تھا

کیا کوئی تکلیف ماں باپ کے بڑھاپے اور ضعف اور رقتِ قلب اور تنہائی اور کم گوئی اور کم خوری اور بیماری سے زیادہ بھی دل کو مٹھی میں جکڑنے والی اور روح کو کرب میں ڈالنے والی ہوسکتی ہے؟ کیا یہ طرفہ تماشا نہیں کہ جو مضبوط شخص بے چارگی میں ہماری دست گیری کرتا ہے اس مضبوط شخص پر آہستہ آہستہ چھا جانے والے بڑھاپے کے سامنے ہم بے بس ہوجاتے ہیں اور پھر وہ ہمیں اس ناقابل اعتماد ، قدم قدم پر دھوکہ دینے والی اور خود غرضی سے اٹی ہوئی دنیا میں اکیلا چھوڑ کر منوں مٹی کے نیچے جا سوتا ہے اور ہم اس کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے ؎
عصا در دست ہوں اس دن سے بینائی نہیں ہے
ستارہ آنکھ میں آیا تھا میں نے کھو دیا تھا

وہ جن کے ماں باپ یا ماں یا باپ حیات ہیں ، حالانکہ یہ ابر کا ٹکڑا ہے جو زیادہ دیر فضا میں نہیں رکے گا‘ یہ وہ آسمانی پرندہ ہے جو بہت جلد اڑ کر چلا جائے گا‘ پھر کڑکتی دھوپ ہے اورشل کرتے جاڑے‘ کوڑوں کی طرح ضربیں لگاتے جھکڑ، غیر تو غیر ہیں اپنوں کے دیے ہوئے دھوکے اور دشمنیاں اور منافقتیں!

جن کے پاس یہ نعمت ابھی موجود ہے اس کااحساس کریں۔ یہ تو بہشت کا ٹکٹ ہے جو چاہے بہشت والی ٹرین میں بیٹھ جائے اور جس کا بخت سیاہ ہو ان کی خدمت سے محروم رہے اور اگر اس تحریر کی تاثیر سے کوئی ان کے قدموں پر سر رکھ دیتا ہے تو اس لکھنے والے کے لیے دعا کردے کہ اس باب میں جو کوتاہیاں اس سے سرزد ہوئیں وہ بھی معاف کردیں اور وہ خدا بھی جس نے ربوبیت کالفظ اپنے لیے استعمال کیا یا ماں باپ کے لیے اور بس !
KHALID SHOUQ
About the Author: KHALID SHOUQ Read More Articles by KHALID SHOUQ: 11 Articles with 13035 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.