سرٹیفائیڈ جاہل

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے - جو انسان کی زندگی کے ہر پہلو پر مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے - پیدائش ، تعلیم ، کھانا پینا ، شادی بیاہ ، تجارت ، معاشرے میں رہن سہن ، آداب ، سلیقے ، رشتہ داری ، اخلاق حتی کہ موت تک انسان کو جن چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان سب کے لیے اسلام کے اندر وضاحت موجود ہے -
جو دوسرے مذاہب میں دیکھنے کو نہی ملتی - اور اسلامی طرز معاشرت کو اپنانا ہی ہماری کامیابی کی ضمانت ہے-

موجودہ دور میں ہمارا ذکر تیسری دنیا کے تضحیک آمیز لفظ کے ساتھ کیا جاتا ہے - پسماندگی کی معراج پر پہنچنے کے لیے جو راستے ہم نے اختیار کیے ہیں ان میں سے طرز معاشرت کی تبدیلی اور تربیت کی کمی قابل ذکر ہے -

اسلام ہم کو جس معاشرے میں ڈھالنا چاہتا ہے ہم نے اس کے خلاف طبل جنگ بجا رکھا ہے- ماں کی گود انسان کی پہلی تعلیمی درس گاہ ہے - مگر اب بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی انسان اس تگ و دو میں لگ جاتا ہے کہ کوئی ایسا سکول سسٹم مل جائے جو اس نو مولود کو اٹھا کر لے جائے اور ایک اعلی منصب پر فائض ہونے تک اس کو کوہلو کا بیل بنائے رکھے -

جب تک اس کی پرورش والدین کے ھاتھوں نہیں ہو گی بھلا تب تک وہ ایک ذمہ دار شہری کا کردار کیسے ادا کر سکے گا - اور ذہنی غلامی اس حد تک ہم میں سرایت کر چکی ہے کہ بچوں کی تعلیم کے لیے ہم اس درسگاہ کا انتخاب کرتے ہیں جس میں ساری کتابیں ان لوگوں کی پڑھائی جاتی ہوں جن سے آگے نکلنے کے خواب ہماری نسلیں عرصہ دراز سے دیکھ رہی ہیں تو بھلا وہ درسگاہ ان بچوں کو کیا سکھائے گی
بقول شاعر علامہ محمد اقبال
شکایت ہے مجھے یا رب خدا وندان مکتب سے
سبق شاھیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا

آج ہمارے سر پر مسلط حکمرانوں کا رونا ہم رو رہے ہیں یہ کیسے ہم پر قابض ہو گئے جب کہ ہماری اکثریت ان سے ناخوش ہے - ان کو یہاں تک پہنچانے والے کون ہیں - یہ حکمران کہاں کی پیداوار ہیں -ان حکمرانوں کو ہمارے سر پر مسلط کرنے والے ہمارے ہی معاشرے کے وہ لوگ ہیں جن کے پاس بیرون ممالک کی معروف یونیورسٹیوں کی ڈگریاں ہیں مگر ان کی تربیت جس ماحول میں ہوئی ہے - اس ماحول میں جینے والا انسان کبھی اس درد سے آشنا ہو ہی نہی سکتا جو درد اس ماں کے اندر ہے جس کا بیٹا اغوا برائے تاوان کے لیے زندگی کی آخری سانسیں گن رہا ہے اس باپ کا درد جس کے بیٹے کو جھوٹے کیس کی بنا پر تھانے کے ٹارچر سیل میں رشوت لینے کے لیے الٹا لٹکا دیا گیا ھو یا اس بہن کا درد جس کا بھائی کسی بم دھماکے میں مر گیا ھو یا اس بھائی کا درد جس کے پاس دوسرے بھائی کی زندگی بچانے کے لیے ہسپتال کی فیس نہ ہو -

یہ وہ حقیقتیں ہیں جن کا ازالہ تعلیم کے ساتھ شعور کی موجودگی میں ممکن ہے - گدھے پر کتابیں لاد دینے سے وہ سائنس دان تو نہی بن پائے گا - تعلیم کے ساتھ تربیت اتنی ہی ضروری ہے جتنی پھول کے لیئے خوشبو ورنہ مغرب کا لکھا ہوا نصاب پرھ کر ہم ترقی کی بجائے اندھیرے میں ڈوبتے جائیں گے-
رہی تعلیم مشرق میں نہ مغرب میں رہی غیرت
یہ جتنے پڑھتے جاتے ہیں جہالت بڑھتی جاتی ہے

اس بات کا مقصد ہر گز یہ نہی ہے کہ ہم آج ہی اپنے بچوں کو سکولوں سے اٹھا لیں اور ان کو تعلیم جیسے عظیم فرض سے پیچھے ہٹا کر جایل مطلق بنا دیں مقصد یہ ہے کہ اس تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت بھی کی جائے اور وہ ماحول میسر کیا جائے جو اس کی ذاتی صلاحیتوں کو نکھار دے -

غیر ملکی ڈگریاں ، پوش علاقے میں رہنے والے ، ریشمی لباس ، مغربی ہوٹلوں میں قیام کرنے والے ، چائئیز اور رشین کھانا کھانے والے ، محفوظ مستقبل ، اور احساس تحفط سے سرشار لوگوں کی کتابیں پڑھ کر ہم اس معاشرے میں زندہ نہی رہ سکتے اس کے ساتھ اچھی تربیت انتہائی ضروری ہے-

جہاں اسلام مرد اور عورت کے لیے علم کے حصول کو فرض قرار دیتا ہے وہی اسلام ان کی اچھی تربیت کی دینی اور معاشرتی زمہ داری بھی والدین کے کاندھوں پر ڈالتا ہے- تا کہ مستقبل میں وہ معاشرے میں اپنا اہم کردار ادا کر کے ملک و ملت کی خدمت کر سکیں -

دنیا میں آنے والا ہر بچہ پیدائشی طور پر مسلمان اور اچھی شخصی خوبیوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے-

انسان بنیادی طور پر امن پسند ہوتا ہے مگر اس کو دشمن بناتی ہیں کتابیں ، معاشرہ ، اور اس کی تربیت کرنے والے لوگ (نیلسن منڈیلا)-

نپولین بونا پاٹ سے آپ ضرور واقف ہوں گے وہ ایک چھوٹے قد اور بھدے جسم کا مالک تھا سکول کے زمانے میں ہم جماعت اس کو بچہ ہاتھی کہتے تھے - ہم جماعتوں کے اس مذاق نے نپولین میں احساس کمتری پیدا کر دیا - جب ایک دن اس نے اس بات کا ذکر اپنی ماں سے کیا تو اس نے کہا تم اپنے قد کی پستی کو اپنے کردار کی بلندی سے مات دو اور اپنے کردار کو اس قدر بلند کرو کہ تمھارا مذاق اڑانے والے تمھارے سامنے جھک جائیں اپنی ماں کی اس تربیت کی بنا پر نپولین کیا بنا وہ ایک الگ داستان ہے جس سے آپ ضرور واقف ہوں گے-

ایک اچھا انسان بننے کے لیے اچھی تربیت کا ھونا انتہائی ضروری ہے - اچھی تربیت کی مدد سے ایک ان پڑھ انسان بھی وہ کام کر دیکھاتا ہے جو کئی پڑھے لکھے کبھی نہی کر پاتے-

ایک دفعہ مامون الرشید کے دربار میں ایک لونڈی آئی جو شکل و صورت میں دوسری تمام لونڈیوں سے بہتر تھی تو مامون الرشید نے حکم جاری کیا کہ اس کو محل میں دوسرے کاموں کی بجائے میری خدمت پر مامور عملے میں شامل کیا جائے - مگر اس لونڈی نے کہا کہ اگر آپ مجھے قتل بھی کر دیں تو میں آپ کی نشست میں ایک پل بیٹھنا بھی پسند نہی کروں گی -

مامون الرشید نے انتہائی غصے کے ساتھ اس گستاخی کی وجہ دریافت کی تو لونڈی نے کہا کہ مجھے بچپن سے یہی سکھایا گیا ہے کہ جو عادت عمل یا کوئی شخص نا پسند ہو اس کو کبھی اپنے اوپر اختیار نہ دینا چاہے وہ کوئی بادشاہ ہی کیوں نہ ہو-

بات کرتے وقت آپ کے منہ سے ایک سخت قسم کی بد بو آتی ہے مگر آپ کے خدام ڈر کی وجہ سے اس کا ذکر نہیں کرتے- یہ بات سن کر مامون الرشید نے فورا طبییب کو طلب کیا اور طویل علاج کے بعد اس بیماری سے چھٹکارہ حاصل کیا -

صحت یاب ہونے کے بعد اس لونڈی کی صاف گوئی پر اس کو انعام و اکرام سے نوازا -

قصہ مختصر کہ تعلیم کی اہمیت اپنی جگہ مگر تربیت جیسے اہم عمل سے گزرے بنا وہ سونا کندن بننے کی بجائے ایک سرٹیفائیڈ جاہل بن کر معاشرے پر بوجھ بنے گا -

جیسے طرح آج ہمارے پیارے ملک پاکستان میں ہزاروں افراد ڈگریاں حاصل کر کے اہم عہدوں پر فائز ہیں مگر جب وہ کسی سے بات کرتے ہیں تو سامنے والے کے چودہ جمع چھ = بیس طبق روشن کر دیتے ہیں-

Shauket Hayat Gondal
About the Author: Shauket Hayat Gondal Read More Articles by Shauket Hayat Gondal: 6 Articles with 19077 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.