نئے فضلاء کی خدمت میں
(Shaikh Wali Khan AlMuzaffar, Karachi)
دینی مدارس میں تعلیمی سال اپنے
اختتام کے قریب ہے اور طالب علم کیلئے آغاز اور اختتام سال نہایت اہمیت کا
حامل ہوتاہے ،ان دو نوں مواقع پر اگر اس کا حس بیدار ہو اور وہ اپنے اہداف
و مقاصد کا استحضاراور تعیین کرے تو اس کے دور رس اثرات سے نہ صرف وہ بلکہ
پورا معاشرہ مستفید ہوسکتاہے ،خصوصا فارغ التحصیل ہونے والے حضرات کو اگر
اپنی حساس حیثیت اور بھاری ذمہ داریوں کا احساس ہو تو وہ کس قدرانسانیت کے
لیے مفید ثابت ہوسکتے ہیں اور بصورت دیگران کی غفلت و لاپرواہی کتنا بڑا
المیہ ہے، اہل نظر کو ان ہر دو صورتوں کا بخوبی ادراک ہے ،کسی نے کیا خوب
کہا ہے :
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن ،اپنا تو
بن
بڑی جامعات میں گذشتہ ایک عرصے سے یہ رسم چلی ہے ، کہ ختم بخاری شریف کے
موقع پر ایک عظیم الشان تقریب کا اہتمام کر تے ہیں، ہماری ایک برانچ
’’جامعہ مفتوحہ شہداد کوٹ‘‘ میں بھی امسال یہ جلسہ مغرب سے شروع ہوکر صبح
صادق تک جاری رہا،بخاری شریف کا آخری درس اور اختتامیہ گذارشات راقم کے ذمے
تھیں،درسی گفتگو کو نقل کرنے کا یہاں موقع نہیں ہے البتہ عام علماء وفضلاء
کی خدمت میں پیش کی گئیں گذارشات کچھ یوں تھیں:
طالب علمی کے مختلف مراحل طے کرنے کے بعد آج آپ اپنی زندگی کے ایک اہم
دوراہے پہ کھڑے ہیں ،آپ کی تعلیم رسمی طور پر پایٔہ تکمیل تک پہنچ گئی،
گویادستار فضیلت آپ کے سروں پر بندھ گئی، یہ سب کچھ تمہیں ہزار بار مبارک
ہو ․․․․․اس موقع پر یقینا آپ کا دل خوشی سے معمور ،آپ کا دماغ فرط افتخار
سے مخمور اور آپ کے جذبات واحساسات محو پروازِ رفعت ہوں گے، آپ میں سے بہت
سوں کو تو اپنے سروں اور کندھوں سے ایک بوجھ سا اترتا محسوس ہوگا، اور وہ
اپنے آپ سے یوں سرگوشی کررہے ہوں گے کہ بہت ہوگئی یار، اب آؤ ! ذرا سستالیں،
ذرا خوش منظر کائنات کا کھل کر نظارہ کریں، کچھ سہانے ماحول اور پر فضا
موسم سے محظوظ ہوں، اور برسوں کے تھکن وماندگی کے بعد عیش وطرب کے چند لمحے
گذار دیں، پھر کچھ کارنامے انجام دینگے ․․․․․․․اور آپ ہی میں سے یقینا کچھ
ایسے بھی ہوں گے جو ہموم وافکار میں گھرے ہوں گے، انہیں یا تو اپنی محرومی
اور بے بضاعتی کا احساس سوہانِ روح بن کرپریشان کر رہا ہوگا ،اور یا فکر ِمعاش
اورغمِ روزگار ان کے اعصاب پر سوار ہوگا، اور وہ اس سوچ میں ہوں گے کہ اب
عملی زندگی میں داخل ہورہے ہیں تو کس ذریعہ معاش کو اختیار کیا جائے ،اور
نان جویں کیلئے کس راہ کا انتخاب کیا جائے ․․․․․․؟
یقین جانیئے یہی وہ مقام ہے جہاں آپ کی زندگی کی تشکیل ِجدید ہوتی ہے ،اس
موقع پر آپ کی حیات وممات کا فیصلہ ہوتا ہے ،اور یہی وقت آپ کے روشن یا
تاریک مستقبل کیلئے فیصلہ کن گھڑی کی حیثیت رکھتا ہے ،آج گویا زمانہ آپ کو
خبر دار کر رہا ہے کہ ’’ ـــفیصلہ تیرے ہاتھوں میں ہے :دل یا شکم ‘‘ ۔
لہذا پہلی بات تو یہ یاد رکھیں کہ آج آپ عملی زندگی میں قدم رکھ رہے ہیں
مگرآپ کی علمی بلکہ تعلیمی زندگی کا خاتمہ نہیں ہونا چاہئے ،بظاہرآپ کی
’’طالب علمی‘‘ بھلے ختم ہو، مگر تعلیم بدستور جاری رہنی چاہئے ،’’اپ ڈیٹ
‘‘رہنا ضروری ہے، اور جب تک آپ باضابطہ پڑھ سکیں ضرور پڑھیں ،اور اگر آپ کے
حالات آپ کو اس کی اجازت نہیں دیتے توکتاب بینی اور کتاب خوانی کی عادت کم
از کم نہیں چھو ٹنی چاہیے ۔
دوسری بات یہ کہ بعد از فراغت آپ کا پہلا قدم ہی آپ کے مستقبل کا رخ متعین
کرے گا ،اس واسطے آپ ’’ پہلا قدم‘‘ خوب سوچ سمجھ کر درست سمت میں اٹھائیں۔
اور مادے کو روح پر، دنیا کو دین پر ترجیح دینے کے خطرناک اقدام سے بچیں؛
کیوں کہ آپ کو مدرسے میں اول وآخر یہی سبق پڑھایا گیا کہ زندگی کے اس دلدل
میں آپ کا معیار’’ فاظفر بذات الدین ‘‘ والا ہونا چاہئے ۔
تیسری بات یہ کہ خوب غور وخوض سے اپنے آپ کا جائزہ لیں اور اپنی افتاد طبع
واستعداد اور مزاج کو پرکھ کر اپنے لئے دین کے کسی ایک شعبے کا انتخاب کریں،
اور پھر اپنے وسائل ،ذرائع اور صلاحیتوں کو اس کیلئے وقف کردیں، ہر لائن
میں قسمت آزمائی کرنے سے آپ ضائع ہو جائیں گے اور آپ کی خدمت سطحی اور غیر
مؤثر رہیگی ۔
چوتھی بات یہ کہ تعقل ،سمجھداری ،مشاورت اور عواقب اندیشی کو زاد راہ
بنائیں ،بالخصوص دین اور اہل دین کے خلاف علاقائی اور بین الاقوامی سازشوں
،دسیسہ کاریوں اور چیر ہ دستیوں پر عمیق اور مفصل نگاہ رکھتے ہوئے تفرد،
تشتت ،توغل اور تصنع سے اجتناب کریں،نیز یاد رکھیں کہ دین کے ساتھ جذباتی
وابستگی کافی نہیں،فکری اور نظریاتی رشتہ ہی آپ کے حسن عاقبت کا ضامن بن
سکتاہے ۔
پانچویں بات یہ کہ اعمال صالحہ کے التزام اور اخلاق رذیلہ سے بچنے کا
اہتمام کریں ؛کیوں کہ علم (دانستن) فی نفسہ کوئی خوبی کی بات نہیں ہے
،مستشرقین بعض دفعہ تحقیق وتدقیق میں مسلمان اہل علم سے بھی آگے نکل جاتے
ہیں مگر یہ علم ان کو فائد ہ نہیں دیگا ۔
پستی سے سربلند ہو اور سرکشی سے پست اس راہ کے عجیب نشیب وفراز ہیں
چھٹی بات یہ کہ معاملات میں خود بھی کوتاہی نہ کریں اور دوسروں سے بھی
ناجائز رعایت نہ برتیں کہ معاملات میں ہی انسان کی اصلیت کا پتہ چلتا ہے
اور اسمیں بڑے بڑے زہاد وعباد بسا اوقات پھسل جاتے ہیں ،سورہ مطففین کی
ابتدائی آیات کا کم از کم لغوی ترجمہ مد نظر رکھیں ،جن میں آپ کو مادی
ومعنوی ہر طرح کے لین دین کا ایک ضابطہ کلیہ بتایا گیا ہے۔
ساتویں بات یہ کہ ملک، اسلام کے اور امت مسلمہ بلکہ خلق خدا کے اجتماعی
مفاد کو نقصان پہنچانے والا کوئی کام ہر گزنہ کریں ،یعنی خیر کی چابی اور
شر کا تالا بننے کی ہمہ وقت کوشش کیا کریں۔
آٹھویں بات یہ کہ کسی اﷲ والے سے رابطہ رکھیں، ان سے اصلاحی تعلق جوڑیں
ورنہ اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ کے آرزو ہی آرزو میں زندگی گذرجائیگی ۔
نویں بات یہ کہ دین کا صحیح فہم پیدا کرنے کیلئے ہمیشہ فکر مند اور مصروف
عمل رہیں، اور اس سے کبھی مستغنی نہ ہوں، طفلانہ تصورات اور روایات ہی سے
چمٹے رہنے سے ایک عالم کی شان بہت بلند اور ما وراء ہے، تا ہم شتر بے مہار
کی طرح اصول دین اور مسلمات میں عقل کے گھوڑے نہ دوڑائیں، بلکہ تحقیق طلب
امور کو پہچانیں ،اور صحیح مصرف میں اپنی ذہنی اور عقلی صلاحیتیں استعمال
میں لائیں، تحقیق وتدبر کیلئے میدان کے انتخاب میں بڑوں بڑوں نے ٹھوکریں
کھائی ہیں اور یہی سے ان کی بے راہ روی کا آغاز ہوا ہے ،قرآن کریم کی
تعلیمات کو سمجھنے کے لیے مطالعہ قرآن اور درس قرآن کا اہتمام کریں ،عربی
زبان وادب کی تحصیل میں کسی قسم کی کوتاہی نہ برتیں ،تاکہ کلام اﷲ اور سنت
رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے الفاظ میں پنہاں معانی ومطالب کے جواہر ویواقیت
کا استخراج واستنباط آپ کے لیے ممکن ہو۔
تیرے ضمیر پر جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کُشا ہے رازی ،نہ صاحبِ کشّاف
دسویں بات یہ کہ خود اعتمادی، استقامت اور پختگی سے اپنے مشن پر کار بند
رہیں کہ حیات جاودانی مردان باہمت ہی کے قدم چومتی ہے ۔ |
|