اسد محمد
چند روز پہلے کی ہی بات ہے کہ میں راستے میں ٹریفک میں پھنسا ہو اتھا ۔ پاس
کھڑی گاڑی پر میر ی نظر پڑی تو اس گاڑی میں شہر کے معروف اسکول کے یونیفارم
پہنے بچے ہاتھوں میں آئی فون اور ٹیبلٹ Tablet Pc)) لیئے اس سے مستفید
ہورہے تھے ۔ البتہ اس میں موجود کچھ مخصوص سرگرمی میں مشغول تھے ۔جبکہ اس
منظر کو دیکھنے کے بعد میری نظر بائیں طرف ایک سامان سے لدی سوزکی میں کچھ
بچے نظر آئے ، جو شہر کے سرکاری اسکول کے یونیفارم میں ملبوس تھے ۔ انکا
حلیہ بھی تقریباََ ہماری سرکار جیسا تھا اور البتہ مجھے ایسا لگا کہ وہ
واقعی ہماری سرکار کو پیش کررہے ہوں۔ انکے ہاتھوں میں بھی امریکی وغیر ملکی
امداد جیسی چیزیں تھیں جس پر وہ آپس میں لڑتے ہوئے اس کھیل کو انجوائے بھی
کررہے تھے اوراس میں ہی مصروف تھے ۔ اسی اثناء میں ٹریفک کلیئر ہوا اور
افراتفری کے اس ماحول میں وہ دونوں بچے بھی آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔ مگر
میرے ذہن پر ایک نقش چھوڑ گئے۔ مصروفیات میں مشغول ہوگیا مگر یہ بات میرے
ذہن میں گونجتی رہی ،گویا کہ جیسے اقبال نے کہا تھا۔(بانگ درا)
تغیر آگیا ایسا تدبر میں تخیل میں
نہیں سمجھی گئی گلشن میں غنچوں کی جگر چاکی
ہم روز اسی معاشرے میں اپنے روز وشب گزار رہے ہوتے ہیں مگر اسی طرح کے
واقعات ہمارے سامنے سے روز گزر جاتے ہیں اور اسی طرح کے واقعات عموماََ
ہماری Perception)) میں چھوٹے دکھائی دیتے ہیں مگر یہی واقعات آگے بڑھ کر
بڑے واقعات میں تبدیل ہوکر معاشرتی بگاڑ اور معاشرتی برائیوں کا سبب بن کر
سماجی ضبط کو خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں اور ہم اصل حقائق کی طرف جانے کے
بجائے غربت، یا غربت کو طعنے دے کر اور انہیں بربھلا کہہ کر اپنی بھڑاس
نکال دیتے ہیں ۔ جبکہ اگر اصل حقائق کی طرف جائیں تو ہم نے ہی اس غربت اور
غریب کے بچے کو نظر انداز کرکے اپنی ذاتی زندگیوں میں ایسا مصروف ہوتے ہیں
کہ ہماری دنیا ہی ہمارے بچے ہماری اپنی مصروفیات کے گر د ہوکر محدود رہ
جاتی ہے ۔ اور بعد میں ہمارا گویا جواز یہ ہوتا ہے کہ ہمارے پاس وقت ہی
نہیں تھا ۔ یہ کبھی کھبار ہم اتنے بے بس ہوجاتے ہیں کہ ہمیں اسکی گویا کوئی
پرواہ ہی نہیں ہوتی ۔دوسری طرف معاشرے میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہے جو کہ
جیسے اگر غریبوں کے لیے کپڑوں کی خریداری کا وقت آتاہے ۔ تو ہم سب سے نچلے
دکان سے نچلی کوالٹی کا کپڑا خرید نے پر اتفا رکرتے ہیں۔ اور اپنے بچوں
کیلئے کپڑوں کے برانڈڈ کوالٹی سے کم جانے پر اپنی بے عزتی محسوس کرتے ہیں
جبکہ ہمارا مذہب اسلام جو کہ فطرت کا مذہب ماننا جاتا ہے اس نے یہ حکم دیا
ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرووہی اپنے مسلمان بھائی کے لیے پسند کرو ۔المیہ
یہ ہے کہ اسلام کا نام آتے ہی ہمارے ذہنوں میں (Miss Conception)پیدا
ہوجاتا ہے ہم اسلام کے وہ تمام عقائد اوربنیا د وں کو جو ثانوی ہیں اس کو
اہم جز اور اسی کو اسلام یا مسلمان کو جانچنے کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔
بلکہ وہ تمام چیزوں کو جو پہلے ہیں اس کو پیچھے دکھیل دیتے ہیں ۔ بقول شاعر
تربیت عام تو ہے جوہر قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی ،پروہ گل ہی نہیں
اگر ہم میانہ روی اپنا کر اسکو اپنی زندگی کا اوڑھنا ،بچھونا بنالیں تو آج
کے ا س دور میں کافی خرابیا ں خود بخود قابو آجائیں گی۔ پیسو ں کے پیچھے
بھاگنے کے بجائے اگر ہم یہی پیسے کسی اچھے کاموں پر خرچ کریں تاکہ اس سے
اپنے آپ کو قلبی طور پر مطمئین تصور کرسکیں اور اس کے ذریعے اخروی زندگی
میں بھی اچھائی کی امید رہیں ۔ Chairtyکا تصور ہمارے معاشرے سے تقریباََ
ناپید ہوچکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امیر طبقہ امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا
ہے اور غریب طبقہ غریب سے غریب تر اور متوسط طبقہ ہمیشہ آگے بڑھنے اور امیر
ہونے کی خواہش میں اپنی تمام تر اخلاقی حدوں کو پار کرلینے میں کوئی برائی
نہیں سمجھتا ،جس سے معاشرے اخلاقی طور پر مزید دلدل کی طر ف دھنسا جارہا
ہوتا ہے ۔ عموماََ Chairty کا ماحول یورپ اور مغربی ممالک میں زیادہ ہے اور
وہاں کمپنی میں حکومت کی جانب سے سالانہ منافع کی کچھ فیصد رقم کو غریبوں
کی فلاح کے کاموں پر لگانے کیلئے لازمی قرار دے دیا ہے۔
پاکستان میں بھی اگر حکومتی سطح پر اس طرح کے اقدامات کیلئے جائیں اور
اسکواگر ایک منظم شکل میں ترتیب دے دیا جائے تو حکومت ملک کے کافی مسائل پر
قابو پالے گی ۔ اوراگر یہی ․․․ کام حکومتی طورپر نہ ہوجائے تو اسکو این جی
اوز کی شکل میں کیا جاسکتا ہے بشرطہ کہ وہ نیک نیتی پر کام کررہی ہو ۔ اسی
طرح سے چھوٹے چھوٹے کاموں سے آگے بہتری کیجانب پیش قدمی کی جاسکتی ہے
کیونکہ ایک چینی مقولہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے قدم منز ل کی طرف آسانی سے لے
جاسکتے ہیں۔ |