ڈیرہ غازیخان میں ایک اور پھول
مسل دیا گیا۔بچے کسی سانحے کا شکار نہ ہوں، ہمیں انہیں آسان ٹارگٹ ہونے سے
بچاناہوگا۔
معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات مہذب معاشرے کے لیے لمحہ
فکریہ ہیں ۔آئے روز معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے افسوس ناک اور
بہیمانہ واقعات کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ جس نے ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑ
کر رکھ دیا ہے، ان واقعا ت میں ایک تسلسل کے ساتھ اضافہ نے ارباب
اختیارحکومت، قانون نافذ کرنے والے ادارں، دینی و مذہبی حلقوں اور سول
سوسائٹی کو اس حقیقت کو تسیلم کرتے ہوئے اسکا ازسرنو مشاہدہ کرنے کی بھی
ضروت ہے۔ کہ آخر کیوں ہمارا معاشرہ جنونیت ،شطانیت ،تشدد، درندگی، سماجی
قدروں سے انحراف اور جنسی کج روی کی اندھیری کھائی میں گرتا چلا جا رہا ہے
معصوم پھول جیسے بچے اس جنونیت ،شطانیت ،تشدد، درندگی کا شکار بن رہے ہیں۔
اخلاقی اقدار کی زبوں حالی اور نا آسودگی کے ستائے ہوئے کج رو عناصر معاشرے
کے شفاف چہرے کو کس طرح داغدار کرتے ہیں۔ یہ سماج آج اس کی گھناﺅنے اور
دردناک واقعات بھر،ا پڑا ہے۔ بچوں وبچیوں کے ساتھ زیادتی وہراساں کرنے کے
مسلسل واقعات نے معاشرے کی اخلاقی انحطاط پذیری کی نشان دہی کردی ہے ۔ یہ
حیوانیت سے بھی گرا ہوا فعل ہے۔پاکستان میں رپورٹ کئے جانےوالے واقعات کے
مطابق ہر روز تین سے پانچ بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں اور زیادہ تر
حالات میں مجرم اپنی شناخت چھپانے کے لیے معصوم پھولوں کو قتل کر دیتے ہیں۔
غیر رپورٹ کئے جانیوالے واقعات کے اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں۔.
بچوں کا استحصال ساری دنیا میں ہوتا ہے۔ چونکہ وہ ایک آسان ٹارگٹ ہوتے ہیں
کچھ دن پہلے لاہور میں ایک سات سالہ بچے کو زیادتی کے بعد اسے پھانسی دے کر
قتل کرنے کی خبرسے ابھی تازہ تھی دل ودماغ ابھی رنجیدہ تھے اور قوم ابھی ”
سنبل ،،کے غم کو بھول نہ پائی تھی کہ ڈیرہ غازیخان سے اور المناک خبر پڑھنے
کو ملی کہ نواحی علاقہ کوٹ ہیبت میں ایک نو سالہ معصوم کو زیادتی کے بعد
قتل کرکے نزدیکی کھیتوں میں اس کی نعش کو پھینک دیا گیا۔ اس واقعہ کے مرتکب
نے اپنی وحشت اور جنونیت کی انتہاءکر دی معصوم جیسے بچہ جو کہ پھول کی
مانند تھا ۔ کے ساتھ اپنی درندگی اور سفاکیت کوظلم کی آخریسطح پر لے گیا ۔
بچے کے ساتھ زیادتی کے بعد تیز دھار آلہ سے اس کا سر تن سے جدا کرتے ہوئے
پیٹ بھی چاک کردیا۔اس ظلم سے انسانیت بھی شرما جاگئی۔ مقامی پولیس کے مطابق
ڈیرہ غازیخان کے علاقہ کوٹ ہیبت غلام یاسین کھلول کا نو سالہ محمد رمضان
بچہ نزدیکی مدرسہ میں 5 مارچ کی صبح قرآن پاک پڑھنے گیا اور واپس گھر نہ
پہنچا ۔ تو والدین کو اس پر تشویش ہوئی اور ادھر ادھر سے معلومات اکٹھی کیں
تو پتہ چلا کہ بچہ اسی علاقہ کے رہائشی طارق عرف کالو کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔
بچے اور طارق عرف کالو کی تلاش کے لیے اسی وقت والدین اور اہل علاقہ نے
بھاگ دوڑ شروع کردی۔ مگر اس کا کوئی پتہ نہ چل سکا۔دوسرے دن صبح سویرے
نزدیکی گندم کے کھیت میں کام کرنے والے کسان نے بچے رمضان کی نعش کی کھیت
میں موجود ہونے کی اطلاع دی اور یوں بچے کی نرخرے تک کٹی اور پیٹ چاک شدہ
نعش پولیس نے برآمد کرلیا۔اس کے ساتھ ہی ڈی پی او،ڈیرہ غازیخان غلام مبشر
میکن نے پولیس کی ایک ٹیم تشکیل دی جسے صرف 24 گھنٹوں کا وقت دیا گیا کہ
طارق عرف کالو کو گرفتار کرے۔ آخر کار ملزم طارق عرف کالوکو گرفتار کر لیا
گیا ۔ جس نے دوران تفتیش اپنے اس جرم کو تسلیم کیا کہ اس نے نوسالہ محمد
رمضان سے زےادتی کی اور پکڑے جانے کے ڈر سے اسے قتل کر کے نعش کو کھیتوں
میں پھینک دیا۔ کچھ ملزم نے دوران تفتیش انکشافات کئے اور کچھ اہل علاقہ نے
بتایا کہ ملزم اس قبل بھی درجن بھر کم سن بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا
چکا ہے۔ اور اس پر پہلے بھی ایک مقدمہ درج ہوا تھا کہ اس نے ایک کم عمر
لڑکی کے ساتھ زیادتی کی کوشش کے دوران میں لڑکی کو چھری کے وار سے زخمی کر
دیا تھا ۔اسی تھانہ میں اس کامقدمہ درج ہوا تھا۔ درندہ صفت طارق عرف کالو
کے بارے معلوم ہوا کہ وہ لڑکپن سے بچوں کے ساتھ زیادتی کرتا آرہا ہے۔جس کا
اعتراف اس نے اب پولیس کے سامنے بھی کیا ہے۔ وہ نو عمر بچوں کے ساتھ زیادتی
کرنے کا عادی مجرم ہے ۔ملزم کی ہسٹری سے پتہ چلا ہے کہ اس نے ا پنے سب سے
پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں کے کم عمر بچوں کو ڈرادھمکا کر چھری اور لاٹھی
دیکھا تے ہوئے زیادتی کر چکا ہے۔ رشتہ داروں نے بدنامی کے خوف سے کسی دوسرے
کے علم میں کچھ نہ لائے جس سے ملزم کے حوصلے اور بلند ہوئے اور وہ اپنی ہوس
کے خاطر معصوم بچوں کو اپنی نشانہ بناتا رہا۔
ہم ا پنے بچوں کو کیسے ایک محفوظ ماحول دے سکتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ
ہمارے بچے ایسے کسی سانحے کا شکار نہ ہوں تو ہمیں انہیں آسان ٹارگٹ ہونے سے
بچاناہوگا۔ بچے سے عام طور پر ہم زیادہ بات چیت نہیں کرتے اس سے روزانہ کی
بنیاد پر سکول یا مدرسہ میں پڑھنے اور کسی خاص بات کے ہونے یا نہ ہونے کے
بارے پوچھیں والدین انہیں کمیونیکیٹ کرنے کی عادت ڈالیں۔ ان باتوں کو نوٹ
کریں ۔والدین کو اپنے بچے کے دوستوں کے بارے بھی مکمل قسم کی معلومات رکھنی
چاہیے۔ ٹیچرز معلم سے کے ساتھ روابط کیسے جارہے ہیں۔ سکول یا مدرسہ کا عملہ
کے بارے اپنے بچے سے پوچھیں کہ وہ ان سے کس قسم کی باتیں کرتا ہے۔ اسکول
وین والا آپ کے بچے سے کیسی اور کسطرح سے گفتگو کرتا ہے۔ یہاں یہ بھی دھیان
میں رکھیں کہ کوئی بڑا شخص آپکے بچے کو غیر معمولی توجہ اور تحفے تحائف
کیوں دے رہا ہے۔ یہ سب بچے سے آسانی کے ساتھ گفتگو میں پوچھا جاسکتا ہے۔اگر
کوئی انہونی اور خلاف معمول بات یا امر کی نشاندہی ہو یا اس کا زرا ، سا
بھی اشارہ ملے تو بچے کو ٹوک کر فوری ہوشیار نہ کریں کہ آپکو آگے کی باتیں
بتانے سے وہ جھجھک جائے۔اپنے آپ پر سے اپنے بچے کے اعتماد کو کبھی متزلزل
نہیں ہونے دیں۔ اسے اس بات کا یقین ہونا چاہئیے کہ آپ اسے سب سے زیادہ
چاہتے ہیں۔ نرمی اور محبت سے بات کریں کہ بچے کو دوست ماحول ملے۔بچوں کو
کسی بڑے کے پاس اکیلا چھوڑنے سے گریز کریں۔ اگر ایسا کرنا بہت ضروری ہو تو
صورت حال اس طرح رکھیں کہ وہ جگہ کھلی ہو جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ انہیں
دیکھ سکتے ہوں۔اگر بچہ کسی بڑے شخص کے پاس چاہے وہ آپکا قریبی دوست ہو ،
رشتے دار یا اسکا بڑا کزن، جانے سے گھبراتا ہے تو اس پر دباﺅ نہ ڈالیں کہ
وہ ضرور ان کے پاس جائے۔اگر بچہ کسی شخص کے پاس اکیلا نہیں رہنا چاہتا تو
اسے مجبور نہ کریں کہ وہ اسکے ساتھ ضرور رہے۔یاد رہے کہ اس قسم کے معاملات
میں بچے جھوٹ نہیں بولتے اگر وہ کسی شخص کی چاہے وہ آپکو کتنا ہی عزیز ہو
کو بارے کوئی بات بتانا چاہتا ہے تو اس کی بات کو ضرور سنیں اور اس کی بات
پر یقین کریں اس پر دھیان دیں۔اکثر والدین بازار جاتے ہوئے یا باہر نکلتے
ہوئے اپنے بچوں کو رشتے داروں کے یہاں یا محلے پڑوس میں چھوڑ جاتے ہیں۔
کوشش کریں کہ چھوٹے بچوں کو اپنے ساتھ رکھیں، یہ اگر ممکن نہ ہو تو واپس
آکر اپنے بچے سے تفصیلی پوچھیں کہ اس نے یہ وقت وہاں کیسے گذارا۔اس بات پر
بھی نظر رکھیں کہ آپکا بچہ کن لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا زیادہ پسند کرتا ہے
اور کیوں۔
جو بچے انٹر نیٹ یا موبائل کا استعمال کرتے ہیں ان کی کڑی نگرانی کی ضرورت
ہے۔ انہیں اچھی طرح سمجھا دیں کہ اپنا ذاتی یا گھر کا فون نمبر کبھی نیٹ پر
استعمال نہ کریں، اپنے اسکول اور کلاس کے بارے میں معلومات اجنبی لوگوں کو
نہ دیں۔ اجنبی شخص اگر انہیں کوکسی ویب سائٹ دیکھنے کی آفر کرتا ہے یا
موبائل فون پر بات کرنے کو کہتا ہے۔ توپہلے آپ سے ڈسکس کریں ۔ اپنے گھر میں
کمپیو ٹر اور ٹی وی ایسی جگہ پر رکھیں کہ اس کی اسکرین آپ کو چلتے پھرتے
نظر آتی رہے۔ انہیں کبھی بھی بچوں کے کمروں میں نہ رکھیں۔ اور نہ ہی کسی
الگ تھلگ جگہ پر۔ اگر بچے میں اس قسم کی علامات پائی جائیں تو ان پرتوجہ د
یں بلا وجہ ان کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوں یا ان پر مخصوص داغ، جسم پر نیل یا
کھرونچوں کے نشانات جن کی وجہ بچہ آپکو نہ بتا پائے۔ انکے اعضائے مخصوصہ کے
پاس سرخی، سوجن، بار بار ہونے والے پیشاب کی نالی کے انفیکشن، پیٹ درد اور
مستقل پریشان رہنا۔ یہ ضروری نہیں کہا کہ ان میں سے ہر علامت اسی طرف جاتی
ہو۔ مگر بچوں کی ان علامتوں کی سنجیدگی سے وجہ معلوم کریں۔یہ بھی یاد رکھیں
کہ اکثر صورتوں میںبچے کو واضح علامت نہیں ہوتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ
بچوں کو انکے جسم کے متعلق ابتداءمعلومات اس طرح دینی چاہئیے کہ انہیں یہ
اندازہ ہو جائے کہ انکے جسم کے کس حصے کو لوگ چھو سکتے ہیں اور کس حصے کو
نہیں۔ یعنی ان میں ستر کا احساس نہ صرف پیدا کریں۔ بچے ہمارا مستقبل ہیں
یقیناً ہم میں سے کوئی نہیں چاہے گا ان نازک پھولوں کو کوءاپنے سخت ہاتھوں
اور حیوانیت سے مسل دے۔ انکی مناسب دیکھ بھال اور کسی بھی ممکنہ خطرے سے
بچانا ہم سب کا فرض ہے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو اس سلسلے
میں ہوشیار کرنے کے لئے میڈیا کی مدد لے- |