افغان کرکٹ ٹیم کی فتح میں پاکستانی کرکٹرز کیلئے پیغام
(Syed Yousuf Ali, karachi)
کرکٹ ورلڈ کپ میں گزشتہ
دنوں اسکاٹ لینڈ کے خلاف افغانستان کی سنسنی خیز مقابلے کے بعدکامیابی نے
پاکستانی کرکٹرز کے لئے ایک روشن مثال قائم کر دی ہے ۔ افغان کرکٹرز نے بے
سروسامانی کے باوجود جس طرح آخری اوور تک میچ جیتنے کی سرتوڑ کوشش سے
کامیابی حاصل کی اس نے بڑے بڑے کرکٹ مبصرین کو بھی نومولود مگر جواں عزم
ٹیم کی تعریف کرنے پر مجبور کر دیا۔افغان ٹیم کی پرفارمنس میں عزم و حوصلے،
ٹیم ورک اور فائٹنگ اسپرٹ کے حوالے سے ہماری قومی ٹیم کے لئے ایک سبق موجود
ہے۔پاکستانی کھلاڑی اپنے افغان ہم منصبوں سے یہ سیکھ سکتے ہیں کہ دبائو میں
اپنے حواس کوقابومیں رکھ کر کس طرح آخری گیند تک جیت کے لئے مقابلہ کیا جا
سکتا ہے۔بلا شبہ ہماری قومی ٹیم میں ایسے متعدد ورلڈ کلاس کھلاڑی موجود ہیں
جن پر دنیاکی دوسری مضبوط ترین ٹیمیں رشک کرتی ہیں ۔ تا ہم یہ بدقسمتی ہے
کہ اوور کانفیڈنس اور ٹیم ورک کی بجائے ذاتی پرفارمنس کی کوششوں نے ٹیم کو
بعض ایسی شرم ناک شکستوں سے دوچار کر دیا جس کے باعث شائقین کونہ صرف
انتہائی مایوسی ہوئی بلکہ بہت سے حلقوں کی جانب سے کرکٹ بورڈ کو ختم کرکے
اس کھیل پر پابندی لگانے کے مطالبات بھی سامنے آ رہے ہیں۔
بھارت اور ویسٹ انڈیز کے خلاف ہماری قومی ٹیم کی غیر ذمہ دارانہ پرفارمنس
کے برعکس افغان کھلاڑیوں نے '' ہمت مرداں مدد خدا'' کے مقولے کو عملی تعبیر
دیتے ہوئے ایک ایسے مرحلے پر پہنچنے کے باوجود اپنے ملک کا پرچم بلند کیا
جب بڑے بڑے کرکٹ پنڈت اسکاٹ لینڈ کی کامیابی کا یقین کر چکے تھے۔در حقیقت
افغان کھلاڑیوں نے کرکٹ ورلڈ کپ کے پہلے ہی مقابلے میں ہارے ہوئے میچ کو
جیت کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ہماری قومی ٹیم کے برعکس جسے متعدد کوچز
اور ایڈوائزرز کے قیمتی مشوروں، معروف فزیوتھراپسٹس اور ڈاکٹروں،پریکٹس کے
لئے اعلی درجے کے گرائونڈز کے علاوہ بھاری معاوضوں اور مشاہروں کی سہولت
حاصل ہے ،افغان ٹیم کو اپنے جنگ زدہ ملک میں میچ کھیلنے کے لئے معیاری
گرائونڈز بھی دستیاب نہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا ہو گا کہ
جنگوں اور وار لارڈز کی آپس کی چپقلش سے متاثرہ افغانستان میں کرکٹ کی
تاریخ کا آغاز صرف15سال قبل ہوا جبکہ2001میں ورلڈ ٹریڈ ٹاور پر حملے کے بعد
امریکہ نے اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔موجودہ کھلاڑیوں نے ایسے حالات
میںکرکٹ کا آغاز کیاجس کی دنیا میں کہیں بھی مثال نہیں ملتی۔ ٹیم کے بیشتر
کھلاڑی پاکستان میں پناہ گزین کیمپوں میں اس وقت پروان چڑھے جب 70کی دہائی
میں افغانستان پر روسی فوجوں کی چڑھائی کے باعث ان کی فیملیز بے گھر ہونے
کے بعد سرحد پار کر کے پناہ لینے پر مجبور ہوئیں۔
پہلی بار اس میگا ایونٹ میں شریک افغان کرکٹ ٹیم کی اس حیران کن کامیابی نے
ایک بار پھرورلڈ کپ کے آغاز سے قبل کی جانے والی ایک پیش گوئی میں جان ڈال
دی ہے ۔ بلا شبہ بھارت، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ جیسی مستند ٹیموں کی
موجودگی میں افغانستان ٹیم کو مستقبل کا ورلڈ چمپیئن قرار دینا دیوانے کی
بڑ معلوم ہوتی ہے تاہم نیوزی لینڈ کے ایک روبوٹ کی اس پیش گوئی پر جو
مبصرین پہلے مضحکہ خیز انداز میں مسکرا رہے تھے وہ اب کچھ سوچنے پر مجبور
ہو گئے ہیں۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ کرکٹ ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل افغان ٹیم
کی جیت کی پیشگوئی یونیورسٹی آف کینٹر بری کے روبوٹ نے کی تھی ۔ ایک تحقیقی
پروگرام کے تحت روبوٹ کے سامنے چودہ ٹیموں کے جھنڈے رکھے گئے جس نے
افغانستان کی عالمی ٹائٹل جیتنے کی پیش گوئی کی تھی ۔
افغانستان اور اسکاٹ لینڈ کے درمیان کھیلے گئے میچ کی سنسنی خیزی اور افغان
کھلاڑیوں میں جیت کے جذبے سے دنیا بھر کے کرکٹ شائقین کس قدر متاثر تھے اس
کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ عین اس وقت جب اس میچ کے دو
اوور باقی تھے تو اسی دوران ملبورن کرکٹ گرائونڈ پر سری لنکا بنگلہ دیش کے
خلاف تیزی سے رنز بنا رہا تھا اور مقبول سری لنکن کھلاڑی تلکا رتنے اپنی
سنچری کے قریب تھے مگر عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق کرکٹ شائقین
نے اپنے ٹی ویز کو افغانستان کی بیٹنگ دیکھنے کے لئے دوسرے چینل پر تبدیل
کر لیا تھا۔افغانستان کی فتح کے ساتھ ہی دنیا بھر سے مبارک باد کے پیغامات
پر مبنی ٹیوٹس اور دیگر سوشل میڈیا پر پیغامات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو
گیا جس کا اختتام خاصی دیر سے ہوا۔ دنیائے کرکٹ کے موجودہ اور سابق
اسٹارز،کرکٹ بورڈ کے حکام اور سیاست دان بھی مبارک باد دینے والوں میں شامل
تھے۔
افغان کرکٹ ٹیم کے کپتان محمد نبی نے ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل رپورٹرز سے
گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ان کے ملک میں لوگوں کو کرکٹ ٹیم کی جانب سے
کسی خوش خبری ملنے کاشدت سے انتظار ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب اکتوبر
2013میںقومی ٹیم نے ورلڈ کپ کھیلنے کے لئے کوالیفائی کیا تو کئی دن تک جشن
جاری رہا۔سب سے بڑا جشن کابل ایئر پورٹ پر منایا گیا جہاں ہزاروں افراد جمع
تھے جبکہ ارکان پارلیمنٹ اور وزراء نے بھی وہاں آکر نیک خواہشات کا اظہار
کیا۔محمد نبی نے افغان ٹیم کی کسی بھی کامیابی پر عوامی ردعمل کا تذکرہ
کرتے ہوئے بتایا کہ ایشیاء کپ کے پول اے کے ایک میچ میں افغان ٹیم کی بنگلہ
دیش کے خلاف 32رنز سے کامیابی پر ملک بھر میں جوش و خروش کی ایک لہر دوڑگئی
تھی۔ یہ کسی ٹیسٹ کھیلنے والے ملک کے خلاف افغان ٹیم کی پہلی کامیابی
تھی۔اسکاٹ لینڈ سے میچ جیتنے کے فوری بعد لوگوں کا ایک بڑا جلوس کابل میں
کرکٹ بورڈ کے ہیڈ کوارٹر پر جمع ہو گیا اور اپنی خوشی کا اظہار کیا جبکہ
ملک کے دیگر صوبوں میں ان مناظر کی آن لائن تصاویر جاری کی گئیں۔ ڈیونیڈن
یونیورسٹی ، اوول پر ہی نہیں بلکہ افغان شہریوں اور ان کے حامیوں کو کابل
اور جلال آباد کی سڑکوں اور پکتیا و قندہار کے صوبوں میں بھی خوشی سے
روائتی رقص کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ افغانستان کے لئے یہ صورت حال کرکٹ سے بھی
بڑھ کر جوش و خروش کاباعث بن رہی ہے۔ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں
مقیم افغانیوں کے لئے ان کی ٹیم جوش وخروش کا ایک ذریعہ بن گئی ہے حالانکہ
اسکاٹ لینڈ کے خلاف فتح سے قبل عالمی سطح پر افغان ٹیم کی کامیابی کا تصور
مشکل تھا۔سمیع اللہ شنواری کاکہنا ہے کہ اس میچ کی کامیابی کے بعد کرکٹ جس
برق رفتاری کے ساتھ ملک کے دور دراز علاقوں میں بھی تیزی سے مقبول ہوئی ہے
وہ حیران کن ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 8سے10سال قبل افغانستان میں کرکٹ کا عملی
طور پر کوئی وجود نہیں تھا مگر اب سڑکوں ، پارکوں، اسکولوں غرض جہاں جائیں
کرکٹ نظر آ رہی ہے۔
سمیع اللہ شنواری نے افغانستان کی فتح میں ایسے وقت 96 رنز کی شاندار اننگز
کھیل کر اہم کردار ادا کیا جب سات کھلاڑی 97 کے مجموعی سکور پر آئوٹ ہو چکے
تھے ۔میچ اس وقت سنسنی خیز صورتحال اختیار کر گیا جب آخری اوور میں چار
گیندوں پر افغانستان کو چار رنز درکار تھے اور اس کی صرف ایک ہی وکٹ باقی
تھی کہ شاہ پور زدران نے چوکا لگا کر اپنی ٹیم کو ورلڈ کپ میں پہلی فتح دلا
دی۔افغانستان کی اس میچ میں فتح کے ساتھ ہی کابل سمیت ملک کے مختلف شہروں
میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اورفتح کا جشن منایا۔لوگ قومی پرچم اٹھائے قومی
ٹیم بالخصوص سمیع اللہ شنواری اور محمد نبی کے حق میں نعرے بازی کرتے
رہے۔افعان صد ر نے اپنے ٹیوٹر پیغام میں ٹیم کو اس کامیابی پر زبردست مبارک
باد دی۔ اس فتح کے بعد افغانستان ٹیم کے کوچ اینڈی مولز کا کہنا تھا مجھے
اپنی ٹیم کی اس کامیابی پر فخر ہے۔ افغان ٹیم کی اس کامیابی پر صرف
افغانستان میں ہی جشن نہیں منایا گیا بلکہ دنیا بھر میں جہاں جہاں افغان
شہری موجود ہیں وہاں اس جیت نے گزشتہ 35برسوں سے کسی نہ کسی جنگ کا حصہ بنے
رہنے والے ملک کے شہریوں کے چہروں پرخود بہ خود ایک مسکراہٹ بکھیر دی ہے۔
افغانستان کی حالیہ کامیابیوںکاکریڈٹ اس کے برطانوی نژاد کوچ اینڈی مولزکو
نہ دینا زیادتی ہوگی جنہوںنے کبیر خان کی جگہ گزشتہ سال ہی نئی ذمہ داریاں
سنبھالی ہیں۔ مولزکا کہنا تھا کہ ایسے وقت جب اسکواڈ کی کرکٹ میں بڑی ٹیموں
کے خلاف کامیابی میں کچھ وقت درکار ہے تو بھی افغان کھلاڑیوں کوامید ہے کہ
وہ غیر متوقع طور پر اچھی پرفارمنس دے سکتے ہیں۔ سابق کائونٹی کرکٹر نے کہا
مجھے اپنا عہدہ سنبھالنے سے قبل جس چیز نے متاثر کیا وہ افغان کھلاڑیوں میں
جیت کے لئے جوش و خروش اور بڑی ٹیموں کے خلاف جیتنے کی خواہش تھی۔ میں نے
دیکھا کہ نتائج سے ہٹ کر وہ کسی بھی ٹیم کے خلاف میدان میں اترتے وقت جیت
کے لئے پر عزم ہوتے ہیں۔مولز نے ایک برطانوی روزنامہ سے گفتگو کرتے ہوئے
کہا کہ افغانستان کے اندرونی حالات کو دیکھتے ہوئے کوچ کی ذمہ داریاں
سنبھالنا ایک چیلنج تھا مگر کھلاڑیوں کے انتہائی پر جوش ہونے اور ورلڈ کپ
کی آمد کے باعث میں نے یہ پیشکش قبول کر لی۔
54سالہ مولز قبل ازیں نیوزی لینڈ، کینیا اور اسکاٹ لینڈ کی ٹیم کے کوچ بھی
رہ چکے ہیں۔تاہم دنیا کے ایک انتہائی خطرناک ترین ملک میں رہ کر کوچنگ کرنا
ایک مختلف تجربہ تھا۔بی بی سی اسپورٹس کو دیئے گئے انٹرویو میں اینڈی مولز
نے بتایا کہ اصل میں انہوں نے بیٹنگ کوچ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کا
معاہدہ کیا تھا۔میں تین ہفتوں کیلئے کابل گیا اور ایک ایڈوائزر کی حیثیت سے
کام کیا۔ہیڈ کوچ کبیر خان ان سے کہا کہ وہ اب کچھ وقت فیملی کے ہمراہ
گزارنا چاہتے ہیں اس لئے مجھے مکمل ذمہ داریاں سنبھال لینی
چاہئیں۔مولزکاکہنا تھا کہ ایک ایسے ملک میں رہ کر کام کرنا بہت بڑا فیصلہ
تھا جس کے لئے برطانوی دفتر خارجہ بھی اپنے شہریوںکو انتہائی ضرورت کے بغیر
وہاںکاسفر نہ کرنے کی ایڈوائس جاری کرتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ہر ٹور سے
قبل وہ 10دن سے دو ہفتوں تک کے لئے کابل جاتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ میں
زیادہ وقت باہر گزارنے کی بجائے ہوٹل میں رہتاتھا۔ صرف کوچنگ کے وقت
انتہائی سیکورٹی میں گرائونڈ جاتا اور جلد از جلد ہوٹل واپس آجاتا تھا ۔ ہو
ٹل پہنچ کر اپنے دروازے بند کر دیتا اور روم سروس شام کے اوقات میں لیتا۔ان
کاکہنا تھا کہ اس صورت حال کے باوجود افغان کرکٹ ٹیم جدید دور میں عظیم
ترین کامیابیوں میں سے ایک اسٹوری ہے۔انہوں نے کہا کہ ورلڈ کپ میں شرکت کے
ذریعے افغان کھلاڑیوں کو کرکٹ کے دائو پیچ سیکھنے کا ایک زبردست موقع فراہم
ہوا ہے تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم مسابقت کے لئے یہاں آئے
ہیں۔مولز کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے لڑکوں نے اپنی صلاحیتوں کے مطابق پرفار
منس دی تو وہ دنیا کی کسی بھی ٹیم کے لئے ایک چیلنج بن سکتے ہیں۔
یہ آرٹیکل 2مارچ 2015کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا |
|