ورلڈ کپ2015کا فاتح کون ؟

 آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ورلڈ کپ2015 کے سلسلے میں میچز کھیلے جارہے ہیں تاہم اس وقت نہ صرف کرکٹ کے عالمی حلقوں بلکہ سٹے بازی کے انٹرنیشنل نیٹ ورک میں بھی جو واحد سوال زیر گردش ہے وہ یہ کہ اس میگا ایونٹ کا فاتح کو ن ہو گا۔ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے راقم کی تمام تر ہمدردیاں اور خواہشات قومی ٹیم کے ساتھ ہیں تاہم یہ کالم تحریر کرنے کا مقصد کرکٹ لیجنڈ ریز اور ماہرین کی رائے کو پیش نظر رکھتے ہوئے ممکنہ فتح گر ٹیم کے بارے میں جاننا ہے۔ بلا شبہ قومی اسکواڈ اکو انتہائی متوازن بنانے کی بھر پور کوشش کی گئی ہے اور ہمارے کھلاڑی جواں عزم اور کپ جیتنے کے جذبے سے سرشار ہیں تاہم کچھ ایسے ہی احساسات ٹورنامنٹ کھیلنے والی دیگر ٹیموں میں بھی پائے جاتے ہیں۔بھارتی ٹیم کاسابق چمپئن ہونے کے باعث جبکہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کا میزبان ہونے کے نتیجے میں مورال بلند ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان کر کٹ بورڈ نے اس ٹورنامنٹ میں قومی ٹیم کو جو کٹ پہنائی ہے اس میں سفید، سرخ، نیلے اور سبز رنگ کی پٹیاں لگائی گئی ہیں جو کہ 1992کے ورلڈ کپ میں پہنی جانے والی کٹ سے عین مثابہہ ہیں تاکہ کھلاڑیوں میں جیت کے جذبے کو دوبارہ موجزن کیا جائے۔ دوسری جانب کچھ دیگر عوامل بھی عمران خان کی زیر قیادت جیتے جانے والے ورلڈ کپ سے مماثل ہیں۔موجودہ ورلڈ کپ کی میزبانی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ مشترکہ طور پر کر رہے ہیں جبکہ 1992میں بھی آئی سی سی نے اس میگا ایونٹ کی میزبانی انہی دونوں ممالک کو عطاکی تھی۔28مئی1974کو پیدا ہونے والے قومی ٹیم کے کپتان اس وقت 40سال کی عمر میں اپنی ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں جبکہ 25نومبر 1952 کو پیدا ہونے والے عمران کی عمر25مارچ1992کو میلبورن کرکٹ گرائونڈ پر کھیلے گئے ورلڈ کپ فائنل کے موقع پر پورے40سال تھی۔دوسری حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دونوں کپتانوں کا تعلق ایک ہی شہر میانوالی سے ہے۔

مصباح الحق نے ورلڈ کپ سے قبل نیوزی لینڈ پریذیڈنٹ الیون کیخلاف ٹور میچ میں سنچری داغ کر نہ صرف اپنی فٹنس ثابت کردی ہے بلکہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اب بھی ایک میچ ونرکھلاڑی اور کامیاب کپتان ہیں۔ اپنی سست رفتار بیٹنگ پر '' مسٹر ٹک ٹک '' کے ریمارکس کے ساتھ تنقیدوں کو وہ پہلے ہی آسٹریلیا کے خلاف21گیندوں پر دنیا کی تیز رفتار نصف سنچری کا ریکارڈ قائم اور56گیندوں پر تیز رفتار سنچری کا ریکارڈ برابر کرکے غلط ثابت کر چکے ہیں۔ مصباح کا کہنا ہے کہ ورلڈ کپ کیلئے بھرپور تیاری کی ہے، نتیجے سے بے فکر اچھی کرکٹ کھیلنا چاہتے ہیں۔ اوپنر احمد شہزاد بھی دعویٰ کرچکے ہیں کہ قومی ٹیم عالمی کپ میں حیران کن نتائج دے گی۔ گو کہ ایڈیلیڈ میں پریکٹس سیشن کے دوران احسان عادل کا بائونسرلگنے سے ان کی ٹھوڑی پر چوٹ آئی تھی اور انہیں اسپتال لے جایا گیاجس کے نتیجے میں ان کے ان فٹ ہو جانے کے خدشات ظاہر کئے گئے تھے تاہم خوش قسمتی سے وہ فٹ ہوگئے ہیں۔مقبول ترین کھلاڑی شاہد آفریدی بھی کچھ کر دکھانے کے جذبات کا اظہار کرتے رہے ہیں ۔ تاہم جیت کے لئے ٹیم کو حقیقی پرفارمنس پیش کر کے خود کو منواناہو گا۔ اس وقت نہ صرف ماہرین بلکہ شائقین بھی ٹیم کی فتح کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں کیونکہ سال گزشتہ قومی ٹیم کسی بھی ملک کے خلاف قابل ذکر کارکردگی پیش کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی۔

پاکستان کرکٹ ٹیم نے گزشتہ سال مجموعی طور پر تین سیریز کھیلیں لیکن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایشیا کپ کے فائنل میں سری لنکا کے ہاتھوں شکست کے بعد ٹیم کی پرفارمنس ایسی گری کہ سنبھل ہی نہ سکی، مارچ میں پاکستان نے3 میچز کی سیریز کے لئے سری لنکا کا دورہ کیا، مصباح الحق کی قیادت میں ٹیم خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکی اور 2-1 سے سیریز ہار گئی۔ اکتوبر میں قومی ٹیم متحدہ عرب امارات میں آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں3-0سے ناکام ہوئی۔ نیوزی لینڈ کے خلاف بھی ٹیم کوئی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی اور 5 میچز کی ون ڈے سیریز کیویز نے3-2سے جیت لی۔ پاکستان نے2014میں ٹوٹل16 ایک روزہ میچز کھیلے جس میں سے 6جیتے اور10 میں شکست ہوئی۔ان شکستوں کے باوجود عالمی سطح پر ہماری ٹیم کو خطرناک تصور کیا جاتا ہے جو کسی بھی وقت کھیل کا پانسہ پلٹ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ سابق آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ ہماری قومی ٹیم کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم دنیا کی واحد ٹیم ہے جس کے خلاف کوئی بھی کپتان پہلے سے کوئی پالیسی نہیں بنا سکتا کیونکہ یہ ٹیم کسی بھی وقت ہارا ہوا میچ بھی جیت سکتی ہے۔ دوسری جانب انہوں نے یہ دلچسپ ریمارکس بھی دیئے کہ ہم پاکستان کے خلاف ایسے میچ بھی جیت چکے ہیں جن کے ہارنے کا ہم یقین کر چکے تھے۔

سابق قومی کپتان اور عالمی شہرت یافتہ سابق بالر وسیم اکرم نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اے بی ڈی ولئیرز، گلین میکس ویل اور ڈیوڈ وارنر ورلڈ کپ 2015 میں چھائے رہیں گے۔انہوں نے اس یقین کا اظہار بھی کیا کہ میکس ویل، وارنر اور ڈی ولئیرز اگلے چھ ہفتوں تک جاری رہنے والے ورلڈ کپ میں روشن ستاروں کی مانند جگمگائیں گے ۔لیجنڈری بالر کا کہنا تھا کہ تینوںکھلاڑیوں کے پاس چند لمحوں میں کھیل اپنے حق میں کرنے کی بھرپور صلاحیت ہے اور شائقین ان کو بیٹنگ کرتا دیکھ کر بے حد لطف اندوزہوں گے۔وسیم اکرم کے مطابق آسٹریلیا، نیوز ی لینڈ اور جنوبی افریقہ کے کھلاڑیوں کی موجودہ فارم کو دیکھتے ہوئے ان کو ہرانا بہت مشکل ہو گا۔بعض کرکٹ مبصرین نے آسٹریلیا کو نیا ورلڈ کپ چمپیئن قرار دیا ہے جبکہ ہندوستان ٹائمز کے مطابق لیجنڈری کرکٹرز سنیل گوسکر اور آئن چیپل نے ورلڈ کپ میچز کے دوران پاکستان سے ہونے والے مقابلوں میں بھارت کو فیورٹ قرار دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آسٹریلوی کنڈیشنز میں ماضی کی کارکردگی اور موجودہ فارم کو پیش نظر رکھتے ہوئے بھارت ان کی فیورٹ ٹیم ہے۔ان کی دلیل تھی کہ بھارت نے ,1992 1996،,1999 2003 اور2011میں ہونے والے ورلڈ کپ مقابلوں میں پاکستان کے خلاف اپنے تمام میچز میں کامیابی حاصل کی ہے۔

برطانوی روزنامہ ڈیلی میل نے آسٹریلیا کو فیورٹ جبکہ نیوزی لینڈ کو متوقع فاتح کی فہرست میں دوسری پوزیشن دی ہے۔ اخبار کے مطابق تیسری مضبوط ترین ٹیم جنوبی افریقہ ہے ۔ اخبار نے آسٹریلوی فاسٹ بالر مچل جانسن،دنیا کے نمبر ون جنوبی افریقن بیٹسمین اے بی ڈی ویلئیر اور بھارتی بیٹسمین ویرات کوہلی کو کایا پلٹ کھلاڑی قرار دیا۔ مزید براں انڈیا ٹوڈے نے اپنے ایک تفضیلی جائزے میں کہا ہے کہ بھارتی ٹیم میں ایسے پانچ کھلاڑی موجود ہیں جو دنیا کی کسی بھی ٹیم کے خلاف مقابلہ جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ہیں۔ ان میں وکٹ کیپر بیٹسمین مہندرا سنگھ دھونی سرفہرست ہیں ۔ ٹیم کی قیادت کرنے والے دھونی نے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی تمام تر توجہ محدود اوورز کے میچز پر مرکوز کر رکھی ہے۔ ایک روزہ میچز میں ان کی پرفارمنس شاندار رہی ہے۔انہوں نے 252میچز میں 52.51کی اوسط سے مجموعی طور پر8245رنز اسکور کئے ہیں جس میں9سنچریاں اور 56نصف سنچریاں شامل ہیں۔

روزنامہ کے مطابق ورلڈ کپ میں تمام شائقین و ماہرین کی نظروں کا مرکز ویرات کوہلی ہوں گے۔148ایک روزہ میچز میں کوہلی نے 51.84 کی اوسط سے6,000 رنز بنائے ہیں جن میں 21سنچریاں شامل ہیں۔اجنکیا رہانے تیسرے میچ ونر کھلاڑی قرار دیئے گئے ہیں۔26 سالہ رہانے نے اس سال کے اوائل میں دورہ انگلینڈ میں اپنی پہلی سنچری بھی بنائی تھی۔ رہانے اب تک 42 ایک روزہ میچز میں 2 سنچریوں اور 7نصف سنچریوں کی مدد سے 1200 سے زائد رنز بناچکے ہیں۔آل رائونڈر رویندر جڈیجہ کو روزنامہ نے چوتھا میچ ونر کھلاڑی قرار دیا ہے۔ 109ایک روزہ میچز میں انہوں نے 10 نصف سنچریوں کی مدد سے 16 سو رنز بنائے ہیں جبکہ اپنی قابل ذکر بالنگ کے ذریعے134 وکٹیں حاصل کی ہیں ۔اس فہرست کے پانچویں کھلاڑی سریش رائنانے 203 ایک روزہ میچز میں 4 سنچریوں اور 32 نصف سنچریوں کی مدد سے اب تک 5 ہزار سے زیادہ رنز بنائے ہیں ۔ انہیں شارٹ پچ گیندوں کے علاوہ بائونسرز پر بھی اسٹرک کھیلنے میں مہارت حاصل ہے۔

موجودہ ورلڈ کپ کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سابقہ عالمی مقابلوں سے قبل کی جانے والی پیش گوئیوں کے برعکس اس بار روبوٹس نے ایک ایسی ٹیم کو فاتح کی حیثیت سے چنا ہے جو پہلی بار اس میگا ایونٹ میں شرکت کر رہی ہے ۔افغان ٹیم کی جیت کی پیشگوئی یونیورسٹی آف کینٹر بری کے روبوٹ نے کی ۔ ایک تحقیقی پروگرام کے تحت روبوٹ کے سامنے چودہ ٹیموں کے جھنڈے رکھے گئے جس نے افغانستان کی عالمی ٹائٹل جیتنے کی پیش گوئی کر دی۔ گو کہ کرکٹ مبصرین اس طرز کی پیش گوئیوں کو خاطر میں نہیں لاتے تاہم کرکٹ مقابلوں میں فتح کو '' بائی چانس'' سے منسلک کرنے کے باعث نتائج آپ کے لئے حیران کن بھی ہو سکتے ہیں جس کے لئے جاری مقابلوں کی پرفارمنس کا انتظار کرنا ہو گا۔

یہ آرٹیکل23فروری 2015کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 70974 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More