مدارس قیادت کااحتجاجی تحریک چلانے پرغور،تنگ آمدبہ جنگ آمد

پہلے توایک طویل غیرحاضری پرمعذرت۔آج کل ملکی حالات کچھ ایسے ہیں کہ لکھنے والے کے لیے یہ فیصلہ کرناہی مشکل ہوگیاہے کہ وہ لکھے توکیالکھے اورکس موضوع پرخامہ فرسائی کرے۔حالات جس تیزی سے تبدیل ہوتے جارہے ہیں اورپھرہمارافاسٹ بل کہ فاسٹسٹ میڈیاجس تیزی سے ہرخبرکوبریک کررہاہے،اس میں یہ خودایک مستقل مسئلہ ہے کہ کچھ نیابچاہی نہیں ہے۔خیر!قلم قبیلے سے وابستہ ہونے کی وجہ سے بہرحال قلم کی آبروقایم رکھنابھی ضروری ہے۔

دینی مدارس اورحکومت کے درمیان رسہ کشی یوں توکوئی نئی بات نہیں ،بل کہ مفتی منیب الرحمن کے بقولپرویزمشرف کے دور سے ہی مدارس کی نگرانی کاسلسلہ جاری ہے اوردینی مدارس پرالزام تراشی کی مدت تواس سے بھی پرانی ہے اور پچھلے 18 برسوں کے دوران مسلسل مدارس کے خلاف الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں ،ملک میں کہیں بھی دہشت گردی کاکوئی واقعہ رونماہوجائے ،حکومتی کارپردازان اورمختلف جماعتوں میں موجودسیکولراذہان مدارس کی کردارکشی کے یک نکاتی ایجنڈے پرشب وروزکام شروع کردیتے ہیں ،اب تومعاملہ صرف حکومتی کارپردازان اورسیکولرلابی تک محدودنہیں رہی بل کہ این جی اوزاورسول سوسائٹی بھی اس میدان میں کودپڑی ہے،کچھ دینی ومسلکی لبادہ اوڑھے ہوئے لوگ جن کاکام ہی مسلکی تعصبات کوہوادیناہے،وہ بھی اسی شغل عزیزمیں صرف کردیتے ہیں۔چوں کہ مدارس کے معاملے میں جلتی پرتیل ڈالنے اوررائی کاپہاڑبنانے کاکام بڑے زوروں پرہے ،جس کی وجہ سے حکومت اوردینی مدارس کی قیادت کے درمیان میں معاملات طے ہوتے ہوتے پھربگاڑکی طرف چلے جاتے یالے جائے جاتے ہیں ،شایدیہی وجہ ہے کہ درست صورت حال سامنے نہیں آپاتی۔ہم سے بھی اس حوالے سے احباب استفسارکرتے رہتے ہیں،کیون کہ ہماراچو مدارس کے ترجمان ایک ہفت روزہ اخبارکے نیوزاورادارتی بورڈسے بھی تعلق ہے اورہم ملک کے ایک بڑے دینی ادارے میں تفسیرقرآن کے کام سے بھی منسلک ہیں۔سوچااپنے قارئین کواس سلسلے میں تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کیاجائے۔

حکومت کادعویٰ ہے کہ وہ قومی ایکشن پلان کے تحت ملک میں مدارس میں اصلاحات چاہتی ہے،اس سلسلے میں دینی مدارس کے پانچوں بورڈوں کی نمایندہ جماعت اتحادتنظیمات مدارس دینیہ سے وزیرداخلہ کی ملاقات بھی ہوچکی ہے اورکئی امورباہمی اتفاق رائے سے طے بھی پاچکے ہیں ،لیکن دینی مدارس کی رجسٹریشن کے معاملے پر عمل درآمد کے حوالے سے ابھی تک حکومت اور مدارس کے نمایندوں کے درمیان ڈیڈلاک برقرار ہے۔ حکومت اور اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ میں رجسٹریشن پروفارما کے مسودہ پرا بھی تک کوئی معاہدہ نہیں ہو سکاہے۔ہنوز یہ معاملہ ماضی کی طرح ہی ہے۔

قارئین کویادہوگاکہ 2005 ء میں اس وقت کے وزیر مذہبی امور اعجاز الحق اور پھر 2010 ء میں اس وقت کے وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک نے مدارس اصلاحات کے حوالے سے ان تنظیموں کے ساتھ معاہدے کیے تھے اور رجسٹریشن کے پروفارما پر بھی کچھ کام ہوا تھا تاہم کوئی باہمی معاہدہ نہیں ہوا تھا۔اس معاملے کے دوہی فریق ہیں ،حکومت اورمدارس۔رجسٹریشن کامعاملہ طے نہ پانے میں کس کاقصورہے؟یقیناآپ بھی کہیں گے کہ حکومت کاتونہیں ہوگا،کیوں کہ وہ توچاہتی ہی یہ ہے کہ تمام مدارس کورجسٹرڈکیاجائے،پھرلامحالہ مدارس کی قیادت ایساہونے نہیں دے رہی ہوگی…حالاں کہ حقایق کاغیرجانب داری سے تجزیہ کیاجائے تومعلوم ہوگاکہ ایسابھی نہیں ہے۔حال ہی میں اتحادتنظیمات مدارس کامنصورہ میں ایک نمایندہ اجلاس ہوا،جس میں پانچوں وفاقوں کی قیادت نے شرکت کی،جن میںمولانا عبدالمالک ،مفتی منیب الرحمن ،مولاناقاری محمد حنیف جالندھری ،یاسین ظفر ،سید کاظم نقوی ودیگر شامل ہیں۔اجلاس کے اختتام پرجواعلامیہ جاری ہوااورپریس کوبریفنگ دی گئی اس کاجایزہ لیجیے!پانچوں وفاقوں کی قیادت کاکہناتھاکہ :
ہمارابدستوریہ مؤقف ہے کہ مدارس دینیہ کی رجسٹریشن قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر ممکن نہیں، اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ میں شامل پانچوں وفاق متفق ہیں کہ 2005 میں رجسٹریشن کے مسئلے پر وزارت داخلہ سے معاملات طے پا چکے ہیں، مگر اب تک اس پر عمل نہیں کیا جا سکا اور بیوروکریسی کے کہنے پر بار بار اس مسئلے کو الجھا دیا گیا ۔

پشاور کے سانحے کے بعد علما اور مذہبی حلقوں نے فوجی عدالتوں سمیت دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان کی مکمل حمایت کی تھی، اگرچہ اس پلان میں مذہبی اور فرقوں کے الفاظ کی شمولیت کی وجہ سے ان کے تحفظات بھی تھے،مگرچوں کہ ریاست کی بقا اور دفاع سب کی مجموعی ذمہ داری ہے،اس لیے علمائے کرام نے کہاتھاکہ ہم اس مسئلے کے حل اورایسے عناصرکے سدباب کے لیے کندھے سے کندھا ملا کر حکومت کے ساتھ ہیں اور ظلم، لاقانونیت اور دہشت گردی کاخاتمہ کرنے میں اپناکرداراداکریں گے،اس مؤقف کابارباراعادہ کیاگیااوراب بھی کیاجارہاہے،منصورہ میںہونے والے اجلاس میں ایک بارپھرمدارس کی قیادت نے کہاہے کہ دہشت گردی کے خلا ف جنگ میں حکو مت کے سا تھ ہیں ۔ کچھ ملک دشمن عناصر قوتیں مدارس اور حکومت میں ٹکراو کرانا چاہتی ہیں۔ ہم ملک کو بحران سے دوچار کرنا نہیں چاہتے۔و زیر اعظم اور چیف آف آرمی سٹاف اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کی قیادت سے مذاکرات کریں۔سیاسی اور عسکری قیادت کو باور کرواتے ہیں کہ مدارس پر امن طور پر تعلیمات اسلامیہ کو فروغ دے رہے ہیں۔علمائے کرام نے شبہات دور کرنے کے لیے وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلی شہباز شریف کے ساتھ فوری طور پر ملاقات کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ انہوں نے علمائے کرام کی گرفتاریوں کو روکنے اور گرفتارشدگان کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔دس روزقبل وفاق المدارس العربیہ کے ناظم اعلیٰ مولانا قاری محمدحنیف جالندھری نے آئی جی پنجاب، ہوم سیکرٹری اور چیف سیکرٹری سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کی تھیں اور 21ویں آئینی ترمیم کے بعد مدارس پر چھاپوں اور علما کی گرفتاریوں، مدارس کی رجسٹریشن سمیت دیگر معاملات زیر بحث آئے تھے اوراس بات پراتفاق پایاگیاتھاکہ کچھ قو تیں حکو مت اور مدارس کے در میا ن تصادم کر نا چا ہتی ہیں۔مفتی منیب الرحمن نے بھی میڈیاکوبتایاہے کہ ہم نے وزیر اعظم ،آرمی چیف،وزیر اعلی پنجا ب اور حساس ا داروں کے سربراہان کے نام خطوط لکھے لیکن ہمیں کسی طرف سے جواب نہیں ملا ۔انھوں نے یہ بھی بتایاکہ حکومت کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور مذہبی امور، تعلیم اور داخلہ کے وفاقی سیکریٹریوں سے بھی بات چیت اورمعاملات کے انڈرپراسس ہونے کے باوجودیک طرفہ کارروائیاں جاری ہیں اورہم نے باربارکہاہے کہ جن مدارس پر دہشت گردی کا الزام عائد کیا جاتا ہے ان کے نام میڈیا کو بتائے جائیں،حکومت دہشت گردی میں ملوث مدارس کی نشاندہی کرے،ہم ان کاالحاق ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف ہرقسم کی کارروائی کی حمایت کریں گے۔قبل ازیں بھی تواترسے مدار س دینیہ کی قیادت یہ مطالبہ کرتی رہی ہے کہ قوم کوبتایاجائے کون کون سے مدارس دہشت گردی میں ملوث ہیں،اس طرح کے عناصر کا کبھی دفاع نہیں کریں گے۔

حکومت اورعسکری ادارے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے میں مخلص ہیں ،جس طرح اس بات میں دورائے نہیںہوسکتی ،اسی طرح یہ بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ سانحہ پشاورسمیت ملک میں ہونے والی دہشت گردی میں دینی مدارس کاکوئی کردارنہیں ۔اگرصرف اس دلیل کی وجہ سے یہ تمام جرایم دینی مدارس اوراہل مدارس کے کھاتے ڈالے جارہے ہیں کہ مرتکبین میں ان مدارس سے پڑھنے والے بھی شامل ہیں ،توگستاخی معاف…یاتویہ مان لیجیے کہ یہ منطق ہی سرے سے غلط ہے اورناقابل تسلیم ہے،کیوں کہ کہیں بھی ایسانہیں ہوتا۔اگرآپ کواس منطق پرہی اصرارہے توآخراس کااطلاق عصری اداروں پرکیوں نہیں ہوتا؟یہ ایک یقینی امرہے کہ ملک میں ہونے والے نوے فیصدجرایم میں حصہ لینے والو ں کاتعلق کسی نہ کسی اسکول،کالج یایونی ورسٹی سے ہوتاہے۔کیاآج تک مجرم کے کوایف میں اس بات کابھی ذکرکیاگیاکہ مجرم فلاں اسکول،کالج یایونی ورسٹی کاپڑھاہواہے؟نہیں۔یہ توبہت دورکی بات،کہ اس کے جرم کی بنیادپراس کے ادارے ،بل کہ اس کی جنس کے تمام ادروں کوموردالزام ٹھہرایاجائے۔آخرمذہبی طبقے کے حوالے سے ہی یہ تعصب کیوں؟اس قدربودی دلیل کے باوجوددینی مدارس کی وسعت ظرفی ملاحظہ کیجیے کہ وہ یہاں تک کہ رہے ہیں کہ آپ نشان دہی کیجیے،ہم نہ صرف لاتعلقی کااعلان کریں گے،بل کہ آپ جوبھی کارروائی کرناچاہیں ،ہم اس کی تاییدکریں گے۔

اسی طرح مدارس کی رجسٹریشن کے معاملے کولیجیے۔آپ کے بجٹ میں بھانڈ،مراثیوں تک کے لیے توفنڈزمختص ہیں ،لیکن دینی مدارس کے لیے کوئی گرانٹ نہیں ،کوئی فنڈمختص نہیں ۔آپ مدارس کوکوئی امدادبھی نہیں دیتے۔اس کے باوجودان کی رجسٹریشن کی بات کرتے ہیں ،یہ توان مدارس کی قیادت کی وسعت ظرفی ہے کہ وہ اس کے لیے بھی تیارہے۔اورآپ ہیں کہ کوئی نظام وضع کرنے سے پہلے ہی کارروائیاں شروع کردیتے ہیں ۔جن مدارس میں بچے دن کوپڑھ کررات کوگھروں کوچلے جاتے ہیں ،وہ 2005اور2010کے طے شدہ مشترکہ معاہدے کی روسے مدارس ہی کے ذمرے میں نہیں آتے۔اگران کی بھی رجسٹریشن کرنی ہے توپہلے قانون توبنائیں۔ابھی قانون بنانہیں اورآپ کے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادارطرزکے پولیس اہل کاروں نے پھرتیاں دکھاناشروع کردیں۔صوبہ سندھ وبلوچستان میں کئی چھوٹے مدارس ومکاتب کی بندش کی بھی اطلاعات ہیں ، بند کیے گئے مدرسوں میں مختلف مسالک کے مدارس شامل ہیں، جن کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے مدرسوں کی رجسٹریشن کروائیں، جس کے بعد ہی مدرسے کھولنے کی اجازت دی جائے گی۔یادرہے کہ یہ کارروائی پہلے ہوئی ہے اوروزیراعلیٰ سندھ کایہ بیان بعدمیں آیاہے کہ رجسٹریشن کے معاملے میں چھوٹے مدارس کواستثناء نہیں دے سکتے۔مدارس کی قیادت نے رجسٹریشن سے کب اباء کیاہے،ان کاتواب بھی یہ مؤقف ہے کہ مدارس نے قانون کے مطابق رجسٹریشن کرائی ہے اور کراتے رہیں گے ،مگرآپ قانون توبنائیے۔

قارئین کرام!اس مختصرسے منظرنامے سے آپ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ مدارس نے ہمیشہ ماننے اورمعاملات کوسلجھانے کی کوشش کی ہے ،لیکن جانے حکومت کی کیامجبوری ہے کہ مدارس ہی کوقابل گردن زدنی قراردیاجارہاہے۔ان کی تمام تروضاحتوں کوتسلیم کرنے کے باوجودپرنالہ ابھی تک وہیں کاوہیں ہے۔شایدیہی وجہ ہے کہ انتھائی سخت مجبوری کی حالت میں اس ماہ کے آخرتک بھی معاملات حل نہ ہونے اورتسلی بخش جواب نہ ملنے کی صورت میںمدارس کی قیادت نے احتجاجی تحریک چلانے کافیصلہ کیاہے،مگراب بھی گیندحکومت کی کورٹ میں ہے اورحکومت تدبرکامظاہرہ کرتے ہوئے معاملا ت کوبگڑنے سے بچاسکتی ہے-
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 308117 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More