عروج کے خواب
(Muhammad Ajmal Khan, Karachi)
اکیسویں صدی کا 15واں سال شروع
ہو چکا ہے۔
اس صدی کے آغاز سے پہلے مسلم اُمہ خواب دیکھا کرتی تھی کہ اکیسویں صدی
اسلام کی صدی ہوگی‘ مسلم اُمہ کی عروج کی صدی ہوگی۔ لیکن اس صدی کے آغاز
میں ہی دشمنان اسلام نے سانحہ ۹ /۱۱ کے ذریعے پورے اسلامی دنیا کو دہشت
گردی کی آگ میں جھونک کراور پھر قریب ہر مسلم ملک میں فساد پرپا کرکے عروج
و بلندی پر پہنچنے کے خواب کو چکنا چور کر دیا اور مزید پستی کے طرف دھکیل
دیا۔
عروج کے خواب دیکھنے والی اس امت کون سمجھائے کہ عروج کی بنیاد ہے ایمان‘
علم‘ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اعلیٰ اخلاق جس کے بغیر عروج کا
خواب دیکھنا فعلِ عبث ہے۔
ہم مسلمان عروج چاہتے ہیں‘ خلافتِ راشدہ والی عروج کیونکہ امتِ مسلمہ عروج
پہ پہنچی تھی حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں۔
صدیوں سےامتِ مسلمہ اُسی عروج کو ترس رہی ہے‘ اسی خلافت کی خواہاں ہے اور
اسی کیلئے ساری جدو جہد ہے۔
کچھ نے امت میں ایمان و اعتقاد کی درستی کے بغیر محض جہاد کے ذریعے خلافت
قائم کرنے اور عروج پر پہنچنے کی سعی کی تو کچھ نے اہل کفر کے راہ اپناتے
ہوئے‘ جمہوریت اور طاقت‘ کے ذریعے امت کو عروج پہ پہنچانے کے خواب دکھائے۔
ہم پاکستانی مسلمانوں نے جمہوریت کو اپنایا اور طاقت کا سرچشمہ ’اٹم بم ‘
بھی بنا لیا‘ دنیا کی بہتریں فورس بھی ہمارے پاس ہے ۔۔۔ لیکن عروج پہ
پہنچنے کے بجائے مسلمانانِ پاکستان مزید ذلالت و مسکنت کے اندھرے میں گرتے
جا رہے ہیں۔
آج بھی اکثر لوگ اپنی ناقص عقل کے مطابق یہی سوچتے اور سمجھتے ہیں کہ صرف
دنیاوی طاقت حاصل کرکے ہی عروج پہ پہنچا جا سکتا ہے۔ اگر دنیاوی طاقت ہی
قوموں کی عروج کی بنیاد ہوتی تو فرعون کو ہمیشہ عروج پہ رہتا یا پھر قیصر و
کسریٰ کا عروج پیوند خاک نہ ہوتا۔
اس امتِ مسلمہ کو عروج پر پہنچانے والے حضرت عمر فاروقؓ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أِنَّ اللّٰہَ یَرفَعُ بِھٰذَا الکِتَابِ أَقوَاماً وَّیَضَعُ بِہِ
آخَرِینَ (صحیح مسلم)
" بے شک! اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن مجید) کی بدولت اقوام کو بام عروج تک
پہنچاتے ہیں اور دوسری بہت سی اقوام کو پست و ذلیل کرتے ہیں (یعنی اس پر
عمل کرنے والے سرفراز ہونگے جبکہ اس سے منہ موڑنے والے نامراد ہونگے) "۔
اور اس قرآن میں عروج پر پہنچنے کےجو آسان طریقے بتائے گئے ہیں‘ اگر کوئی
شخص یا قوم اس پر عمل کر لے تو عروج پہ پہنچنا کوئی مشکل نہیں۔ لیکن ہمارے
پاس قرآن رہنے کے باوجود ہمیں قرآن کے بتائے ہوئے طرلقے پر عمل کرکے عروج
پہ پہنچنا گوارا نہیں۔ جنہوں نے ہمیں ذلت و رسوائی کے گڑھے میں دھکیلا ہے
ان ہی کے طریقے سے ہم عروج پہ پہنچنا چاہتے ہیں اور روز بروز ہم پر مزید
ذلت و مسکنت کے گڑھے میں گرتے جارہے ہیں۔
اگر ہمیں عروج پہ پہنچنا ہے‘ اس امت کو اپنا کھویا ہو مقام حاصل کرنا ہے تو
ہمیں اُسی طریقے کو اپنانا ہوگا جسے اپنا کر ہمارے اسلاف عروج پہ پہنچے
تھے‘ جو ننگے پاؤں اور تن پہ پھٹے کپڑے ہونے کے باوجود اس وقت کے سپر طاقت
قیصر و کسریٰ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال بات کرسکتے تھے اور یہ طاقت آتی ہے
ایمان کی پختگی سے۔
• لہذا عروج پہ پہنچنے کی پہلی بنیاد ہے ’’ ایمان ‘‘
اللہ کا فرمان ہے:
۔۔۔ يَرْفَعِ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا
الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۔۔۔ (سورة المجادلة 11)
"... اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور
جنہیں علم سے نوازا گیا ..."
لہذا اللہ کے اس فرمان کے مطابق بلندی و عروج پہ پہنچنے کیلئے پہلی بنیاد
ہے ’ایمان‘ اور پھر ’علم‘ ۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ’ ایمان‘ کو ’علم ‘ پر
فوقیت دی ہے۔ ایمان کے بغیر یا متزلزل اور کمزور ایمان سے عروج ممکن نہیں۔
آج کلمہ ٔ توحید کی بنیاد پر حاصل کردہ ملک میں مسلمانوں کی ایمان کی حقیقت
یہ ہے کہ «حَيَّ عَلَى الصَّلَاة»اور «حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ»کی پکار میں
کامیابی نظر نہیں آتی۔ آج کامیابی نظر آتی ہے جھوٹ میں‘ فریب میں‘ کرپشن
میں‘ اور ہر اس حرام کام میں جو أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ
کی منافی ہو۔ مسجدوں میں اللہ کے عبادت کرنے والے خال خال ہیں جبکہ شرک کے
کارخانے مزاروں میں تِل دھرنے کی جگہ نہیں ‘ روزانہ کسی نہ کسی کی عرس ہے
اور وہاں لوگوں کا ازدھام ہے۔
قبروں اور مزاروں کی زینت بننے والوں کو جب معلوم ہی نہیں کہ توحیدِ عبادت
کیا ہوتی ہے تو ایمان باللہ کا سوال کیسا؟
اور جب ایمان باللہ ہی نہیں تو ایمان کے باقی ارکان سے کیا لینا دینا؟
لہذا جس امت کی اکثریت ایمان سے نا آشنا ہو‘ اسے عروج کہاں؟
جب یہ امتِ مسلمہ ایمان کی حقیقت کو جانتی تھی اور اس کے مطابق عمل کرتی
تھی۔ اس امت کے ایک ایک فرد کا اٹھنا‘ بیٹھنا ‘ چلنا‘ پھرنا ‘ سب اللہ
کیلئے اللہ کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق تھا ‘ تب اللہ نے اسے
ایسی بلندی ‘ ایسی عروج عطا کی تھی جیسی انسانیت کی تاریخ میں کسی اور کو
نہیں ملی ۔ اور جیسے جیسے یہ امت ایمان سے دور اور شرک سے قریب ہوتی گئی ‘
اپنی زندگی اللہ کو چھوڑ کر اولیاؤ ں‘ پیروں‘ فقیروں اور مزاروں کے نذر
کرنے لگی‘ ذلت و رسوئی میں گرتی گئی اور آج جو حالت ہے وہ سب پر عیاں ہے۔
جس کا ایمان جتنا مضبوط ہے‘ اس کا دین بھی اُتنا مضبوط ہے اور اللہ کے پاس
اسکی اُتنی ہی قدر ہے۔
ہمارے ایمان کے اعتبار سے اللہ کے یہاں بھی ہماری قدر ہے اور اس دنیا میں
بھی ہماری قدر ہے۔
ایمان والے کی ایک وجود ہے جس کی گواہی اس کے دشمن بھی دیتے ہیں‘ دور سے
اشارہ کرکے کہتے ہیں ’’ یہ مومن ہے‘ ایمان والا ہے‘ علم والا ہے‘ اس کا
ایمان علم کی بنیاد پر ہے‘ جہالت کی بنیاد پر نہیں۔
• لہذا عروج پہ پہنچنے کی دوسری بنیاد ہے ’ علم ‘
جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایمان کے بعد ہی ذکر کیا ہے۔ ایمان کا گہرا
تعلق ہے علم کے ساتھ۔ بغیر علم کے ایمان کا مکمل ہونا ممکن ہی نہیں۔حقیقی
علم تو وہی ہے جس کے ذریعے انسان اپنے رب کی معرفت حاصل کرےاور معرفتِ
الٰہی کا ماخذ ہے قرآن و سنت ہے۔ اس لئے رسول ِکریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرآنَ وَعَلَّمَہ (بخاری)
’’ تم لوگوں میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن مجید سیکھے اور دوسروں کو
سکھائے۔‘‘
اور
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أِنَّ اللّٰہَ یَرفَعُ بِھٰذَا الکِتَابِ أَقوَاماً وَّیَضَعُ بِہِ
آخَرِینَ (صحیح مسلم) "
"بے شک! اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن مجید) کی بدولت بہت سی اقوام کو بام
عروج تک پہنچاتے ہیں اور دوسری بہت سی اقوام کو پست و ذلیل کرتے ہیں (یعنی
اس پر عمل کرنے والے سرفراز ہونگے جبکہ اس سے منہ موڑنے والے نامراد
ہونگے)"۔
صدیوں سے مسلمانوں کی اکثریت قرآن سے منہ موڑ کر آکسفورڈ کی کتابوں میں
عروج ڈھونڈ رہی ہے اور ان آکسفورڈ کی کتابوں سے عروج تو ملا ہے لیکن بے
حیائی میں‘ بے غیرتی میں‘ کرپشن میں ‘ جھوٹ و بد عہدی میں اور اللہ اور
رسول کی نافرمانی میں۔
اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اسلام دنیاوی تعلیم سے منع کرتا ہے ۔ ہمارے
اسلاف نے ہی تو دنیا کو جدید تعلیم سے روشناش کرایا اور نئے علوم ‘ جدید
تحقیقات و ایجادات میں نمایا کردار ادا کیا اور اقوام عالم میں معزز بن کر
عروج کو پہنچے کیونکہ انہوں نے قرآن کی تعلیم سے کبھی منہ نہ موڑا بلکہ
قرآن کو ہمیشہ مقدم رکھا اور اسی وجہ سے ان میں ایمان اور عمل کی مضبوطی
برقرار رہی۔
آج مسلمانوں کی اکثریت علم کے میدان میں دنیا کی ہر قوم سے پیچھے ہے۔لہذا
جب یہ امت جاہل‘ ان پڑھ اور علم سے نابلد افراد پر مشتمل ہے تو تنزلی و
انحطاط اور ذلت و خواری ہی اس کا مقدر ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تو ’اقراء‘ سے پہلی وحی کا آغاز کرکے اس امت کو
علم کی اہمیت بتا دیا تھا‘ اب یہ امت پہلی وحی کی پہلے لفظ پر بھی عمل نہ
کرے تو عروج کہاں؟
لہذا عروج کیلئے پھر ’اقراء‘ سے آغاز کرکے علم کے معراج پہ پہنچنا ہوگا۔
• عروج پہ پہنچنے کی تیسری اور چوتھی بنیاد ’’ امر بالمعروف و نہی عن
المنکر
‘‘ یعنی’’ اچھے کاموں کا حکم کرنا اور برے کاموں سے روکنا ‘‘ ہے اور دونوں
لازم و ملزوم ہے ۔ لیکن آج امت کی اکثریت یا تو ان کو چھوڑے ہوئے ہے یا ان
کو جدا جدا کرکے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ان واضح احکام کے معاملے میں بھی
منقسم ہے۔
کچھ ہیں جو صرف ’’ امر بالمعروف ‘‘ کا کام کرتے ہیں اور ’’ نہی عن المنکر
‘‘ کو چھوڑے دیتے ہیں یعنی لوگوں کو برائی سے نہیں روکتے‘ کہتے ہیں لوگوں
کو نمازی بناؤ ‘ صرف خیر کی سبق دو‘ جب نمازی بن جائیں گے اور خیر پر عمل
کرنے والے ہو جائیں گےتو شر سے خود بخود بچ جائیں گے۔ شرک‘ بدعات اور برائی
سے روکنے پر لوگ برا مناتے ہیں اور اس سے امت میں تفرقہ پیدا ہوتا ہے
حالانکہ ’’ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ‘‘ کا کام ساتھ ساتھ نہیں
کرکےیہ خود ہی تفرقے میں پڑے ہوئے ہیں۔
اور کچھ ہیں جو صرف ’’ نہی عن المنکر ‘‘ کا ٹھیکہ لئے ہوئے ہیں اور خوارج
کا کردار ادا کرتے ہوئے مسلمانوں ہی کا خون بہا رہے ہیں۔بدترین مخلوق
بدترین کام کررہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
‘‘ کا حق ادا کر رہے ہیں۔
قرآن کریم میں آٹھ مقامات پر ’’ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اللہ ‘‘ کا
ساتھ ساتھ ذکر کیا ہے ۔
اگر ان دونوں کو الگ الگ کرنے سے کام چل جاتا یا صرف ایک کو کرنے سے دوسرا
خود بخود انجام پا جاتا تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کبھی بھی انہیں ساتھ ساتھ
بیان نہیں کرتے۔
عروج پہ پہنچنے کیلئے ضروری ہے کہ ’’ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ‘‘
کاکام ساتھ ساتھ اسی طریقے سے کیا جائے جس طرح امت کی عروج کے دور میں کی
جاتی تھی۔
عروج کی پہلی اور دوسری بنیاد ایمان اور علم کے بغیر ’’امر بالمعروف اور
نہی عن المنکر ‘‘ کا کام انجام دینا ممکن نہیں ۔اس لئےاللہ سبحانہ و تعالیٰ
نے اِن احکامِ واجبہ کو ایمان کے ساتھ مربوط کر دیا ہے اور علم کےبغیر
معروف اور منکر کا فرق کرنا نا ممکن ہے۔
فرمانِ الٰہی ہے:
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ
وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ ۔۔۔ [3:110]
" تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم
کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو..."
بے شک امتِ مسلمہ بہترین امت ہے اور قیامت تک کیلئے بہترین امت ہے۔ بہترین
امت ہونے کی بات سن کرہم پھُولے نہیں سماتے لیکن ہم بہترین امت والا کام
کرنے کو تیار نہیں۔اس لئے ہم پر ذلالت و مسکنت چھا گئی ہے۔
اگر پھر سے بہترین امت بننا ہے‘ عروج پہ پہنچنا ہے تو
" تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے
اور اچھے کاموں کا حکم دے اور برے کاموں سے روکے، یہی لوگ فلاح ( عروج )
پائیں گے۔" وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ
وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ
وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [3:104]
اور عروج پر پہنچنے والوں کے ا وصاف بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے
ہیں:
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا
الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ
وَلِلَّـهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ [22:41]
" یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا
نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور بھلائی کا حکم
کریں اور برائی سے روکیں، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے۔"
اور ایسے لوگ ہی اعلیٰ اخلاق کے حامل ہوتے ہیں۔
• لہذا عروج پہ پہنچنے کی پانچویں بنیاد ہے ’’ اعلیٰ اخلاق‘‘
اللہ کے پیارے پیغمبر ﷺ فرماتے ہیں:
" إِنَّمَا بُعِثْتُ لأُتَمِّمَ صَالِحَ الأَخْلاقِ "
" مجھے اچھے اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گيا "
اور ایک اور روایت میں
’’ إِنَّمَا بُعِثْتُ لأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الأَخْلاقِ ‘‘
" مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گيا "
اور آپ ﷺ بحسن خوبی اعلیٰ ترین اخلاق کی تکمیل کا کام سر انجام دیا‘ جس کی
کی تصدیق وتحسین اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمائی:
وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ [68:4]
" بےشک آپ (ﷺ) بلند ترین اخلاق کے درجہ پر فائز ہیں "
امت عروج پہ پہنچی تھی اسی اعلیٰ اخلاق کے بنیاد پر جسے صحابہ کرام ؓ نے
نبی کریم ﷺ سے سیکھا اور اپنایا تھا ‘ جسے سلف صالحین اور امت کے اچھے
لوگوں نے اپنایا اور پورے دنیا میں اسلام کا بولبالا کیا ‘اسی اعلیٰ اخلاق
کی بنیاد پر کتنے ملک بغیر لڑے فتح کئے گئے جو کہ تاریخ میں امتِ مسلمہ کی
اخلاقی فتح کی بڑی ثبوت ہے۔
اور آج کے مسلمانوں کی اخلاقی پستی کو قلم بیان کرنے سے قاصر ہے۔توحید کی
علم بردار جب کوئی قوم شرک و بدعات میں پڑتی ہے تو سب سے پہلے اخلاقی
انحطاط کا شکار ہوتی ہے۔آج امت میں ہر طرف شرک و بدعات کی بھر مار ہے لیکن
تعجب ہے کہ اکثریت اسے ماننے کو تیار ہی نہیں‘ پھر شرک و بدعات میں رہکر
مزید ذلت و مسکنت کے گڑھے میں گرتے رہو‘ اللہ کو کیا پڑی ہے اس امت کو عروج
پہ پہنچانے کی اور ہم تو اپنے نبی ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے خبردار کردیا
ہے۔
حسن اخلاق جو ہمارے اثاثے تھے اب ہمارے پاس نہیں رہے‘ ہمارے دشمنوں کے پاس
چلے گئے ہیں۔ آج جب کوئی مسلمان کچھ دنوں کیلئے یورپ یا امریکہ ہو آتا ہے
تو وہاں کے لوگوں کی اخلاق کے گُن گاتے نہیں تھکتا۔ جس محفل میں بیٹھتا ہے
بس ایک ہی راگ الاپتا ہے: ارے دنیا تو وہ ہے‘ سچ بولنے والے لوگ ہیں‘ امانت
دار ہیں‘ مدد کرنے والے ہیں‘ وقت اور قانون کے پابند ہیں وغیرہ وغیرہ۔
آج ہم اپنا اخلاق قرآن و سنت کے مطابق نہیں بناتےمگر دوسروں کی اخلاقیات کی
طرف للچائی نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں‘ اگرچہ ان میں کچھ اچھائی ہے لیکن ان
کے دل ناپاک ہیں اور جس کا دل ناپاک ہے اس کا پورا وجود ناپاک ہے۔ناپاک دل
کے ساتھ چاہے وہ مسکرائے‘ لوگوں کی مدد کرے‘ سچ بولے‘ کچھ بھی کرے سب ناپاک
ہے۔
کافر‘ مشرک‘ منافق پلید ہیں اورجو ان کی راستے کو اختیار کرتے ہیں وہ بھی
ناپاک و پلید ہیں۔ان کی اخلاق کی پلیدگی ان کی ازدواجی زندگی میں جھلکتا ہے
کہ سب سے زیادہ مغربی لوگ اپنی ازدواجی معاملات میں خیانت کرتے ہیں‘
وفاداری نام کی کوئی چیز ہی نہیں‘ خیانت ہی خیانت اور جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔اگر
یہ باہر دوسروں سےخوش اخلاقی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں تو صرف اپنی مفاد
کیلئےمنافقت کے ساتھ‘ یقین نہیں تو قریب رہ کر دیکھ لیں۔
لیکن کاش کہ یہ جاہل انسان یورپ امریکہ جانے سے پہلے طاق پہ رکھے قرآن سمجھ
کر پڑھ لیتا‘ نبی کریم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کا مطالعہ کیا ہوتا‘ صحابہ کرامؓ
اور سلف صالحین کی سیرت و کردار دیکھا ہوتا تو اعلیٰ اخلاق کیا ہوتا ہے‘
اخلاق کا معیارکیا ہوتاہے اسے پتہ چلتا۔ اسے بہت پہلے ہی معلوم ہوجاتا کہ
سچائی‘ امانت داری‘ معاونت‘ وقت کی پابندی اور قانون کی پاسداری وغیرہ کا
جوسبق اسلام نے دیا ہے ‘ نہ کسی مذہب نے دیا ہے اور نہ کسی تہذیب نے۔
اخلاق صرف خوش گفتاری اور خندہ پیشانی کا نام نہیں۔
عالی اخلاق انسان کے پاک قلب و روح میں پرورش پاتاہے‘ اس کے وجود میں
جھلکتا ہے اور اس کے عمل کے ذریعہ اس کا اظہار ہوتا ہے جس کی بنیاد ہے
ایمان اور توحید جو قرآن و سنت کے علم سے بلندی پر پہنچتاہے اور امر
بالمعروف و نہی عن المنکر سے بر قرار رہتا ہے۔
اور یہی پانچ ( یعنی ایمان‘ علم‘ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور حسن
اخلاق ) بنیاد ہیں امتِ مسلمہ کی روج پہ پہنچنے کی جو سارے کے سار ایک
دوسرے سے مربوط ہیں اور یہی صراطِ مستقیم ہے۔
اِن بنیادوں کو مستحکم کئے بغیر جتنی بھی اٹم بم بنالیں‘ ساری دنیا کی
اصلحے اکٹھے کرلیں ۔۔۔ عروج نہیں ملے گی۔
امت کو شرک‘ بدعات و خرافات سے نکالے بغیر ۔۔۔ عروج نہیں ملے گی۔
اگر امت کی عروج کے خواہاں ہیں تو آنکھوں میں بندھی شرک‘ بدعات و خرافات کی
پٹیاں اتاریں‘ اپنی اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں‘ قرآن و سنت کو سامنے رکھ
کر دیکھیں کہ کیا ان بنیادوں کو مستحکم کئے بغیر عروج ممکن ہے‘ کیا شرک
کومٹائے بغیر عزت مل سکتی ہے۔
آئے ایمان کو سمجھیں‘ علم حاصل کریں‘ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اللہ کے
راستے کو اپنائیں اور اپنا اخلاق بہترین بنائیں۔
دوسروں کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے کے بجائے‘ اپنے آپ کو قرآن و
سنت کے مطابق اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بنائیں تاکہ لوگ کہیں کہ حسن اخلاق یہ
ہوتا ہے۔
جیساکہ ہمارے گزرے ہوئے سلف صالحین کے طرف لوگ اشارہ کرکے کہتے تھے:
یہ لوگ حقدار ہیں زمیں پہ حکمرانی کی‘ اِن سے لڑے بغیر ملک ان کے حوالے
کردو۔
پھر اللہ کی زمین پہ امت کا راج ہوگا‘ امت کو بلندی ملے گی اور امت عروج پہ
پہنچے گی۔ |
|