بچوں کے لیے ماحول محفوظ بنائیں اپنا اپنا ”رمضان،، بچائیں

 معصوم رمضان کا قاتل ،طارق عرف کالوکون تھا۔ اس نے کیا جرم کئے کیا کیا گناہ کئے ا ور کیوں کئے، کیسے وہ انسان سے حیوان بنا۔

معصوم پھول جیسے بچے رمضان کا قاتل طارق عرف کالو اپنے انجام تک پہنچ گیا۔ پولیس آلہ قتل کی برآمدگی کے لیے موقع پر لے گئی اور اس دوران نامعلوم مسلح افراد نے پولیس کی تحویل میں ملزم طارق عرف کالو پر حملہ کردیا زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا جارہاتھا کہ راستے میں دم توڑ گیا۔

یہ تو ہے ایک خبرجو آج کے اخبار میں شائع ہوئی۔

یہ طارق عرف کالوکون تھا۔ اس نے کیا جرم کئے کیا کیا گناہ کئے ا ور کیوں کئے، کیسے وہ انسان سے حیوان بنا اور پھر اس حیوان نے واقعی حیوانیت کا ثبوت بھی دیا۔ درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، معصوم پھول جیسے نوسالہ بچے رمضان کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد اسے بے دردی کے ساتھ قتل کردیا اور نعش کھیتوں ڈال دی خود سکون سے کسی دوسرے شکار کی تلاش میں لگ گیا۔

طارق عرف کالو ڈی جی خان کے نواحی علاقہ کوٹ ہیبت کا رہائشی نوجوان تھا جو کام کاج کے حوالے سے کچھ خاص نہیں کرتا تھا۔ کبھی مزدوری اور کبھی کھیتوں میں کام۔ تو کھی مال مویشی کی خریدو فروخت کرتا تھا۔ طارق کے کچھ خاص نہ کرنے کے باوجود والدین نے اس کی شادی بھی کردی۔ جبکہ اس نکمے کے چال چلن ٹھیک نہیں تھے۔ اور اوباش قسم کا نوجوان تھا۔ طارق عرف کالو نے خود میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ وہ شروع شروع میں چند دوستوں کے ساتھ کسی کونے کھدرے میں سی ڈیز پلیئر پر انڈین اورانگریزی مصالحہ فلمیں اور کبھی کھبار گندی فحش فلمیں دیکھتا تھا اور پھر اپنے موبائل پر ایسی فلمیں ٹوٹے وغیرہ ڈاو ¿ن لوڈ کراتے ہوئے دیکھتا تھا۔بے راہ روی کا شکار طارق نے یہ بھی خود انکشاف کیا کہ اس نے علاقے کے کئی بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا کئی بار اس کی شکایت بھی لگی اور کئی بار اس کوپکڑا بھی گیا۔ ایک بار تو وہ اسی طرح کے جرم میںگرفتار ہوکر چالان بھی ہوا۔مگر ہر بار وہ بچ نکلا کیوں کہ معاشرے نے وہی روائتی رویہ اپنائے رکھا یعنی لاتعلقی کا اظہارطارق عرف کالو کی حرکات مشکوک ہونے کے باوجود معاشرے نے اس کانوٹس نہیں لیا۔سوسائٹی جب اس طرح کرتی ہے تو پھر سانحہ کا ہونا کوئی بڑی بات نہیں ۔طارق کے فعل کو معاشرے کے لیے خطرناک سمجھتے ہوئے اگر اسی وقت سختی سے روکا جاتا اور خاموشی اختیار نہیں کی جاتی تو آج طارق عرف کالو کے جرائم کی تعداد اس قدر طویل اور مہلک نہ ہوتی۔جب ایک بار وہ چالان ہوا ،اور پھر بری کیسے ہوگیا؟قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدالتیں اگر صیح طور کام کرتے تو بھی طارق کے سامنے رکاوٹ کی دیوار کھڑی ہوتی خوف و ڈر ہوتا ۔ جب پانی سر اسے اوپر گرزنے لگتا ہے تو پھر ہمیں احساس ہوتا ہے۔ اکثرغیرمعمولی واقعہ کو ہم انتہائی معمولی سمجھ کر نظرانداز کردیتے ہیں،اور پھر نقصان ہوتا ہے۔ جس کاخمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے۔

ہمیں ہمیشہ اپنے اردگرد حالات واقعات پر گہری نگاہ رکھنی چاہیے۔ خاموشی کے تسلط سے نکلنا ہوگا۔ معاشرے کے ناسوروں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی۔اور جب بات ہوبچوں کی جو ہمارا مستقبل ہیں ان کے معاملے پر ہرگزکاہلی سستی اور لاپرواہی نہیں کرنی چاہیے۔کوٹ ہیبت میں رونما ہونے والے واقعہ میں بھی کئی کوتاہیاں ہوئیں لاپرواہی برتی گئی۔ کم عمر بچے کو اکیلا مدرسہ یاسکول میں نہیں جانے دینا چاہیے۔اور واپسی میں بھی گھر کا کوئی فرد بچے کو اپنے ساتھ لے کر آئے۔جن کی خاطر والدین سب کچھ کرتے ہیں مصائب تکالیف اٹھاتے ہیں۔ دن رات محنت کرتے ہیں خود بھوکے سوجاتے ہیں مگر اپنے بچوں کو کھانا ضرور کھلاتے ہیں اپنے پاو ¿ں کی جوتی مرمت کرالیتے ہیں مگر اپنے بچے کو نئی جوتی دلواتے ہیں ۔ اپنی زاتی خواہیشات کا گلہ دبا کر اپنے بچوں کے لیے سب کچھ حاصل کرتے ہیں ۔ یہی ہمارا مستقبل ہیں اور یہی ہماری خواہشات کومحورہیں۔ تو پھر ہم اپنے مستقبل اور اپنی آزوو ¿ں اپنی تمعنہ اپنی خواہشات کے لیے اپنے بچوں کے لیے ماحول کو محفوظ کیوں نہیں بناتے ۔بطور سوسائٹی کے فرد کے ہرکسی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے۔ اور والدین کی تو اور بھی گہری ذمہ داری ہے، کہ وہ سوسائٹی میں جگہ جگہ موجود عام شکل وصورت میں انسان کے روپ میں شیطانوں کی حرکات وسکنات اور ان کے کردہ فعل پر خاموشی اختیار نہ کریں۔ خود کو معاشرے کا اہم حصہ سمجھتے ہوئے معاشرتی طور پر فعال شہری ہونے کا ثبوت دیں ،اس طرح کے واقعات کے رونما ہونے سے پہلے ہی ان کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔معصوم بچوں کا استحصال کو روکنا ہوگا ۔ تبھی ہم مہذب معاشرہ بن پائے گے۔
Riaz Jazib
About the Author: Riaz Jazib Read More Articles by Riaz Jazib: 53 Articles with 58714 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.