دہشت گردی چاہے مسجد،امام بارگاہ ،سکول یاچرچ میں ہو وہ دہشت گردی ہی ہے۔

لاہورکی نشترکالونی کے علاقے یوحناآبادمیں گرجاگھروں پردہشت گردانہ حملوں ن میں سترہ افرادہلاک جن میں ایک ہی خاندان کے سات افراد دوپولیس اہلکاردوسگے بھائی میاں بیوی شامل ہیں جبکہ سات درجن سے زائدافرادزخمی ہوگئے۔حملہ آوروں نے چرچوں میں داخل ہونے کی کوشش کی ناکامی پرخودکوگیٹ پراڑالیا۔ پہلے فائرنگ کی گئی پھر دھماکے کردیے گئے۔اخباری رپورٹوں کے مطابق جماعت احرارنے ذمہ داری قبول کرلی ہے۔دھماکوں کے بعدبھگدڑاورچیخ وپکارمچ گئی۔مشتعل مظاہرین نے مشکوک افرادکوزندہ جلاڈالا۔ دھماکوں کے بعدلاہورسمیت ملک بھرمیں مسلم اورعیسائیوں کے درمیان فسادات کاسلسلہ شروع ہوگیا۔ملک بھرمیں ہنگامے ہوتے رہے۔مظاہرین ٹولیوں کی صورت میں گشت کرتے رہے یوحناآبادمیدان جنگ بنارہاپولیس حالات کوقابومیں نہ لاسکی تورینجرزکوطلب کرناپڑا۔ مظاہرین نے پولیس اورصحافیوں کوبھی معاف نہ کیا۔ان پربھی لاٹھی چارج کیا۔فیروزپورروڈگھنٹوں بلاک رہا۔میٹروبسیں روک لی گئیں۔شہریوں کی املاک پرحملے کیے جاتے رہے۔گاڑیوں اورانسانوں پرپتھراؤکیاجاتارہا۔گوجرانوالہ میں مظاہرین نے مشروب سازادارے کی گاڑی لوٹ لی۔ مشتعل مظاہرین نے پولیس ،فرانزک ماہرین اوربم ڈسپوزل کوکئی گھنٹے کرائم سین تک رسائی نہ دی۔مشتعل مظاہرین سے بچنے کے لیے خاتون نے کاربھگادی جس کے نیچے آکرچارسے پانچ افرادکچلے گئے۔ جن میں سے دوفوت ہوگئے۔راناثناء اﷲ نے چرچ میں داخل ہونے کی کوشش کی تومظاہرین نے ان کی گاڑی بھی روک لی۔زندہ جلائے گئے ایک شخص کی شناخت ہوگئی۔جوحافظ نعیم تھا اورشیشے کاکام کرتاتھا۔حافظ نعیم قریبی گھرمیں شیشے کاکام کرنے گیا۔پولیس نے باریش ہونے پرپکڑاتومشتعل ہجوم نے دہشت گردوں کاساتھی سمجھ لیا۔اخباری اطلاعات کے مطابق واہگہ بارڈر، پولیس لائن اوریوحناآبادخودکش حملوں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ داڑھی حافظ نعیم کاجرم بن گئی۔ اگراس نوجوان کی داڑھی نہ ہوتی توکسی کوشبہہ بھی نہ ہوتا کہ یہ کون ہے۔ دہشت گردی پچھلے پندرہ سالوں سے جاری ہے ہم نے ابھی تک یہی سمجھا ہواہے کہ داڑھی والے ہی دہشت گرد ہیں۔کیاکلین شیودہشت گردنہیں ہوسکتا۔دشمن نے کہہ دیاہے کہ داڑھی والے ہی دہشت گرد ہیں ہم نے نہ صرف یقین کرلیا بلکہ اس پرعمل بھی کررہے ہیں۔یہ دشمن کی سازش ہے۔ اس نے یہ دہشت گردوں کی نشانی نہیں بتائی بلکہ مسلمانوں کوسیرت مصطفی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم سے متنفرکرنے کی سازش ہے کہ لوگ مشکوک سمجھے جانے اورپکڑے جانے کے خوف سے اسوہ ء حسنہ سے دورہوجائیں گے۔ یہ ان کی بھول ہے۔ایک بہت بڑی غلط فہمی کی وجہ سے بیگناہ حافظ نعیم موت کے منہ میں چلاگیا۔ صدرممنون حسین کاکہنا ہے کہ حکومت ملک سے دہشت گردی اورانتہاپسندی کی لعنت کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔وزیراعظم نوازشریف نے دھماکوں کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی حکومتیں شہریوں کے جان ومال کاتحفظ یقینی بنائیں۔عوام کے تحفظ کے لیے سیکیورٹی میں اضافہ کیاجائے۔سانحہ کے زخمیوں کوبہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔قومی اسمبلی میں سانحہ لاہورپرایک منٹ کی خاموشی اختیارکی گئی۔پارلیمنٹ کامشترکہ اجلاس بلانے کامطالبہ بھی سامنے آیاہے۔ وزیرداخلہ چوہدری نثارکاکہنا ہے کہ سانحہ یوحناآبادافسوس ناک املاک کونقصان پہنچانادہشتگردوں کاایجنڈاہے۔ سکول،چرچ،مساجدآسان اہداف ہیں۔جوان کے کمزورہونے کی علامت ہیں۔قوم کوتقسیم نہیں ہونے دیں گے۔واقعہ کے ذمہ دارقانون سے بچ نہیں پائیں گے۔حکومت اورمسیحی نمائندوں میں مذاکرات کے بعدبہتری کے آثاردکھائی دے رہے ہیں۔سانحہ کی تحقیقات میرٹ پرہوں گی۔ ا وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کہتے ہیں کہ مسیحی بھائیوں کے غم میں برابرکے شریک ہیں۔لاہورمیں دھماکے ملکی ساکھ پرحملے کے مترادف ہیں۔ قوم دہشت گردوں کوشکست فاش دینے کے لیے متحدہے۔دوافرادکوزندہ جلانے والوں کوفوری گرفتارکیاجائے۔وطن عزیزمیں رہنے والاہرشخص پاکستانی ہے۔کسی کوقانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے۔وفاقی وزیرریلوے خواجہ سعدرفیق کہتے ہیں کہ حملوں کی آڑمیں بے گناہوں کوزندہ جلاناکہاں کاانصاف ہے۔جماعت اہلسنت پنجاب کے ناظم اعلیٰ علامہ فاروق خان سعیدی کہتے ہیں کہ سازش کے تحت ملک کاامن تباہ کیاجارہاہے۔غیرمسلموں کی عبادت گاہوں کوٹارگٹ کانشانہ بناناقابل مذمت ہے۔شہریوں کاتحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔تحفظ نامو س رسالت کاقانون ناگزیرہے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کہتے ہیں کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی سیکیورٹی فول پروف بنائی جائے۔ طاہرالقادری کاکہناہے کہ دہشت گردوں کاراج رہا۔ لاہورمیں سارادن لاشیں گرتی رہیں۔حکومتی ادارے چھٹی پرتھے۔چوہدری شجاعت اورچوہدری پرویزالٰہی نے کہاہے کہ چرچ حملہ افسوس ناک ہے پنجاب حکومت نے پھرنالائقی دکھائی۔فضل الرحمن کہتے ہیں یوحناآباددھماکے قابل مذمت ہیں اورکھلی درندگی ہیں۔سراج الحق کہتے ہیں کہ بے گناہوں کوخون میں نہلادینا بزدلانہ کارروائی ہے۔لیاقت بلوچ، صاحبزادہابوالخیرزبیر،حافظ حسین احمد،الطاف حسین، عبدالغفور؟حیدری،چوہدری مبشرعلی باجوہ،مہرمحمدانورتھند،مجیدخان نیازی،قاری اشفاق احمدسعیدی، نیئرعباس کاظمی،صاحبزادہ احمدحسن باروی، مفتی احمدرضااعظمی، پروفیسر علامہ احمدرضااعظمی، علامہ منیراحمدنظامی، قاری ممتازاحمدباروی، قاری محمدبنیامین چشتی، مولاناالطاف احمدخورشیدی، محمدرفیق نورانی،قاضی سعد اﷲ نقشبندی،جمشید ساحل، حافظ اﷲ بخش باروی، مولانااحمدرضاباروی،ضیاء الرحمن صابری سمیت علماء کرام، عوام الناس نے شدید مذمت کی ہے۔جماعت اہلسنت ضلع وتحصیل لیہ ، تنظیم آئمۃ المساجدجماعت اہلسنت بریلوی ، پاکستان سنی تحریک نے بھی ان حملوں کی مذمت کی ہے۔بشپ آف لاہورعرفان جمیل نے بھی مظاہرین سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے اورکہا ہے کہ وہ اپنے جذبات کااظہارضرورکریں مگراملاک کونقصان نہ پہنچائیں۔

لاہورمیں گرجاگھروں پرحملوں کے بعد شایدکسی کے وہم وگمان میں ہوکہ یہ مسلمانوں نے کیے ہیں یاکرائے ہیں۔ پہلے تویہ بات تسلیم شدہ ہے کہ دہشت گردوں کاکوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اب ایک اوربات بھی تسلیم ہوچکی ہے کہ ان دہشت گردوں کاکسی مذہبی، سیاسی پارٹی سے بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ دہشت گردچاہے وہ کسی مذہب ،کسی سیاسی پارٹی کانام استعمال کرے وہ دہشت گردہی ہے۔یہ مسلمانوں نے نہیں مسلمانوں کونقصان پہنچانے کے لیے کرائے گئے ہیں۔گرجاگھروں پرخودکش حملے کرکے مسلمانوں اورعیسائیوں کے درمیان فسادات شروع کرانے کے لیے ہی کیے گئے۔اسلام غیرمسلموں کی عبادت گاہوں کوتحفظ دیتا ہے نہ کہ ان پرحملے کرنے کاحکم دیتاہے۔مسیحیوں کی عبادت گاہوں پریہ حملے پہلی مرتبہ نہیں ہوئے۔اس سے پہلے پشاوراوردیگر شہروں میں بھی چرچوں پرحملے ہوچکے ہیں۔دشمن ملک میں امن نہیں چاہتا۔ہم پہلے بھی یہ بات لکھ چکے ہیں اب ایک اوراندازمیں ذہن نشین کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دشمن کبھی شیعہ سنی فسادات کراکے ہماری مساجدکوخون میں رنگین کردیتاہے۔ کبھی وہ مزارات پرحملے کراکے مسلمانوں کے امن وسلامتی کے مراکزکوخوف کی علامت بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ کبھی وہ ہسپتالوں، سکولوں ، جنازوں، قل خوانیوں اوردیگر مذہبی ،سیاسی جلسوں کوٹارگٹ بناتاہے۔کبھی وہ مقامات مقدسہ کی زیارت کے لیے جانے والوں کوبسوں سے اتارکرگولیوں کانشانہ بناتاہے۔کبھی وہ علماء کرام اورسیاستدانوں پرحملے کراکے ملک میں انتشارپھیلانے کی سازش کرتاہے۔کبھی وہ غیرمسلموں کی عبادت گاہوں کونشانہ بناکرملک میں مسلمانوں اورمسیحیوں کے درمیان فسادات کرانے کی کوشش کرتاہے۔کبھی وہ ٹرینوں ،گیس پائپ لائنوں، ٹرانسپورٹ اوردیگرسرکاری ونجی املاک پرحملے کرکے قوم کے حوصلوں کاامتحان لیتاہے۔ کبھی کہاجاتاہے کہ پولیوکے قطروں میں حرام اجزاء شامل ہیں یہ بچوں کونہیں پلانے چاہییں۔کبھی پولیوکے قطرے پلانے والی ٹیموں پرحملے کرکے قوم کے نونہالوں کومعذورکرنے کی پلاننگ کی جاتی ہے۔ لاہورمیں گرجاگھروں پرحملے کرکے ملک میں آہستہ آہستہ قائم ہونے والی امن کی فضاکوسبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔پاکستان کواقلیتوں کے لیے غیرمحفوظ ملک قراردلانے کی سازش کی گئی ہے۔ بیرونی طاقتوں کی جانب سے متعدد بارکہا گیا ہے کہ پاکستان اقلیتوں کے لیے غیرمحفوظ ملک ہے۔اب بھی کہا جاسکتا ہے لاہورمیں حالیہ چرچ حملوں کے بعد یہ سطورلکھنے تک تونہیں کہاگیا۔اقلیتوں پرحملے ہندوستان سمیت دیگر ممالک میں بھی ہوتے ہیں۔ ان ممالک کے لیے توکسی نے نہیں کہا کہ یہ اقلیتوں کے لیے غیرمحفوظ ملک ہے۔ حالانکہ اقلیتوں کوبھی اس ملک میں رہنے، عبادت کرنے، کاروبارکرنے کاپوراحق ہے۔ہماری اسمبلیوں میں بھی اقلیتی ممبران اسمبلی بھی موجودہیں۔سرکاری دفاترمیں بھی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افرادکام کررہے ہیں۔اس لیے یہ کہنا سوفیصدغلط ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کوتحفظ حاصل نہیں ہے۔ اگرکوئی یہ کہے کہ اگرپاکستان میں ان کوتحفظ حاصل ہوتاتوان پرحملے کیوں ہوتے۔ اس کاجواب یہ ہے کہ یہ حملے مسلمانوں پربھی ہورہے ہیں بلکہ غیرمسلموں کی نسبت کہیں زیادہ ہورہے ہیں۔ہمارامذہب ہماراآئین غیرمسلموں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے اوران کے انسانی حقوق پورے کرنے کی بات کرتے ہیں۔یہ تواچھاہواکہ حکومت اورمسیحی نمائندوں کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئے۔ ان گرجاگھروں پرحملے آپریشن ضرب عضب اورکراچی کی نئی صورتحال سے توجہ ہٹانے کی کوشش بھی ہوسکتی ہے۔ اورانہوں نے احتجاجی تحریک ختم کرنے کااعلان کردیا۔ میڈیارپورٹس کے مطابق اس اعلان کے بعد بھی احتجاج جاری ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ دہشت گردی کے جواب میں غنڈہ گردی قوم کے ساتھ ظالمانہ رویہ ہے۔جن آبادیوں پرپتھراؤکیاگیا۔ان ہنگاموں میں جتنے افرادہلاک اورزخمی ہوئے ۔کیا وہ ہی ان حملوں کے ذمہ دارتھے۔اس کاجواب یقینا نہیں میں ہے توان بے گناہوں کوکس جرم کی سزادی گئی ۔ان مظاہروں کے دوران جوسرکاری اورنجی املاک کونقصان پہنچایاگیا کیا اس سے دہشت گردوں سے انتقام لے لیا گیا۔نہیں بلکہ اس کاانتقام ان املاک سے ہی لیاگیاہے۔میٹروبس جس پریوحناآبادوالے خودبھی سفرکرتے ہیں۔ اس کوکروڑوں روپے کانقصان پہنچایاگیا کیا وہ دہشت گردوں کواٹھاکے لائی تھی۔بینظیربھٹوکی شہادت کے بعد بھی ہم نے جوش اوراشتعال میں آکراپنے ہی ملک کانقصان کیا تھا۔اب بھی ہم نے اپنے ہی ملک کانقصان کیا ہے۔دشمن ایک طرف خودکش حملے کرکے خوف وہراس پھیلاتاہے ۔دوسری طرف ضروری نہیں کہ حملوں کے متاثرین ہی یہ سب نقصان کرتے ہوں۔متاثرین کااحتجاج کرنا ، سڑکوں پرآجانافطری عمل ہے۔ان میں شرپسندعناصربھی شامل ہوسکتے ہیں جویہ نقصان کرتے ہوں۔

یہ محض اتفاق ہے یاطے شدہ ٹائم فریم اورطریقہ کارکہ ادھرلاہورمیں چرچوں پرحملے ہوئے۔ ادھرہندوستان میں بھی گرجاگھرپرحملہ ہوگیا۔بھارتی ریاست ہریانہ کے ایک گاؤں میں انتہاپسندہندؤوں نے زیرتعمیر گرجا گھر پر دھاوا بول دیا۔ان بلوائیوں نے گرجاگھرسے صلیب ہٹاکرمورتی(بت) رکھ دیا۔ہماری معلومات کے مطابق دنیا بھرمیں ہندوستان ہی وہ اکیلا ملک ہے ۔ جس میں اس جدید اورترقی یافتہ دورمیں بھی بت پرستی ہورہی ہے۔چودہ حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ درج کرلیاگیا ہے۔مگرکوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جاسکی۔ صرف یہی نہیں پاکستان کے قومی اخبارات میں نئی دہلی اورکولکتہ سے خبررساں ایجنسی کے حوالے سے مشترکہ خبرہے کہ بھارتی ریاست مغربی بنگال میں۷۱ سالہ راہبہ کے ساتھ زیادتی کے خلاف اقلیتی برادری نے شدید احتجاج اورمظاہرے کیے۔بعض اضلاع میں شٹرڈاؤن بھی کیاگیا۔تین روزبعد نریندرمودی نے تشویش کااظہارکرتے ہوئے ملوث افرادکے خلاف کارروائی کاحکم دے دیا۔اورمتعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کرلی۔ پاکستان میں بھی تحقیقاتی کمیٹی بنادی گئی ہے۔اس کے اوپریانیچے ایک اورکمیٹی بھی بن سکتی ہے۔گرجاگھروں پرحملوں کی ملک کی تمام سیاسی، مذہبی جماعتوں نے مذمت کی ہے۔حکومت پاکستان ملک سے دہشت گردی اوردہشت گردوں کاخاتمہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ملکی تاریخ کاسب سے طویل آپریشن ضرب عضب بغیرکسی وقفے کے جاری ہے۔ اس آپریشن کے دوران اب تک سینکڑوں دہشت گردہلاک جبکہ ہزاروں گرفتارہوچکے ہیں۔سات سوکمروں سمیت تباہ کن اسلحہ کابھاری ذخیرہ بھی پکڑاجاچکاہے۔دہشت گردوں کے درجنوں ٹھکانے بھی تباہ کیے جاچکے ہیں۔آثاریہی بتاتے ہیں کہ ملک سے دہشت گردوں کے خاتمے تک جاری رہے گا۔دہشت گردی چاہے مسجد میں ہوسکول میں ہویاچرچ میں وہ دہشت گردی ہی ہے اورقابل مذمت ہے۔مشائخ عظام، علماء کرام، سیاستدانوں سمیت پوری قوم دہشت گردی کے خلاف متحد ہے اوراس کا خاتمہ چاہتی ہے۔اوروہ اس کوختم کرکے ہی دم لے گی۔
 
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350880 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.