تقدیر تعلیم و تربیت سے بدلتی ہے
(Syed Mansoor Agha, India)
شمالی ہند میں خوشحالی،
بااختیاری اورفرقہ ورانہ تشدد سے نجات کا وہ خواب ہماراابھی تک شرمندہ
تعبیر نہیں ہوا، جس کے لئے ہم گزشتہ ڈیرھ صدی سے سیاسی جدو جہد کر رہے ہیں۔
حالیہ پارلیمانی چناؤ جس طرح ملک بھر میں مسلم ووٹ بے وزن ہوگیا ہے، اس نے
واضح کردیا ہے کہ سیاسی حربہ غیریقینی ہوگیا ہے۔ اس لئے اب توجہ دوسرے
متبادل کی طرف دی جانی چاہئے جس کا کامیاب تجربہ جنوبی ہند میں کیا گیا ہے
۔ وہ ہے:’’ پڑھو اورپڑھاؤ‘‘؛’’ تعلیمی ادارسازی میں سرمایہ لگاؤ اور دین
ودنیا کی بھلائی پاؤـ‘‘۔ یہی وہ پیغام ہے جو جنوبی ہند کے چنددیدہ وروں نے
اپنے تجربہ کی بنیاد پر گزشتہ اتوار (15 مارچ) شمالی ہند کے بڑے صنعتی شہر
مرادآباد میں ’انڈیا ایجوکیشن کانکلیو‘ میں دیا اورجس پر اہل مرادآباد نے
والہانہ انداز میں لبیک بھی کہا۔
اس حقیقت سے کون انکارکرسکتا ہے کہ دنیا میں اس وقت تک کوئی قوم انقلاب
برپا نہیں کرسکی جب تک کہ اس نے عصری علوم وفنون میں دوسروں پرسبقت حاصل نہ
کرلی ہو اور علمی فتوحات کو اپنی شناخت نہ بنا لیا ہو۔ تاریخ کے اوراق الٹ
کردیکھ لیجئے ، جب عرب کے بدوؤں نے اپنا رشتہ ایمان کے ساتھ انسانیت کے لئے
نافع علوم وفنون طب و جراحت، طبیعات اور مادوں کی کیمیائی صفات (علم کیمیا)،
تاریخ و جغرافیہ، ستارہ شناسی اور جہازرانی وغیرہ سے جوڑ لیا تو ان کے لئے
مغرب تا مشرق، شمال تا جنوب فتوحات کی دروازے کھلتے چلے گئے۔وہ جہاں بھی
گئے، اپنے علم وفضل اوراخلاق کی بدولت دلوں میں گھر کر گئے۔ لیکن جب علوم
وفنون کا دامن ان کے ہاتھ سے چھوٹ گیا، اخلاق میں گراوٹ اور کردار میں
کمزوری آئی، پوری دنیا میں مسلمان بلندی سے پستی کی طرف گرتے چلے گئے۔
خداکا قانون یہ ہے کہ جب ایک قوم مٹتی ہے تودوسری اس کی جگہ لینے کے لئے
اٹھتی ہے۔ چنانچہ دوربدلا۔ قدیم زمانے سے عقائد کی بیجا تاویلات ،پر
تشددنظریات، گوناگوں توہمات اورہزار خرافات میں مبتلا اہل یوروپ نے جب انہی
علوم وفنون سے خوشہ چینی کی، جن کا اولین سہرا مسلم حکماء اوردانشوروں کے
سر تھا،تو ہرمیدان میں آگے بڑھتے چلے گئے۔مسلمانوں کے دوبڑے بڑے امپائر
خلافت عثمانیہ اور سلطنت مغلیہ صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور اہل یوروپ کی طوطی
بولنے لگی۔
زوال کے اس تاریک دور میں ہماری دلچسپیاں شعروسخن کی سرمستیوں اور فقہ کی
باریکیوں میں سمٹ کر رہ گئیں۔بات یہاں تک پہنچی کہ اہل مغرب نے بھاپ کی
طاقت سے ریل ایجاد کی توہم نے اس میں سفر کے خلاف فتوے دیا۔ لاؤڈاسپیکر بنا
تواس کوصوتِ شیطانی قرار دیکر، ممنوع ٹھہرادیا۔ارشاد نبوی ؐتو
ہے:’یسرولاتعسر‘اور ہم دعا بھی کرتے ہیں: ’اللھم یسرولا تعسر‘ اے اﷲ چیزوں
کو ہمارے لئے آسان فرمادے ، ان کو مشکل نہ کر‘‘ لیکن ہم نے دین فطرت کو،
جواس کے اولین مخاطبین کے لئے سہل تھا،آج مشکل بنادیا۔وہ کلمہ پڑھا کرلوگوں
کوایمان میں داخل کرتے تھے اورہم کلمہ گوبھائیوں کے دل کے حال پر، جس کو
خداکے سواکوئی نہیں جانتا، فتوٰی لگاکر کافر قراردیتے ہیں۔اﷲ نے تو قرآن
پاک میں جابجا فرمایا، مظاہرقدرت اورمیری نشانیوں میں غورفکر کرو، ایمان کی
دولت پاؤگے اورہم نے کہا، جو لوگ اس راہ پر چل پڑے، وہ ایمان سے بھٹک گئے،
اس لئے اس غور و فکر سے بچو، ورنہ ایمان جاتا رہیگا۔استغفراﷲ۔ غرض یہ کہ
ہمیں جملہ علوم نافع سے وحشت ہونے لگی اور ہم ان سے دورہوتے ہوتے زوال کا
شکار ہوگئے۔
آج موبائل فون ہرایک کے ہاتھ میں ہے، کمپیوٹر کے بغیر کسی کا گزارہ نہیں،
بجلی نہ ہو، یہ گوارانہیں،بیمارپڑے تو ڈاکٹر کے بنا چارہ نہیں۔ یہ فون کی
گھنٹی، بجلی کی روشنی، یہ طبابت اورجراحت ،سب انہی علوم کی فتوحات ہیں، جن
کی بدولت انسانیت کا بھلا ہورہا ہے ، مگران کو ہم نے دنیاوی ٹھہرایا، حقیر
جانا اور چھوڑ دیا، حالانکہ دنیا کی کسی دوسری چیز سے کنارہ نہیں کیا ۔ ان
کے اولین نقوش بیشک ہم نے ابھارے، مگر ان کے فروغ میں ہمارا کوئی کردار
نہیں رہا۔ان کا استعمال اگر انسانیت کی بہبود کے لئے ہے، تو آخرت میں اجر
خیرسے ناامید کیسے ہوا جاسکتا ہے ؟ لیکن اس کو کیا کہا جائے کہ ہمارے لائق
صد احترم فقہا اور علمائے کرام نے ان علوم میں ہاتھ بٹانا تودورکی بات ، ان
کے حاصل کرنے کو بھی روک دیا۔بیشک یہ قصور دین اور اصول دین کا نہیں،ہماری
فہم اور فراست میں کجی کا ہے۔ کوئی وجہ نہیں اﷲ کا دین انسانیت کے لئے نفع
بخش علوم سے روکے۔ الحمدﷲ اب ماحول بدل رہا ہے اور علمائے کرام بھی عصری
علوم کی طرف متوجہ ہیں۔ مگرمسلکی عصبیتں اورباہمی رقابتیں قوم کی راہ روکے
کھڑی ہیں۔
ہمارے ملک میں ڈیڑھ صدی قبل سیاسی بساط الٹ گئی۔ وہ جیالے جو گھوڑوں کی پشت
پرسوارہوکردرہ خیبر کے اس پار سے آئے تھے، ان کے ہاتھ سے تلوار چھن گئی اور
سپہ گری کا جلال ختم ہوا۔ حکمرانی ہاتھ سے نکل گئی ،مگراس کی خو بو نہیں
گئی۔ بہت کم لوگوں نے صنعت اور تجارت کی طرف رخ کیا ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو
ہزار آفتوں کے باوجود آج بہتر حال میں ہیں۔
محرومی کے اس سیلاب میں ہم نے سیاست کا سہارا لیا۔ ہمارے اسلاف نے غیر
معمولی قربانیاں دیں۔ ہم ان کے جذبہ حریت کو سلام کرتے ہیں، مگر ہمارے ہاتھ
کیا لگا؟ صرف محرومی! تقدیر تو کیا چمکتی، تباہی وبربادی اور خانہ بدری ہم
پر مسلط ہوگئی ۔حالیہ پارلیمانی اوراسمبلی انتخابات نے ہمارے سارے کس بل
نکال دئے۔ سارے سیاسی اندازے الٹ گئے۔وقت پکار پکار کر کہہ رہا ہے مسلمانوں
مسلکی تنگ نظریوں اور بندسیاسی گلیاروں سے باہرنکلو، اگر اپنی قوم کی بہبود
درکار ہے توپھر علوم کی فتوحات کی طرف پلٹو۔ ’’خود پڑھواوردوسروں کو پڑھاؤ‘‘
کے عزم ساتھ ادارہ سازی کرو۔یہی فرقہ ورانہ ہم آہنگی کا نسخہ کیمیا بھی ہے
کہ آپ اپنے اداروں کے دروازے سب کے لئے کھولدیں اور معیار اسقدربلند رکھیں
کہ غیرفرقہ کے لوگ بھی آپ کے اسکولوں کو ترجیح دیں۔ سب کے بھلے میں ہمارا
اپنا بھلا ہوگا۔ مشاہدہ یہ ہے کہ جن افراد نے اپنی جدوجہد سے علم وہنر حاصل
کیا،اس میں کمال حاصل کیا، خوشحالی نے ان کے دروازوں پر دستک دی ہے اور
جنہوں نے اپنے اداروں کے دروازے دوسروں کے لئے کھولدئے ان کے وقار میں
اضافہ ہوا۔
جب ہم زوال کے دور میں داخل ہورہے تھے، ایک آواز سرسید احمد خان کی گونجی
تھی۔ کہابااختیاری سیاست اور قدامت کی طرف پلٹنے سے نہیں، جدیدعلوم وفنون
کی طرف پیش رفت سے حاصل ہوگی۔ جو لوگ متوجہ ہوئے، ان کے حالات بیشک بدلے۔
لیکن بعض وجوہ سے، جن کے ذکر کا یہ موقع نہیں، ان کی یہ تحریک قوم کا رخ
پوری طرح تعلیم کی طرف نہیں موڑ سکی۔سیاست سے دلچسپی کم نہ ہوسکی۔ ان کے اس
جدید ماڈل میں تعلیمی اداروں کی خود کفالت کے بجائے توجہ اہل خیر کے داد و
دہش پر رہی۔ مزاج یہ بن گیا کہ تعلیم کا فروغ محض ایک کار خیر ہے۔
ملک کے جن خطوں میں توجہ تجارت اورتعلیم پر دی گئی، وہاں خوشحالی کا
دورآیا۔ان کو نظام حکومت میں بھی حصہ داری ملی۔ چند علم دوستوں کی پہل کی
بدولت یہ خطے ایک نئے دور میں داخل ہوگئے ہیں۔ان میں اولین نام
ڈاکٹرممتازاحمد خان کا ہے جو خود مسلم یونیورسٹی کے فیض یافتہ ہیں۔انہوں نے
نوجوانی میں اپنا کلینک بند کیا اوربنگلور میں ایک شمع جلائی،نتیجہ یہ کہ
پورے خطے میں تعلیمی تحریک کے مضبوط مراکز قائم ہوتے چلے گئے۔ ان میں ایک
بڑا نام’ ’مسلم ایجوکیشنل سوشل کلچرل آرگنائزیشن‘‘ (میسکو)کا ہے، جس کے روح
رواں تعلیمی تحریک کی ایک قدآور شخصیت ڈاکٹر فخرالدین محمد ہیں۔جنوبی ہند
کے ان روشن دماغ افرادنے ادار ے بنائے اور نئی نسل کو باختیاری، خود
مختیاری اور خوشحالی سے روبروکرایا ۔ یہ ادارے فلاحی خدمات تو انجام دے رہے
ہیں ، مگر خیرات اور صدقات پر تکیہ نہیں کرتے۔ہرادارہ صنعتی اصولوں پر قائم
ہے۔ نظام جتنا چست و درست ہوگا، کارکن جتنے لائق، سرگرم اورمطمئن
ہونگے،کوالٹی کنٹرول پر جتنی توجہ ہوگی، پروڈکٹ بھی اتنی ہی اعلا ہوگی۔
مارکیٹ میں مانگ اورنتیجہ میں منفعت بڑھے گی۔ یہ سب کہنے کی باتیں نہیں، کی
جارہی ہیں اور کامیاب ہیں۔
جہاں تک فنڈز کی فراہمی کا تعلق ہے، ہم بے خبر ہیں، ورنہ اقلیتی تعلیم کے
لئے سرکاری امداد کے اتنے راستے کھلے ہیں کہ اگر شفافیت برتی جائے، ادارے
واقعی کچھ کردکھانے کے قابل ہیں اور ’حکمت‘ سے کام لیا جائے ،توپیسہ کی کمی
نہیں رہتی۔البتہ سینہ کوبی کا مزاج ترک کرنا ہوگا۔ جنوب کے ادارے سرکاری
اسکیموں سے بھرپورفائدہ اٹھاتے ہیں۔ معیار بلندرکھتے ہیں اور اہل ثروت سے
معقول فیس وصول کرتے ہیں، مگر ساتھ ہی اپنی یافت کا بڑا حصہ مالی اعتبار سے
کمزور بچوں کی خبرگیری پرخرچ کرتے ہیں۔خیرات کے لئے ہاتھ نہیں پھیلاتے ہیں
مگر جو مستحق ہوتے ہیں ان کو مایوس ومحروم نہیں رہنے دیتے۔ ان کی دست گیری
انہیں اداروں کی آمدنی سے کرتے ہیں۔
مسلم اقلیت کے زیرانتظام ان اداروں کی ایک بڑی خوبی ،ان کا جامع نصاب
ہے۔جدید علوم وفنون کے ساتھ اخلاقی اور دینی تعلیم و تربیت کی خاص اہمیت ہے۔
یہی وجہ ہے ان کے طلباء کامیاب ہیں اور فراغت کے بعد بسہولت اچھے روزگار سے
لگ جاتے ہیں۔ یہ تعلیمی ادارے ایک فلاحی انڈسٹری کی طرح پھل پھول رہے ہیں۔
’الامین ایجوکیشن اینڈ چیریٹیبل ٹرسٹ‘، اور’ میسکو‘کی دعوت پر ایس آر گروپ
اور چند دیگر صنعتکاروں اور چند تعلیمی اداروں کے تعاون سے زیر تبصرہ
کانکلیو میں بتایا گیا کہ جنوب میں جو کامیاب تجربہ جاری ہے اس کو شمالی
ہند کے اہل ثروت مسلمان اختیارکرلیں توتعلیمی انقلاب آسکتا ہے۔ عزم وحوصلہ
درکار ہے۔رہنمائی پوری پوری کی جائیگی جس میں مالی وسائل کی تنگی آڑے نہیں
آئے گے۔ ہر تقدیر کودرست تدبیر سے بدلا جاسکتا ہے۔ جب مسافر سفر پر نکل
پڑتا ہے تو راستہ بتانے والے بھی مل جاتے ہیں۔
اس بات کا تفصیل سے ذکر آیا کہ نئے ادارے کے قیام میں کن چنوتیوں کا سامنا
کرنا پڑسکتا ہے اوران کو کس طرح حل کیا جاسکتا ہے۔ یہ کالم نویس غوروفکر کی
اس مجلس میں شریک رہا، جس میں تجربہ کی دولت سے مالا مال دانشوروں نے کئی
اہم نکات بیان کئے۔ مثلاپدم شری پروفیسر اقبال حسنین، سابق وی سی کالی کٹ
یونیورسٹی نے روائتی تعلیم پر پیشہ ورانہ اور تکنکی تعلیم کو ترجیج دینے کا
مشورہ دیا۔ سچر کمیٹی کے ممبر سیکریٹری ابوصالح شریف نے پتہ کی بات کہی کہ
زبان کی بڑی اہمیت ہے۔ آج سب سے زیادہ اہمیت کمپیوٹر کی زبان کی ہے۔ انہوں
نے اعداد وشمار دیکر بتایا کہ ملک میں نوجوان آبادی دنیا میں سب سے زیادہ
ہے۔ ان کے ہاتھ میں اگرہنرآجائے تو وہ دولت بن جاتے ہیں۔نامور چارٹرڈ
اکاؤنٹنٹ کمال فاروقی نے ادارے کے لئے زمین کے مسئلہ کا آسان حل بیان کیا
اورادارہ سازی کے ایسے گر بتائے جن کا ذکر پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ ڈاکٹر
فخرالدین نے شراکت اورتعاون کی صورتوں کے خاکہ کے ساتھ ادارہ سازی اوران کو
چلانے کا ایک جامع چارٹر پیش کیا ۔ (ان دونوں صاحبان نے جو نکات بیان کئے
ان کا خلاصہ آئند ہ پیش ہوگا۔ انشاء اﷲ ) ۔دہلی میں الامین ڈاکٹر ممتاز
احمد خان ایجوکیشنل ٹرسٹ کا تو قیام ہی اس مقصد سے ہوا ہے کہ شمالی اور
مشرقی ریاستوں میں جہاں بھی کوئی ادارہ سازی کا عزم کرے اوررہنمائی یا مدد
کا طالب ہو، اس کی معاونت کی جائے۔ اس کے سربراہ انجنئر کلیم الحفیظ ہی اس
کانکلیو کے نگراں وآرگنائزر تھے۔
اس ایک روزہ غوروفکرکے اختتام پر مرادآباد میں چھ اداروں کی تجاویز فوری
طور سے آگئیں۔ امید کی جانی چاہئے کہ آئندہ چند ماہ میں عملی شکل بھی نکل
آئیگی۔جناب سید حامد کی پیشوائی میں آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ نے فروغ
تعلیم کی جوتحریک چند دہائی قبل شروع کی تھی، (جس کا یہ کالم نویس بھی
کارکن ہے) ،وہ بارآور ہوتی نظرآتی ہے۔ ظاہر ہوتا ہے کہ اس خطے میں تعلیم کی
تحریک اب ترغیب اورتلقین کے مرحلے سے گزرکر ترتیب اورتنظیم کے دور میں داخل
ہورہی ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ سوچ بدلی ہے۔ سرکار پر تکیہ کرنے کے بجائے خود
قدم بڑھایا جائیگا ۔ جوادارے ہم قائم کریں گے، ان کا فیض برادران وطن کے
بچوں کو بھی پہنچے گا۔ اس طرح ہم خیرامت کا فریضہ ادا کرسکیں گے جس کوہم
عرصہ سے بھولے ہوئے ہیں۔ اس تاریخی لمحے میں آپ کہاں کھڑے ہیں۔ غورکیجئے
کیا وقت نہیں آگیا ہے کہ آپ بھی اس مہم میں شامل ہوجائیں۔(ختم) |
|