دونوں واقعات غیر انسانی ہیں
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
اس معا ملے پر کوئی دو
رائے نہیں ہیں کہ یو حنا آبادچرچز میں ہونے والے خودکش حملے پندرہ افراد کی
اموات اور 80 کے قریب افراد کا زخمی ہونا ایک ظالمانہ اور سفاکانہ عمل ہے
جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور ملوث افراد کو کیفرکردار تک پہنچانا
حکومت وقت کی ذمہ داری ہے اور عوام کا فرض ہے کہ وہ بلا تفریق رنگ و نسل
بطور پاکستانی کے ان کے دکھ میں برابر کے شریک ہوں لیکن دہشت گردی کی اس
بہیمانہ کارروائی کے بعد مشتعل مسیحی مظاہرین کا دو بے گناہوں کو پکڑ کر
تشدد کرنا اور پھر انہیں نذر آتش کردینا بذات خود بھی سفاکانہ اور غیر
انسانی رویہ اور کھلی دہشت ہے گورنمنٹ کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اس سے پہلے بھی
خود کش حملے ہوئے مساجد پر بھی ہوئے سکول اور مدارس میں بھی دہشت گردوں نے
اپنے ناکام عزائم کا پرچار کیا۔ امام بارگاہوں میں بھی خون کی ہولی کھیلی
گئی بازاروں کو معصوم شہریوں کے خون میں نہلایا گیا۔ اس سے پہلے بھی خود کش
بمباراور دہشت گرد زندہ یا مردہ عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے
ہتھے چڑھے تھے لیکن ان کے ساتھ مذکورہ بالا ایسا کوئی سلوک نہیں کیا گیا۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان کو بھی سولی پر لٹکا یا جاتا۔ سرعام بازاروں
میں گھسیٹا جاتا سروں کو کھمبوں اور دیواروں پر لٹکادیا جاتاکہ وہ توواضح
طور پر ملک دشمن عناصر تھے لیکن آئین و قانون اور انسانیت کا تقاضا اور
معیار یہ سب کرنے سے منع کرتا ہے اور اگر ایسے ہی ہوتا رہے تو پھر عدالتوں
اور لا اینڈ انفورسمنٹ ڈیپارٹمنٹس کا وجود بے معنی ہو کر رہ جائے حکومت کی
رٹ ختم ہوجائے ملک میں افراتفری انتشار اور لاقانونیت کا سیل بے کراں ہوتا
جو تمام لوگوں کو خش و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا اور انسان کیڑے مکوڑوں
کی طرح کچل دیئے جاتے۔ مگر ایسانہیں ہوا۔ظلم کا بدلہ اور انصاف کے تقاضے
ہیں جنہیں پورا کرنا ہوتا ہے ۔ جن دو لوگوں کے ساتھ یہ غیر انسانی سلوک روا
رکھا گیا اس میں سے ایک کی شناخت ہو چکی ہے کہ وہ حافظ نعیم ہے اوراپنے شہر
سے شیشہ خریدنے لاہور آیا تھااور بلوے کی نذر ہوگیا جبکہ دوسرے کے بارے میں
تحقیقات سے معلوم ہوا۔اس کا نام نعمان بابر ہے اور وہ قریب ہی کا رہائشی ہے
اور بلوے کے وقت وہ کہتا رہا کہ یہ مجھے جانتا ہے وہ مجھے جانتا ہے لیکن
خوف کی وجہ سے کوئی اس کا شناسا نہ بنا۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ دونوں دہشت گردوں کے ساتھی تھے یوحنا آباد کے
واقعے میں ملوث تھے تو انہیں قانون کے حوالے کیا جانا چاہئے تھا ان سے
انٹیروگیشن کی جانی چاہئے تھی ان کے دوسرے ساتھیوں، منصوبوں اور کارناموں
کے بارے میں پوچھ پڑتال کی جانی چاہئے تھی جس کی وجہ سے بہت سے مسائل اور
قباحتوں سے بچا جا سکتا تھا۔اب انہیں ماردیا گیااور تمام ثبوت ان کے ساتھ
ہی دفن ہوگئے ۔یہ بہت بڑا نقصان ہوا۔ حالانکہ ان کے پاس کو اس قسم کی کوئی
بھی مشکوک شے برآمد نہ ہوسکی تھی۔اب چلتے ہیں دوسری طرف کہ اگر یہ دونوں اس
واقعے میں ملوث نہیں ان کا اس سانحے سے دور تک کا کوئی تعلق نہ تھا تو ان
بے گناہوں کے جو بے جا خون بہایا گیا اس کا حساب کون دے گا۔غیر اخلاقی اور
غیر انسانی رویہ اپنایا گیا قانون کی دھجیاں بکھیری گئیں۔یاان کا قصور صرف
یہ تھا کہ ان کے منہ پرداڑھی تھی ۔پھر یہ معاملہ یہیں پرنہیں رکا دوسرے دن
مشتعل مظاہرین ایک خاتون کی کار پر چڑھ دوڑے۔ جان بچانے کی خواہش اور مرنے
کے خوف نے اس کو اتنا خوفزدہ کردیا کہ وہ گاڑی پر اپنا کنٹرول کھوبیٹھی اور
پانچ چھ راہ گیروں کو کچل دیا جن میں سے تین جان ہار گئے۔حالات کو کنٹرول
کرنے کیلئے آخر کار رینجرز کو ڈیپیوٹ کرنا پڑا۔
اگر آپ تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو پاکستان سمیت جہاں جہاں یہ کشت و خون کا
بازار گرم ہے اسکا ایندھن صرف مسلمانوں کو بنایا جارہا ہے اور انکی اموات
میں زیادہ تر ہاتھ غیر مسلموں کا ہے اسی طرح پاکستان میں بھی زیادہ تر
مسلمان شہری ہی ان بربریت کا شکار ہوئے ہیں ان کو دہشت گردی کی بھینٹ
چڑھاگیا ہے۔ مسجد مدرسہ سکول امام بارگاہ پولیس اور حتی کے افواج پاکستان
کے بھی کئی یونٹس پر حملے کئے گئے۔محرم الحرام کے جلوسوں کو تہہ و تیغ کیا
گیا جس میں غیر مسلم اور غیر ملکی قوتوں کے ساتھ ساتھ نام نہاد مسلمان بھی
ملوث پائے گئے۔ لیکن مسلمانوں نے کبھی کسی غیر مسلم کو اس بنیاد پر تشدد کا
نشانہ بنایا اور نہ ہی کسی کو قتل کیا۔قرآن کریم کی بے حرمتی اور شان نبی ؐ
میں گستاخی کے کئی واقعات صفحہ ہستی کی تاریخ کو داغدارکر گئے مسلمانوں نے
ان کو مارنے اور قتل کرنے کی بات کی نشان عبرت بنانے کی خواہش کا اظہار
کیاحکومتوں سے مطالبہ کیا لیکن خود کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھایا۔ قانون کو
ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کی۔نقصان صرف اور صرف مسلم کمیونٹی کا ہوا ۔ایک
بات اور کہ اکثر اس بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں
اقلیتوں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں۔حکومتی سپورٹ کا فقدان ہے ان کے حقوق پامال
کئے جاتے ہیں تو یوحنا آباد کے واقعے کے بعد دو افراد کو نذر آتش کرنے کے
باوجود ابھی تک مسلم کمیونٹی کی طرف سے کوئی کارروائی نہ کرنا اس بات کابین
ثبوت ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو حقوق دیئے جاتے ہیں ان کی پاسداری کی
جاتی ہے لیکن ان کا مطلب یہ بھی نہ لیا جائے کہ پھر اقلیتیں اپنی من مانیاں
کرتی پھریں اور قانون کو ہاتھ میں لیں۔لہذا مسیحی برادری سے ایک مرتبہ پھر
عرض ہے کہ یوحنا آباد گرجا گھروں پر حملہ قابل مذمت عمل قابل گرفت فعل اور
انسانیت کی تذلیل ہے لیکن خدارا اس پر صبر کے دامن کو ہاتھ سے مت چھوٹنے
دیں اور دشمن کو خوش ہونے کا موقع مت فراہم کریں۔ اسی طرح حکومت وقت کابھی
اپنے فرائض کو سمجھتے ہوئے جلد از جلد دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے ختم
کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے۔اپنی رٹ قائم کرے ایسا نہ ہو کہ یہ واقعات
کسی اور نہج پر چل پڑیں اس لئے صرف بیانات پر اکتفا ہی نہ کیا جائے
اوردونوں واقعات میں ملوث و مرتکب افراداور عناصرجو کہ کافی حد تک واضح
ہیں،کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ |
|