جہاں سائنس نے ترقی کی ہے وہاں
فراڈیئے لوگوں نے بھی لوٹنے اور دھوکہ دینے کے بعد نت نئے انداز اختیار
کرلیے ہیں ۔اس وقت پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری کا ہے ۔ ملک میں
تین سو سے زائد یونیورسٹیاں اور ایک ہزا ر سے زائد کالجز ہر سال نوجوانوں
کو زیور تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں ۔ گزشتہ 25 سالوں سے سرکاری اداروں میں
ملازمتوں پر پابندی اور ملک میں فیکٹریاں کارخانے اور میگا پراجیکٹس بجلی
اور گیس کی قلت کی وجہ سے بند ہونے کی بنا پر مزید لاکھوں ملازمین سڑکوں پر
آچکے ہیں۔ پہلے شہر میں کسی ایک جگہ انسانوں کی منڈی لگتی تھی لیکن آج
لاہور شہر کی ہر چھوٹی بڑی سڑک اور چوراہے پر انسانوں کی منڈیاں لگی ہوئی
اس لیے دکھائی دیتی ہیں کہ لاہور کے بے روزگار نوجوانوں کے علاوہ چھوٹے
شہروں اور قریبی قصبات کے لوگ بھی بڑے شہر میں روزگار کی تلاش میں روزانہ
آتے ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ کوئی بھی سیاسی یا آمریت کا دور ہو صرف
بااثرلوگوں اور حکومتی عہدیداروں کے عزیز و اقارب تو کم تعلیم کے باوجود
بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں لیکن غریبوں کے وہ بچے جو اپنا سب کچھ
فروخت کرکے کسی بھی شعبے میں ماسٹر ڈگری حاصل کرتے ہیں اکاؤنٹنٹ اورانجنیئر
بنتے ہیں ان کا مقدر اس لیے سڑکوں پر دھکے کھانا ہی بن جاتا ہے کیونکہ
پاکستان میں سفارش اور رشوت کے علاوہ اور کوئی زبان سمجھی نہیں جاتی ۔ خواص
کے علاوہ ایک عام آدمی کے پاس نہ تو سفارش ہوتی ہے اور نہ ہی رشوت دینے کے
لیے پیسہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کے بچے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے
باوجود ہاتھوں میں ڈگریاں لے کر سڑکوں پر دربدر ٹھوکریں کھاتے نظر آتے ہیں۔
اس صورت میں جبکہ حکومت اور انتظامی ادارے بالکل خاموش ہیں تو کچھ اعلی
تعلیم یافتہ نوجوان دہشت گرد گروپوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں روٹی کی بھوک اور
پیسوں کا لالچ انہیں اپنے ملک میں تباہی پھیلانے پر آمادہ کردیتا ہے اس وقت
جبکہ حکومت دہشت گردوں کے خلاف آخری معرکہ آرائی کا اعلان کرچکی ہے تو اسے
اس بات پر بھی غور کرنا چاہیئے کہ ہمارے اپنے بے روزگار نوجوان کیوں اور
کیسے دہشت گردوں کے لیے سہولت کار بن رہے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ بے
روزگاری ہے۔اس بدترین صورت حال میں درجنوں جعلساز اور فراڈیئے لوگ بھی
میدان میں اتر آئے ہیں وہ روزانہ اخبارات میں اشتہار دیتے ہیں کہ ملٹی
نیشنل کمپنی کو میل اور فی میل سٹاف کی ضرورت ہے تنخواہ 16 سے 40 ہزار تک ٗ
تجربہ بھی ضروری نہیں ٗرہائش اور کھانا فری ٗ مہیا کیاجاتا ہے۔ ایسے
اشتہارات کو دیکھ کر مصیبت کے مارے بے روزگار نوجوان رابطہ کرتے ہیں تو ان
سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ آپ پہلے 20 ہزار روپے بطور سیکورٹی کمپنی میں جمع
کروائیں پھر آپ کو ملازمت مل جائے گی۔مالی پریشانیوں میں ڈوبا ہوا وہ
نوجوان امید کی کرن لے کر گھر آتا ہے اپنے والدین کو سہانے خواب سناتا پھر
کہیں نہ کہیں سے 20 ہزار روپے روزگار کا وعدہ کرنے والی کمپنی میں جمع کروا
دیتا ہے ۔کمپنی والے ایک دو ہفتے کا وعدہ کرکے اسے گھر بھیج دیتے ہیں لیکن
جب وہ دو ہفتوں کے بعد کمپنی کے دفتر پہنچتا ہے تو پتہ چلتا کہ وہ تو
ہزاروں بیروزگار نوجوانوں کے لاکھوں روپے لے کر رفوچکر ہوچکے ہیں۔بے
روزگاری کا عذاب تو پہلے ہی موجود تھا اس پر 20 ہزار کا قرض بھی واپس کرنا
ایک اور عذاب بن جاتا ہے۔ ایسے نوجوان کہاں انصاف کے لیے جائیں ۔تھانوں میں
شکایت درج کروانا تو اپنی جگہ بہت مشکل ہے لیکن عدالتوں میں انصاف کے لیے
جانے والوں کو سالہاسال تک دھکے الگ کھانے پڑتے ہیں انصاف پھر بھی نہیں
ملتا۔ چنانچہ اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جعلساز بہت آسانی سے فائدہ
اٹھا رہے ہیں۔ اسی طرح ڈبل منافع دینے والی کمپنیوں کی لوٹ مار تو اب معمول
کی بات ہوچکی ہے جو پنشنر یا عمر رسیدہ لوگ زائد منافع کے لیے فنانس
کمپنیوں میں پیسہ جمع کرواتے ہیں وہ اصل رقم سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں
جرائم کو روکنے والے ادارے تو موجود ہیں لیکن وہ اس وقت حرکت میں آتے ہیں
جب چور ٗ چوری کرکے ملک سے باہر بھاگ جاتاہے۔آج کل نوجوان نسل کا ماڈلنگ
اور اداکاری کی طرف رجحان دیکھ کر جعلسازوں نے ماڈلنگ اور اداکاری کے نام
پر بھی مکروہ دھندہ شروع کررکھاہے۔ اخبارات میں اشتہارشائع کرواتے ہیں کہ
انہیں ٹی وی ڈرامہ سیریل ٗ ماڈلنگ اور فلموں کے لیے نئے چہروں کی ضرورت ہے
اور ساتھ ہی کسی لڑکی کا نام اور موبائل نمبر لکھ دیا جاتا ہے ۔نوجوان لڑکے
ٗ لڑکی کا نام دیکھ کر نہ صرف متاثر ہوتے ہیں بلکہ کال کر ان کے دفتر میں
پہنچ بھی جاتے ہیں ۔چند خوبصورت جسم فروش لڑکے اور لڑکیاں انہیں خوش آمد ید
کہتی ہیں اور اپنے جال میں پھنسا کر ان کے جنسی ہیجان والے سین بھی قلمبند
کروا لیے جاتے ہیں جب یہ بیہودہ تصویریں بن جاتی ہیں تو پھر ایسے نوجوانوں
سے بھاری رقم کا تقاضا کیا جاتا ہے کہ اگر انہوں نے مطلوبہ رقم نہ دی تو ان
کی تصویریں اخبارات میں شائع کردی جائیں گی۔یہ کام اتنی مہارت سے کیاجاتا
کہ ہیرو اور ہیروئن بننے کے جنون میں مبتلا شریف گھرانوں کے لڑکے اور لڑکیا
ں نہ صرف اپنی عزت اور عصمت کھو بیٹھتی ہیں اور ہمیشہ کے لیے جنسی جرائم کی
دنیا کا حصہ بن جاتی ہیں بلکہ انہیں راز داری کی بھاری رقم بھی ادا کرنی
پڑتی ہے۔دوستی کیجیئے ۔ایک اشتہار میری نظر سے گزرا میں نے دیئے گئے موبائل
پر فون کیا تو ایک لڑکی بولی میں نے اشتہار کے بارے میں پوچھا لڑکی نے
بتایا کہ ہم نے ایک ڈائریکٹر ی پرنٹ کروائی ہے جس میں پانچ ہزا ر سے زائد
لڑکیوں اور لڑکوں کے موبائل نمبر اور تصویریں بھی ہیں آپ کو جو اچھی لگے اس
کے موبائل پر بات کرکے دوستی کرسکتے ہیں۔یہ جسم فروش گروپ کا ایک اور حربہ
تھا اس ڈائریکٹری کی قیمت تین ہزار بتائی گئی۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک
مخصوص ذہنیت کے لوگ ہماری نوجوان نسل کو جنسی جرائم اور ہیجان میں مبتلا
کرکے دشمن کے مقاصد جلد سے جلد پورا کرنا چاہتے ہیں ۔نہ حکومت کو ایسے
گروہوں کو لگام ڈالنے کی فرصت ہے اور نہ ہی انتظامی ادارے اس طرف توجہ
کررہے ہیں۔جو میری نظر میں معاشرتی المیہ ہے اگر اسی طرح نوجوان نسل کو
برباد ہونے دیا گیا تو پاکستان کا مستقبل کبھی روشن نہیں رہ سکتا۔وہ نوجوان
جنہوں نے آگے بڑھ کر ملک کی بھاگ ڈور سنبھالنی ہے اگر وہی نشے ٗ جنسی ہیجان
ٗ جرائم میں مبتلا ہوگئے تو پاکستان کو کون بچائے گا۔ اس جعلسازی میں آخری
کیل محکمہ ڈاک نے ملک بھر سے چند آسامیوں کااعلان کرکے درخواستوں کے ساتھ
دو سو روپے پوسٹل آرڈرمانگ کر کروڑوں روپے اکٹھے کرلیے اور اب طویل خاموشی
ہے۔ |