مکتبۂ فکر

جسے ہم اردو میں مکتبۂ فکر کہتے ہیں، اسے عر بی میں مد رسۃ الفکر کہتے ہیں اورا نگریزی میں اسے سکول آ ف تھا ٹ(school of thought) یا تھینک ٹینک(think tank)کہا جا تا ہے، دنیامیں قوموں کا عر و ج و زوا ل مکتبہا ئے فکر کے مر ہو نِ منت ہے، کہتے ہیں امریکی شہر وا شنگٹن میں 35ہزار تھنک ٹینکز ہیں، جو ملک اور قو م کی تر قی ،با لا دستی اور اثرو نفو ذ کیلئے دن رات مختلف زا ویوں سے مصروفِ عمل رہتے ہیں اقو ام ، قبا ئل ، مما لک ،ادیان و مذا ہب ،فر قوں ، مکا تب ، نظریا ت ،عقا ئد ،اداروں اور نظا موں سے لے کر ا یک ایک با اثر شخصیت تک کا تجزیہ کرتے ہیں، ان کے شرور سے اپنے ملک کو بچا تے ہیں اور ان کی صلا حیتوں سے اپنے لئے مفا دات کشید کر نے کے متنوع طریقے تلا ش کر تے ہیں، سر کا ری سطح پر یہ کام بڑے پیما نے پر ہو رہا ہے اور نجی شعبے میں بھی رپورٹیں تیا ر کر کے متعلقہ ادا روں کو بیچے اور بھیجے جا تے ہیں، سا دہ لوح اقوام یہ سمجھتی ہیں کہ امریکہ صر ف اپنے ایک خفیہ ادارہCIAپر اعتماد کر تاہے اور سی آئی اے کا ایجنٹ ہی امریکہ کا ایجنٹ ہوتاہے، جب کہ یہ پو ری حقیقت نہیں ہے، کیوں کہ امریکہ اور تمام طا قتور ملکوں کے شہری جس میدان میں بھی ہوں، با لخصوص میڈیا اور این جی اوز میں ،وہ جہاں اپنے فرا ئض کی انجا م دہی میں مگن ہو تے ہیں، وہیں بہت سے لو گوں کوباقاعدہ تنخواہ پر ،یا کچھ اعزا زیہ دے کر ،یامستقبل کی کو ئی رو شنی دکھاکر ان کے ذریعے مطلوبہ نتائج و حقا ئق تک پہنچنے کی کو شش کر تے ہیں ،یوں یہ کبھی دانستہ اور کبھی نادانستہ ایجنٹی ہوتی ہے،گوکہ یہ بہت پُرپیچ،تہہ بہ تہہ او رلمبی کہا نی ہے ،لیکن مختصراًاس کو سمجھنے کیلئے اتنا سمجھنا کا فی ہے کہ بر طا نو ی استعما ر نے جو کالونیز اور نو آبا دیا ت قا ئم کی تھیں، یا سو ویت یو نین نے جن ملکوں کو اپنے ملک یا یو نین میں ضم کیا تھا ،وہاں ایک طر ف ان اقو ام و مما لک کے حقو ق اور دفا ع کا بو جھ تھا ،تودو سری طر ف ان بڑی طاقتوں کے خلاف آ زا دی کی تحریکیں بھی چلتی تھیں، چنانچہ امریکہ نے اپنی استعماری بالادستی قا ئم ر کھنے کیلئے فکر و نظر کی جنگ لڑی، نو آ با دیا ت کا یادوسرے ملکوں کو اپنے ملک میں ضم کر نے کا نہیں سوچا، اس حوا لے سے فلسطین کی مثال سا منے ہیں،جہاں عرب عوام کی تحر یکا تِ انتفا ضہ سے امر یکہ اور اسرا ئیل جا ن نہیں چھڑا سکتے، بد نا می بھی ہو رہی ہے،گویا فلسطین وہ ہڈی ہے ،جو ان کے حلق میں اس طرح پھنسی ہو ئی ہے کہ نگلنا ور اُگلنا دونوں ہی مشکل ہے، اس لئے امریکی استعما ر کے خدو خال بنیا دی طو ر پر یہ تھے اور ہیں کہ بظا ہر آپ آ زاد اور آپ کا ملک آ زاد لیکن ’’چلے گی ہما ری‘‘، یعنی طا قت کے مرا کز پر گرفت ان کی پالیسی ہے، اگر کہیں کوئی خو د سے اپنی ظا ہری آ زا دی کو ملک و قو م کی حقیقی آ زا دی سمجھ کر انحرا ف کر تا ہے، تو اس سے ایسا سبق سکھا دیتے ہیں کہ وہ دو سرں کیلئے نشا نِ عبرت بن جا تا ہے ،اسی لئے امر یکی سیا ست کے لا محدود مکا تب فکر کی بدو لت ان کا طریق وا ردا ت ہر کہترومہتر کے سمجھنے کا نہیں ہو تا۔

بہر حال جو بھی ہے ،ہر ملک کو اپنے مفا دات کے تحفظ کیلئے اس قسم کے اقدامات کر نے پڑ تے ہیں، اب ہم مسلم مما لک یا صر ف پا کستان اگر دنیا میں با عزت اور با وقا ر مقا م حا صل کر نا چا ہتے ہیں، تو ہمیں اپنے یہاں مد ر سہ ٔدرس کو’’ مکتبۂ فکر‘‘ میں تبدیل کر نا ہو گا، نیز مستقل سکو لز آف تھا ٹ اور تھنک ٹنیکز قا ئم کر نے ہو ں گے ،میڈیا اور این جی اوز کو بھی قدم بقدم نظریا تی وفکر ی اساس پر استورکر نا ہوگا، پا ئیدار حل کیلئے تکفیری عنا صر ہوں یا تخریبی ،تشکیکی ہوں یا لادینی ،سب کوفکر ونظرکی جنگ میں شکست دینی ہوگی،ٹھوس حکمت ِ عملی سے ان کے خلاف کام کرنا ہوگا،دلیل ومنطق اور فلسفے کی زبان میں مذہب وریاست بیزار لوگوں کو قائل کرنا ہوگا،دیرپا اور حقیقی حلول تلاش کرنے ہوں گے،کہیں کہیں بظاہر ہی سہی ،کچھ نہ کچھ ان کی باتوں کا لحاظ کرنا ہوگا،مسائل حل کرنے کے لئے ’’کچھ لو اورکچھ دو‘‘ کو سامنے رکھنا ہوگا۔

اکبر نے جب دینِ اکبری کی بنیاد رکھی،اپنا الگ کلمہ متعارف کرایا،اسلام،ہندومت،سکھ مت اور مجوسیت کا اچار بناکے ایک نئے دھرم کو مسلم بر صغیر میں نافذ کیا،تو مجدد الف ثانی نے جنگ وجدل سے نہیں اپنے مکاتیب سے اس کا ایساتوڑ کیاکہ آج روئے زمین پر دین اکبری کا نام ونشان نہیں ہے۔ اس کے بعد جب یورپ بامِ عروج پر پہنچا،ان سے متأثر ہوکرہندوستان کے بھی لیل ونہار بدلنے لگے،عقل کے تناظر میں فتنۂ شکوک وشبہات کا دور آیا، دینِ اسلام کے مقاصد پر عقل کا وار ہوا،الحاد وزندقے اور دہریت نے عقل کو بنیاد بناکر اسلامی شرائع و احکام کو خلافِ معقول قرار دلانے کی کوششیں کیں،وحي پر عقل کو جدید معتزلہ ترجیح دینے لگے،تو امام الہندشاہ ولی اﷲ محدث دہلوی نے اپنی لازوال تصنیف ’’حجۃاﷲ البالغہ‘‘ لکھ کر اس کا وہ توڑکیاکہ عقل پرست اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔پھر جب ہندوستاں میں مغربی اقوام کا داخلہ اور تسلط قائم ہوا،مشاہدات اور محسوسات کے تناظر میں فتنۂ تشکیک في الدین کا ظہور ہوا،جدید سائنس نے عقل کے بجائے حواسِ خمسہ سے دین کی دیواروں کو ہلانا شروع کیا، تو مولانا قاسم نانوتوی اور دیگر تمام اہل حق نے جہاد چھوڑ کر اپنے اپنے مکتبہائے فکر کی بنیادیں رکھ دیں،افسوس اِن ہی مکتبہائے فکر ،تھنک ٹینکزاور سکولز آف تھاٹ کو اُن کے پیرو کاروں نے فرقوں یا صرف مدرسوں میں بدل دیا،آج پھر سے ہمیں فکر ونظر پر مبنی، حقیقی و تحقیقی مکاتبِ فکر کی ضرورت ہے۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877983 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More