ہم مسلمان ہیں اور مسلمان اس وقت
تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک وہ اللہ ، اسکے رسول ﷺ اور قرآن مجید پر
ایمان نہ لے آئے، اور جب اللہ اسکا رسول ﷺ اور قرآن اکٹھے ہوتے ہیں تو
شریعت بنتی ہے، ہم اگر شریعت سے قرآن مجید کو خارج کر دیں تو شریعت باقی
نہیں رہے گی، ہم اگر اس میں سے معاذاللہ رسولﷺ کو نہ مانیں تو بھی شریعت
باقی نہیں رہے گی، ہم اس میں سے اللہ کا انکارکر دیں تو بھی شریعت باقی
نہیں رہے گی، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف یہ عقیدہ رکھنا کافی ہے ؟ یا اللہ
تعالی کی تعلیمات جو اس نے پیغمبر ﷺ اور قرآن کےذریعہ ہم تک پہنچائی اس پر
عمل پیرا ہونا ضروری ہے؟ اور اُن تعلیمات میں سے سب سے اہم علم ہے۔
علم کی اہمیت قرآن اور حدیث دونوں کی رو سے واضح ہے، قرآن علم کی اہمیت کے
بارے میں کچھ یوں بیان کرتا ہے: " کیا وہ لوگ جو علم نہیں رکھتے اور وہ جو
علم رکھتے ہیں برابر ہیں؟ " اسی طرح حدیث مبارکہ میں علم کی اہمیت کے بارے
میں آیا ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اورعورت پر فرض ہے۔ جنگ بدر میں
جب کفار کو قیدی بنایا گیا تو پیغمبر اسلام ﷺ نے اُن قیدیوں کے لیے آزادی
کا اعلان کیا کہ جو ایک مسلمان کو پڑھنا لکھنا سکھائے گا، اس آیت ، حدیث
اور داستان سے خدا اور پیغمبر ص کے نزدیک علم کی اہمیت کا اندازہ بخوبی
لگایا جا سکتا ہے۔اگر ہم تاریخ پر اک نگاہ کریں تو ہمیں اسی شریعت پر عمل
پیرا بہت سی شخصیات ملیں گی جیسے فارابی، جابر بن حیان،زکریا رازی ،بو علی
سینا ،ابن رشد،سعدی شیرازی وغیرہ، کہ جن کی وجہ سے مسلمان دنیا میں ساتویں
صدی تک مکہ سے سپین اور افریقہ سے کاشغر تک راج کرتے دکھائی دیتے ہیں ،دنیا
کا ہر کونہ ان صاحب علم شخصیات کی وجہ سے علم اور امن کا گہوارہ دکھائی
دیتا تھا، موجودہ دور میں بھی تمام علمی پیشرفت انھی مسلم شخصیات کی مرہون
منت ہے، اور بعد ازاں اسی علم سے دوری کی وجہ سے مسلمان کے لیے پستی کی ایک
لازوال داستان کا آغاز ہوا کہ جو ابھی تک جاری ہے،کیا ہمآج مسلمان ہونے کے
ناطے اسلام کی ان تعلیمات پر عمل پیرا ہیں؟
اگر عصر حاضر میں اسلام کی صورتحال کا جائزہ لیں تو اسلام کی صورت بگاڑ کے
پیش کی جا رہی ہے ، طالبان اور داعش کو اسلام کا علمبرار پیش کیا جا رہا ہے
کہ جو اسلام ناب محمدی کی الف ب سے بھی واقف نہیں، جن تعلیمات کا درس
پیغمبر اسلام نے اپنی عملی زندگی مدینہ میں مسلم حکومت قائم کر کے پیش کیا
کہ جہاں نہ صرف مسلمان آباد تھے بلکہ ان کے ساتھ ساتھ یہودیوں کو بھی وہاں
رہنے کے تمام وہ حق حاصل تھے جو مسلمانوں کو حاصل تھے، آج یہی طالبان اور
داعش دنیا میں صرف انکی فکر کو ماننے والوں کو مسلمان اور باقی سب کو نہ
صرف کافر بلکہ ان کو زندگی گزارنے کا حق بھی نہیں دیتے، پیغمبرﷺ نے آج سے
چودہ سو سال پہلے جس علم کو مرد اور عورت کے لیے مساوی طور پر فرض قرار دیا
، یہ درندے آج سکولوں پر حملہ کرتےہیں اور سیکڑوں معصوم بچوں کو شہید کر
دیتے ہیں، مسجد پر حملہ کرتے ہیں اور نمازیوں کو شہید کرتے ہیں، میلاد پر
حملہ کرتے ہیں اور وہاں بھی مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگین کرتے ہیں، چرچ
پر حملہ کرتے ہیں اور مسیحی بھائیوں سے زندگی گزارنے کا حق چھین لیتے ہیں،
پاکستان سے ہٹ کر دوسرے ممالک میں قتل وغارت کرتے نظر آتے ہیں، شام میں
لوگوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے، عراق میں آتے ہیں تو لوگوں کو بے دردی
سے قتل کرتے ہیں،ایک ہی دن میں 1700 سٹوڈنٹس کو عراق میں شہید کر دیتے
ہیں،قیدیوں کے ساتھ جس حسن سلوک کے مثال پیغمبرا سلام ﷺ نے اپنے دور پیں
پیش کی اس کے برعکس یہ لوگ قیدیوں کے گلے کاٹتے ہیں ان کے سروں کو فٹبال
بنا کے کھیلتے ہیں، اور جب عراقی فوج ان پر حملہ کرتی ہے تو یہ کہتے ہوئے
کہ مجھے رسول ﷺ نے خواب میں حکم دیا ہے کہ اس علاقے سے بھاگ جاوَ ، بھاگ
جاتے ہیں، جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم اسرائیل پر حملہ کیوں نہیں کرتے تو
کہتے ہیں کہ ہمیں خدا نے اسرائیل پر حملہ کرنے کا حکم نہیں دیا ،کیا جس
اسلام کی بات یہ لوگ کرتے ہیں کیا حقیقی اسلامیہی ہے ؟یا اس سے بالکل جدا
کیا پیغمبر ﷺنے بیان نہیں فرمایا کہ وہ شخص مسلمان نہیں کہ جس کے ہاتھ اور
زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ نہیں،تو کیا کسی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ لوگوں
کو اس طرح بے دردی سے ماریں، اگر پاکستان پر نگاہ کریں تو احتجاج کے دوران
لوگوں کی جان اور مال کی پروا نہیں کی جاتی اور جس اسلام میں جانورں کے
ساتھ نرمی سے پیش آنے کی تلقین کی جاتی ہے وہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں
لوگوں کو زندہ جلانے کے واقعات پیش آتے ہیں، وطن پاکستان علم اور اسلام کی
صورتحال کا جائزہ لیں تو ہمیں ہر طرف مسلمان نظر آئیں گے، کوئی سنی مسلمان
تو کوئی شیعہ مسلمان، کوئی بریلوی تو کوئی دیوبندی۔ اور سب کے سب خود کو
سچا مسلمان اور دوسروں کو جھوٹا ثابت کرنے میں مصروف ہیں، اسلام کی باتیں
سب کریں گے لیکن کوئی بھی شریعت اور اسکی تعلیمات پر عمل کرنے کی بات نہیں
کرے گا ،کیا اسلام اور پیغمبر ص کی تعلیمات ہمیں یہی سکھاتی ہیں کہ ہم خود
کہ ٹھیک اور دوسروں کہ غلط ثابت کریں، یایہ تعلیمات ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ
ہم دوسرےمسلمانوں پر کفر کے فتوے لگائیں،یا یہ تعلیمات اس سے ہٹ کر بھی کچھ
سکھاتی ہیں، اگر آج تمام مکتب فکر کے علماء اکٹھے ہو جائیں اور مذھبی
اختلافات کو بھلا کر ایک مسلمان ہونے کے ناطے کہ جو خدا اور پیغمبر ﷺ پر
ایمان رکھتا ہے کے ناطے سے مسائل کے حل کی طرف توجہ دیں اور لوگوں کو اسلام
ناب محمدی کی تعلیمات سے روشناس کرائیںکہ جسکا سب سے اہم جز علم ہے، لوگوں
کو علم کی اہمیت سے آگاہ کریں اور انکو علم حاصل کرنے کی ترغیب دینے سے نہ
تو کوئی طالبان کا حامی بنے گا نہ کوئی داعش سے رشتہ جوڑے گا، نہ کسی سکول
پر حملہ ہو گا نہ کسی مسجد میں بم دھماکہ، نہ کسی محفل میلاد میں لوگ شہید
ہوں گے، نہ چرچ میں کسی کی جان جائے گی، تعلیمات اسلامی میں سے صرف علم
حاصل کرنے کی طرف توجہ دے کر مسلمان اپنی کھوئی ہوئی شان و شوکت واپس حاصل
کر سکتے ہیں اور پوری دنیاکو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔ |