قربانی اور ایثار کا دوسرا نام عورت ہے اور جب یہی عورت
ماں کے روپ میں ہوتی ہے تو کبھی کبھی قربانی اور ایثار کی ایسی مثال قائم
کر جاتی ہے جس کی تاریخ میں کوئی نذیر نہیں ملتی- ایسی ہی ایک ماں کا تعلق
مصر سے ہے جو گزشتہ چالیس سے مرد کا روپ دھارے اپنے گھر کی کفالت کر رہی ہے-
|
|
ہم بات کر رہے ہیں پینسٹھ برس کی سیسا جابر کی جو چالیس سے زائد عرصے سے
مردانہ لباس زیب تن کیے اپنے گھرانے کفالت میں مصروف ہیں- گزشتہ اتوار کے
روز مصر کے صدر عبدالفاتح السیسی نے ان کی خدمت کا اعتراف کرتے ہوئے’’کفالت‘‘
ایوارڈ سے نوازا۔
عرب دنیا میں گزشتہ ہفتے مدرز ڈے منایا گیا اور اس موقع پر وزارتِ سماجی
یکجہتی کی جانب سے سیسا جابر کے ایثار اور قربانی کے جذبے کو سراہتے ہوئے
’’کفالت‘‘ ایوارڈ دیا گیا ہے۔
سیسا جابر جب اکیس برس کی عمر میں بیوہ ہوگئیں تھی اور وہ اس وقت حاملہ
تھیں- شوہر کے انتقال کے بعد انہوں نے اپنی اکلوتی بیٹی کی کفالت اور بہتر
مستقبل کے لیے مرد کا روپ دھار کر کام کرنا شروع کردیا۔
|
|
محنت و مشقت سے بھرپور اپنے اس چالیس سال میں سیسا جابر نے مردوں کا روایتی
ڈھیلا ڈھالا لباس پہن کر موچی، مزدور اور کاشتکاری کا کام کیا۔
سیسا جابر کا کہنا ہے کہ ’’میں نے اپنے، اپنی بیٹی اور اس کے بچوں کے لیے
کئی محنت طلب کام کیے جیسے کہ اینٹیں اور سیمنٹ کی بوریاں اُٹھانا٬ جوتے
پالش کرنا یا پھر کاشتکاری کرنا وغیرہ‘‘-
’’میں نے خود کو مردوں کی بُری نظروں سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک مرد کے طور
پر کام کرنے کا فیصلہ کیا، اور مردوں کے لباس میں ایسے دیہاتوں میں مزدوری
کی جہاں کوئی مجھے جانتا نہیں تھا‘‘ - |