سانحہ یوحنا آباد پر چند کلمات
(ٰIftikhar Ul Hassan Rizvi, Gujranwala)
دین کے نام پر فرقے، پھر ان
فرقوں میں کوئی مشرک تو کوئی بدعتی ٹھہرا، کوئی مرتد کہا گیا تو کوئی
گستاخی کے نام پر دیوار میں چُنا گیا۔۔۔ اسلام میں فرقوں کے جال سے باہر
نکلیں تو پاکستانیت کا نا ختم ہونے والے سیاپا۔ کوئی سندھی، بلوچی، پٹھان،
پنجابی ، کشمیری، تو کوئی سرائیکی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس شکنجے سے باہر
نکلیں تو شہر کے ہر گوٹھ میں کوئی نہ کوئی دادا گیر ہے جو تقسیم در تقسیم
کے بعد مزید حساب لگا کر اس زمین کے ٹکڑے کو شمالی و جنوبی اور شرقی و غربی
کے حساب سے تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ تقسیم کے منصوبوں پر عمل پیرا اس قوم کا
ہر پیر و جوان پوری توانائی بلکہ پوری زندگی دانستہ و نادانستہ ایسے ہی
گزارے جا رہا ہے اور انجام سے نِرے بے خبر بلکہ سماعت، بصارت اور دردِ دل
سے یکسر محروم ہیں۔ ہندو مسلم فسادات نریندر مودی کے دیس میں ہوا کرتے ہیں،
پاک سرزمین ایسے ناپاک منصوبوں سے مبرا تھی، عیسائیوں کے تنازعات کا پس
منظر وہی ہے جو افغانستان کی نزدیکی پہاڑیوں میں بیٹھے بھیڑئے کا ہے۔ کسی
شریف النفس پاکستانی نے کبھی بھی عیسائیوں کو اقلیت ہونے کا احساس تک نہیں
دلایا، میرے ہم جماعت پیٹر، فلپس، وارث، شجاع جیسے کئی عیسائی تھے، گورنمنٹ
ہائی سکول نارووال میں ماسٹر مقبول صاحب بھی عیسائی ہی تھے۔ لاہور میں لگی
ہوئی آگ بہت ساری غلطیوں کا خمیازہ ہے۔ جلنے والے جل گئے، جل کر بھسم ہو
گئے، ہڈیاں راکھ بن گئیں بلکہ رزقِ ہوا ہو گئیں مگر گورکھ دھندہ ایسا کہ
ابھی تک کوئی حتمی خبر نہیں کہ حقائق کیا ہیں۔ ۔۔ قومی پرچم نذرِ آتش ہونے
کی خبریں بھی نشر ہوئیں، جلائے جانے والے دونوں افراد کی لاشوں کو گھسیٹا
گیا، لٹکایا گیا اور بعد میں جشن بھی منایا گیا۔
گوجرہ کے عیسائی ہوں یا کوٹ رادھا کشن کے، سیالکوٹ کے دو جوان بھائی ہوں یا
خود کش حملوں میں مارے جانے والے بے گناہ افراد یہ دہشت گردی ہے اور اس میں
کوئی دو رائے نہیں۔ مگر تقسیم در تقسیم کے مراحل سے گزرتی ہوئی اس قوم کے "دلال"
منافقت کا بہت بڑا "سٹاک" لئیے بیٹھے ہیں۔ پاکستان میں جب کوئی مرتا ہے تو
مذہب سے بالا تر ہو کر سوچنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ایک مسلم یا عیسائی کے
علاوہ ایک انسان اور پاکستانی بھی تھا۔ لاہور میں جلائے جانے والے دونوں
افراد کا اس واقعہ سے کوئی تعلق ابھی تک سامنے نہیں آیا اور وہ بھی عام
مشاہدین کی طرح وہاں موجود تھے، فرق صرف اتنا ہے کہ وہ وضع قطع سے مسلم لگ
رہے تھے تو عیسائیوں نے ان کو مسلم اور داڑھی والا ہونے کی وجہ سے دہشت
گردا سمجھا اور انہیں دبوچ لیا۔ اس واقعہ کے بعد کئی دنوں تک چند ایک تجزیہ
کاروں نے ڈرتے ڈرتے اس کی مذمت کی۔ اصل معاملہ سوشل میڈیا نے اٹھایا۔ اتنے
دن گزر جانے کے بعد ابھی تک ملکی الیکٹرانک میڈیا اس واقعہ کی مذمت اس طرح
نہیں کر رہا جس طرح سلمان تاثیر، رادھا کشن، گوجرہ یا اس جیسے ماضی میں
ہونے والے واقعات پر سیاست کی گئی۔ پس پردہ وجہ صرف یہی تھی کہ آقاؤں نے
زبان بندی کر رکھی تھی اور یہاں عیسائیوں نے مارا، مسلم مرے۔ اگر عیسائیوں
کے خلاف زبان کھولی گئی تو مغرب ناراض ہو گا۔
قادیانیوں کے حقوق، عیسائیوں کے تحفظ اور سلمان تاثیر کے لئیے انصاف چاہنے
والے بڑے بڑے منہ اور جل پریاں منظر سے ہی غائب ہیں۔ سلمان تاثیر کے ہم
پیالہ ،ملکی سلامتی کو پنکچر لگانے والے اور عالمی سطح پر پاکستانی کی جگ
ہنسائی کے باعث نجم سیٹھی ، شمالی پہاڑیوں میں "کے ٹو" کے اس پار ہونے والے
ظلم پر چلانے والی فوزیہ سعید، سمندر کے پانیوں میں پھنسی ہوئی کشتیاں
نکالنے والے انصار برنی ، بال ٹھاکرے کی پاکستانی ورژن عاصمہ جہانگیر سمیت
بین الاقوامی انسانی حقوق کے نمائندے ابھی تک خوابِ خرگوش میں ہیں۔ "چِٹی
کلائیوں" والی سیاسی بازار کی ملکہ ِ حسن حال ہی میں " ذہبی اسنان "کے مالک
ایک شیخ جی کے نام منتقل ہو کر وجودِ نازنین کو آرام بخشنے کی غرض سے اسی
شہرِ شورش کے آس پاس خلوت نشین ہیں، سیاسی ایوان ہو یا ٹی وی چینل اس
موصوفہ کے شرمیلے نینوں کی وجہ سے پیرانِ وقت و شبابِ ملت نظارہِ دلربا
حسینہ کے بعد انگشت بدنداں و حواس باختہ نظر آتے ہیں۔ مخملی بستروں پر دراز
بعد از فراق نعمت وصال پانے والی اور رونق میڈیا و بازار کو ابھی تک خونِ
مسلم کے جلنے بلکہ خاک ہونے کی خبر یا تو ملی نہیں یا پھر لب سی دئیے گئے
ہیں۔
یعنی لاالہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کی اساس پر بننے والے ملک میں
عیسائیوں قادیانیوں اور ہندوؤں کے حقوق مقدم ہو گئے؟؟؟ قادیانیوں کی بکری
سڑک حادثے میں مر جائے تو خبر یہ لگتی ہے کہ"مسلم ٹرک ڈرائیور نے ایک
قادیانی کی بکری کچل ڈالی"۔ مغربی میڈیا رات کے پچھلے پہر اس خبر کو بریک
کرتا ہے۔ آسیہ مسیح توہینِ مذہب کرے تو یہ پانی سے پتلا اور مخنث مزاج
میڈیا اسے ذاتی لڑائی بنا کر پیش کر دیتا ہے۔ مگر لاہور میں دو کلمہ گو جلا
دئیے جائیں جن کی عظمت کعبۃ اللہ سے زیادہ ہے تو میڈیا کو الفاظ ہی نہ ملیں
؟؟؟
میڈیا کے خداؤ!!! یاد رکھو، میرے رب کی ذات کو بقا ہے، تمہارے بالا خانوں
میں بد شکلوں کو رنگ و روغن کر کے حسن و جمال کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے،
کلمہ حق کہنے والے کو خاموش کر دیا جاتا ہے، تمہارے الطافات و کرامات بر
دشمن دین و ملت ہیں۔ ایک وہ ویڈیو ہے جو تم اپنے ٹی وی کی سکرین پر چلاتے
ہو اور ایک وہ ویڈیو ہے جو خالق ارضا و سما، حاکمِ مطلق، ستار وغفار، قہار
و غفار رب عزوجل کی جناب میں ریکارڈ ہو رہی ہے، روزِ محشر یہ مظلوم بھی ہوں
گے، کل انبیاء کی جماعت بھی ہوگی، تمہاری وجہ سے لٹ جانے والے غریب بھی ہوں
گے اور سید المرسلین ﷺ بھی وہیں موجود۔۔۔۔ اس وقت چلائی جانے والی زندگی کی
ویڈیو تمہیں ذلیل و رسوا کر دے گی۔
قوم کو تقسیم کرنے والو!!! تم دیکھ چکے ہو کہ ماضی کی چند دہائیوں میں اس
ملک کو لوٹنے والے ایمان سلامت لے کر نہیں گئے، تفرقوں میں بانٹنے والے
فالج و لقوہ، قہر و غضب ، کوڑ و جزام کا شکار ہر کر علالت و مرگ کے بستر پر
کروٹ بدلنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان اللہ عزوجل کے رازوں میں سے ایک راز ہے،
مدینہ طیبہ کی نشانی ہے، اس کا ہر دشمن خاک آلود ہوا ہے اور ہوتا رہے گا۔
اس سرزمین پر ہونے والے ہر اچھے اور برے کام کو حقائق کے مطابق دیکھا اور
سنا جائے یہی آوازِ خلق ہے یہی تقاضائے قوم ہے۔ یہاں بسنے والا ہر سپید و
سیاہ، مسلم و غیر مسلم ایک "پاکستانی" ہے اور یہی شناخت ہمارے وطن کے اتحاد
و ترقی کی بنیاد ہے۔ کاش کہ یہ راز نیلی پیلی شکلوں اور بڑے بڑے میڈیا ہاؤس
چلانے والوں ابناء الوقت کو بھی سمجھ آ جائے ورنہ جان لیں کہ متاعِ دنیا
بہت قلیل ہے اور میرے رب کی نعمت پاکستان کو ان شریروں سے خطرہ ضرور لاحق
ہے مگر "وہ شمع کیا بجھے جسے روشن ہوا کرے"۔
مزید مضامین و علمی مواد کے لئیے ہمارا پیج لائک کیجئیے۔
www.facebook.com/IHR.Official
|
|