بزرگان دین کے وسیلہ سے دعا کرنے کا ثبوت
(Mohammad Rafique, Dera Nawab Sahib)
علما ء اہلسنّت والجماعت کے
مطابق اللہ تبارک و تعالیٰ سے وسیلہ کے ذریعہ سے دعا کرنے کے تین طریقے ہیں
پہلا یہ کہ کوئی شخص اپنے نیک اعمال کو بطور وسیلہ اللہ کی جناب میں پیش کر
سکتا ہے، دوسرا یہ کہ زندہ نیک لوگوں کو بطور وسیلہ پیش کرنا مثلاً کوئی
شخص اس طرح دعا کرے کہ اے باری تعالیٰ اپنے فلاں نیک بندے کے طفیل جس سے تو
محبت کرتا ہے میری یہ دعا قبول فرما اور اسکی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمررضی
اللہ تعالیٰ عنہ نے قحط کے زمانہ میں آنحضرت ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ کے وسیلہ
سے بارش کی دعای کی تھی۔(صحیح بخاری شریف)
اور وسیلہ کی تیسری صورت یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ان نیک بندوں کے
توسل سے دعا کی جائے جو کہ فوت ہو چکے ہیں جیسے انبیاء علیہم الصّلوۃ و
السلام، صحابہ کرام اور اولیاء عظام وغیرہم۔مثلاً کوئی شخص اس طرح دعا کرے
کہ باری تعالیٰ! اپنے فلاں پیارے پیغمبرﷺ کے صدقے سے میر یہ دعا قبول فرما،
یا یوں کہے کہ باری تعالیٰ میں تجھ سے تیر ے فلاں پیغمبر علیہ السّلام کے
وسیلہ سے دعا کرتا ہوں جو کہ تیر ا پیارہ بندہ ہے۔وسیلہ کی یہ صورت علماء
اہلسنت و الجماعت بشمول فقہ کے چاروں امام ابوحنیفہ ؒ ،امام شافعیؒ ، امام
احمد بن حنبلؒ اور امام مالکؒ کے نزدیک متفق علیہ ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عثمان بن حنیفؓ آنحضرت ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ
ایک نابینا شخص آنحضرت ﷺ کے پاس آیا اور بینائی لوٹانے کیلئے درخواست کی تو
آپﷺ نے اسے فرمایا کہ دو رکعت نماز نفل ادا کرو اور اس طرح دعا کرو کہ
’’باری تعالیٰ! اپنے پیغمبر حضرت محمدﷺ کے وسیلہ سے مجھے بینا کردے‘‘(تو
اسکی بینائی لوٹ آئی)۔(رواہ ترمذی)
آنحضرت ﷺ جب فوت ہو گئے تو انہیں صحابیؓ کے پاس ایک شخص آیا اسے کسی چیز کی
حاجت تھی تو انھوں اسے آپ ﷺ کے وسیلہ سے دعا کرنے کی درخواست کی۔(المعجم
الکبیر للطبرانی)
جو شخص اس طرح وسیلہ سے دعا کرتاہے وہ براہ راست اللہ تبارک و تعالیٰ سے
مانگتاہے اور اس شخص سے نہیں مانگتا اور اس میں جو مشترک چیز ہے وہ محبت
اور تعلق ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو اپنے اس بندہ سے محبت اور تعلق ہے ہے اسی
طرح مانگنے والے کو بھی اس اللہ کے نیک بندے سے محبت ہے اور تعلق ہے جس کے
وسیلہ سے وہ دعا کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں قابل غور بات یہ ہے کہ یہ ضروری
نہیں کہ ہر دعا کے وقت وسیلہ پیش کرنا ضروری ہے ورنہ دعا قبول نہ ہوگی بلکہ
دعا کا قبول کرنا اللہ تبارک و تعالیٰ کی مشیّت پر منحصر ہے وہ جس دعا کو
چا ہے قبول کر لے اور جسے چاہے رد فرما دے مگر چونکہ اس نے خود ہی قرآن پاک
میں فرمایا ہے کہ’’مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا‘‘(القرآن) اس لئے بہر
صورت دعا کی قبولیّت کی امید رکھنی چاہئے۔
جہاں تک کسی مومن مسلمان کے اپنے نیک اعمال کو بطور وسیلہ پیش کرنے کا تعلق
ہے تو اس کی دلیل یہ ہے کہ تین شخص کسی سفر پر جارہے تھے پہاڑی علاقہ تھا
اچانک بارش شروع ہوگئی انھوں نے بارش سے بچنے کیلئے ایک غار میں پناہ لے لی
اسی دوران ایک بھاری پتھر پہاڑسے گرا اور اس نے غار کا منہ بند کر دیا اور
وہ تینوں اندر قید ہو گئے۔انھوں نے اس مصیبت سے بچنے کیلئے باہم یہ فیصلہ
کیا کہ ہر شخص اپنے نیک اعمال کو جو اس نے اپنی گذشتہ زندگی میں کئے ہیں
انھیں یاد کرے اور انہیں بطور وسیلہ پیش کر کے للہ تبارک و تعالیٰ کی
بارگاہ میںیہ دعا کرے کہ وہ انکی وجہ سے انہیں اس مصیبت سے نجات دے۔
توایک شخص نے اپنا واقعہ سنانا شروع کیا اس نے کہا کہ میں بکریاں چرایا
کرتا تھا جب میں شام کو گھر واپس آتا اور دودھ دوہتا تو سب سے پہلے اسے
اپنے والدین کو پیش کرتا اور بعد میں اپنے بچوں کو دیتا۔ ایک روز مجھے
واپسی میں دیر ہو گئی اور جب میں بکریوں کا دودھ دوھ کر اپنے والدین کے پاس
گیا تو وہ سو چکے تھے میں دودھ کا پیالہ لئے ان کے سرہانے کھڑا رہا کہ
مبادہ وہ جاگیں اور دودھ کو نہ پائیں تو پریشان ہوں کافی دیر کے بعد وہ
جاگے تو میں نے انھیں دودھ پیش کیا اور پھر اپنے بچوں کو دیا۔ یہ واقعہ
بیان کرنے کے بعد اس شخص نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کی کہ اے باری
تعالیٰ! اگر میرا یہ فعل خالص تیری رضا کیلئے تھا تو ہم سے یہ مصیبت دور
فرما دیجئے۔ کہتے ہیں کہ اسکے نتیجہ سے وہ پتھر اپنی جگہ سے تھوڑا سا سرک
گیا۔
اب دوسرے شخص نے اپنا واقعہ بیان کیا۔اس نے کہا کہ میری کریانے کی دکان تھی
میری چچا زاد بہن جو کہ نہایت غرب تھی میری پاس گھر کا سودا سلف آٹا وغیرہ
لینے کیلئے آئی تو میں نے اسے سودا دینے کیلئے اس کے سامنے ایک شرط رکھی کہ
وہ میری خواہش کو پورا کرنے کا وعدو کرے تو میں اسے سودا دوں گا، اس نے
بادل نخواستہ میری شرط کو قبول کرلیا۔جب میں اسکے قریب ہوا تو اس نے کہا کہ
خدا سے ڈر اور میری عزت کو خراب نہ کر!یہ سن کر میں پرے ہٹ گیا اور برے
ارادہ سے باز آ گیا۔
پھر اس نے دعا کی کہ باری تعالیٰ اگر میرا یہ عمل خالص تیری رضا کیلئے تھا
تو ہم سے اس مصیبت کو دور کر دیجئے۔اس دعا کے نتیجے میں وہ پتھرتھوڑا سا
اور سرک گیا مگر ابھی وہ باہر نہیںآسکتے تھے۔
پھر تیسرے شخص نے اپنا واقعہ بیان کیا اس نے کہا کہ میں بکریاں چرایا کرتا
تھا ایک دن ایک شخص میرے پاس آیا اور مجھے کچھ رقم کاروبار میں شراکت کیلئے
دی میں نے اس کی رقم کی بکریاں خرید کر اپنے ریوڑ میں شامل کرلیں۔ کافی
عرصہ کے بعد وہ آیا اور مجھ سے اپنی اصل رقم اور جو کچھ منافع ہوا اس کا
مطالبہ کیا، تو میں نے اس سے کہا وہ بکریوں کا ریوڑ ہے لے جاؤ، اس نے کہا
کہ مجھ سے مذاق نہ کرو یہ سارا ریوڑ بھلا میرا کیسے ہو سکتا ہے؟ تو میں نے
اس سے کہا کہ میں تمہارے ساتھ مذاق نہیں کررہا یہ سارا بکریوں کا ریوڑ در
حقیقت تمہارا ہی ہے میں نے تمہاری رقم سے مال خرید ا وہ بڑھتے بڑھتے ریوڑ
بن گیا۔ لہٰذا وہ بکریاں لے کر چلا گیا۔
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد اس نے دعا کی کہ اے باری تعالیٰ! اگر میرا یہ
عمل خالص آپکی رضا کیلئے تھا تو ہم سے ہماری یہ مصیبت دور کر دیجئے۔ تو اس
دعا کے نتیجہ سے وہ پتھر اپنی جگہ سے پوری طرح سرک گیا اور وہ تینوں باہر
آگئے۔
یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی مومن شخص اپنے نیک اعمال کو اللہ
تعالیٰ کی بارگاہ میں بطور وسیلہ پیش کر کے اپنے لئے دعا کر سکتا ہے۔ |
|