زیور تعلیم سے آراستہ خواتین

حضرت علی کا قول ہے کہ اگر ایک مرد دین کا علم حاصل کرے تو دین اس کے گھر کی دہلیز تک پہنچتا ہے اور اگر ایک عورت دین کا علم حاصل کرے تو دین اس کی نسلوں تک پہنچتا ہے جس دن میں نے کہیں یہ پڑھا اسی دن کے اخبار میں ایک سروے رپورٹ شائع ہوئی کہ پاکستان میں 57%شادی شدہ خواتین اور29%شادی شدہ مرد ناخواندہ ہوتے ہیں۔اگر ہم اس سروے کو حضرت علی کے قول کی روشنی میں دیکھیں تو صورتحال اور زیادہ تشویشناک نظر آئے گی ،سروے دنیاوی تعلیم کے تناظر میں ہوا ہے جب کہ دین کی تعلیم کے حوالے سے یہ شرح 29%سے بہت کم ہو جائے گی ۔8مارچ کو خواتین کا دن منایا گیا ہے ۔اس پر بہت کچھ لکھا گیا مغرب میں یہ مختلف عنوانات پر دن کیوں منائے جاتے ہیں ایسا لگتا ہے مغربی معاشرے میں کچھ چیزیں گم ہو چکی ہیں صرف ان کی یادیں باقی رہ گئیں ہیں جیسے کہ "ماں"اس لفظ کا تقدس اور تصور ختم ہو چکا ہے اس لیے ماں کا دن منایا جاتا ہے ویسے تو اب وہاں صرف مائیں ہی پائی جاتی ہیں لیکن خاندان میں ماں کا تصور باپ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے ۔اسی طرح خواتین بھی اس معاشرے سے اوجھل ہو گئیں ویسے تو وہاں خواتین ہر جگہ نظر آتی ہیں اشتہارات میں بل بورڈز پر ناچ گھروں اور نائٹ کلبوں میں لیکن گھر اور خاندان جہاں آنے والی نسلوں کی تربیت ہوتی ہے وہاں سے یہ غائب ہو چکیں ہیں ۔پاکستان میں سروے کی روشنی میں اگر جائزہ لیا جائے تو ہمارے یہاں خواتین اور بالخصوص شادی شدہ خواتین کی اکثریت ناخواندہ ہے ۔اب جو خواتین خود تعلیم کے زیور سے محروم ہیں وہ اپنی اولادوں کو کس طرح تعلیم دلا سکیں گی۔لیکن یہ کوئی کلیہ نہیں ہے ماں کی گود تعلیم تربیت کا وہ مضبوط ادارہ ہے جہاں سے سیکھی اور یاد کرائی ہوئی چیزیں ساری زندگی ذہن میں محفوظ رہتی ہیں ۔تقسیم ہند سے قبل ہندوستان میں خواتین کے اندر تعلیم کا رجحان آج کے دور سے بھی بہت کم تھا لیکن ان کی تربیت کا نظام اتنا سخت تھا کہ بچوں کوکہ جب ان کی زبان تالو سے لگنا شروع ہوئی انھیں پہلے اﷲ کہلوانے کی مشق شروع کرادی جاتی تھی ،آج بھی بیشتر مائیں ایسا ہی کرتی ہیں۔

خواتین کے سالانہ دن منانے کے حوالے سے جب بحث آگے بڑھتی ہے تو ایک سوال ازخود یہ ذہن میں پیدا ہو تا ہے کہ وہ کون سا نظام ذندگی ہے جس میں خواتین کو بہت زیادہ حقوق دیے گئے ہیں ۔بعثت نبویﷺ سے قبل عرب میں عورتوں کی حالت زار کیا تھی ۔جانوروں سے بدتر زندگی تھی ان کے کوئی حقوق نہیں تھے ایک فرد ،دس دس بارہ بارہ شادیاں کرلیتا تھا کسی کے حقوق پورے نہیں ہو تے تھے اگر کسی خاتون کو طلاق دے دی تو پھر بھی اس کی جان نہیں چھوٹ پاتی تھی اس کا شوہر طلاق دینے کے بعد نہ اس کا خرچ اٹھاتا تھا اور نہ ہی وہ بے چاری دوسری شادی کر سکتی تھی ۔جب کسی شخص کا انتقال ہوتا تھا تو اس کی بیویاں بھی اس کے وارثوں میں ایسے ہی تقسیم کی جاتی تھیں جیسے اس کامال تقسیم کیا جاتا تھا ۔یہ تو اسلام ہے جس نے عورت کو وہ مقام دیا کہ مردوں کو پابند کیا کہ وہ چار سے زیادہ بیویاں بیک وقت نہیں رکھ سکتے شوہر کے مرنے کے بعد ان کی میراث والی حیثیت ختم کرکے انھیں وارثوں میں شامل کیا ۔پھر ایک نہیں بلکہ دو طرف سے وہ وراثت میں حصہ دار بنایا ایک باپ کی طرف سے دوسرے شوہر کی طرف سے ۔

آج مغربی معاشرے میں طلاق دینا آسان اور نکاح کو مشکل بنا دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں ان کا خاندانی نظام تیزی سے تباہی کی طرف جارہا ہے ۔اسلام میں طلاق کا اختیار صرف مرد حضرات کو حاصل ہے جب کہ مغرب میں خواتین کو بھی طلاق کے اختیار دینے کے نتیجے ہو یہ رہا ہے کہ وہاں ذرازرا سی بات پر بیویاں طلاق کے لیے عدالت سے رجوع کرتی ہیں ایک دفعہ میں اخبار میں خبر پڑھ رہا تھا کہ ایک خاتون اپنے شوہر سے صرف اس لیے طلاق لینے کے لیے عدالت پہنچی کہ انھیں یہ شکایت تھی ان کا شوہر رات کو جو خراٹے لیتا ہے اس سے ان کی نیند خراب ہوتی ہے ۔پھر وہاں طلاق حاصل کرنے والی خواتین کو ریاست کی طرف سے یہ حق دیا جاتا ہے کہ انھیں اپنے شوہر کی جائداد میں سے آدھا حصہ ملتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں لوگ شادیاں نہیں کرتے اور چونکہ انھیں ہر طرح کی آزادی حاصل ہے اس لیے وہ بغیر نکاح کے اپنی فطری تقاضے پورے کر لیتے ہیں ،کون اپنی جائداد میں سے نصف کسی اور کو دینے کے لیے تیار ہوگا۔

ایک مغربی دانشورکا قول ہے کہ" تم مجھے بہترین مائیں دو میں تمھیں بہترین قوم دوں گا"اسلام میں خواتین کی اصل ذمہ داری نئی نسل کی تیاری ہے ۔ضرورت کے وقت گھر سے باہر بھی نکلا جاسکتا ہے ۔آخر ایک نبی حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیاں پانی بھرنے کے لیے گھر سے باہر نکلی تھیں اور پانی بھرنے آئیں تھیں اس کا ذکر تفصیل سے قرآن میں موجود ہے ۔عورت کا اصل زیور اس کی شرم و حیا ہے قران میں حضرت شعیب علیہ السلام کی ایک بیٹی ذکر اس طرح ہے کہ وہ شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی حضرت موسیٰ کے پاس آئیں کہ آپ کو ہمارے والد بلارہے ہیں ۔وہاں مجبوری تھی کہ نبی کا کوئی بیٹا نہ تھا اس لیے اکیلے ایک جوان بچی گھر سے ایک جوان مرد کو بلانے کے لیے آئی لیکن قران شرم وحیا کا ذکر اس لیے کیا کہ یہی ایک عورت کا اصل زیور ہے ۔
آج پاکستان میں خواتین کئی مسائل کا شکار ہیں ہمارے دیہاتی ماحول میں عجیب عجیب رسمیں جس میں جائداد کے چکر عورتوں کو ان کے حقوق سے محروم کیا جاتا ہے ۔بلکہ ہمارے شہری علاقوں میں بچیوں کو باپ کی جائداد میں حصہ دینے کا تصور نہیں تھا اس کی اب دھیرے دھیرے اصلاح ہو رہی ہے ورنہ یہ کہہ دیا جاتا تھا ایک لڑکی کو جو جہیز دے گیا ہے وہی اس کا وراثت کا حصہ ہے ۔

بعثت نبویﷺ سے قبل بچیوں کو زندہ گاڑ دیا جاتا تھا ۔اسلام نے جو تعلیمات دی ہیں اس میں مثال کے طور ایک حدیث پیش خدمت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اپنی دو بیٹیوں کی اچھی اور دینی انداز میں تربیت کی اور پھر ان کی شادی کی تو ایسا شخص جنت میں میرے ساتھ ہو گا ۔آپ ﷺ جب گھر تشریف لاتے تو جو کچھ گھر کے لیے لاتے وہ پہلے حضرت بی بی فاطمہ کو دیتے ۔آج بھی جس گھر میں بیٹیاں ہوتی ہیں اس گھر میں ایک رونق سی محسوس ہوتی ہے اسی بچیوں کی پیدائش کو رحمت کہا گیا ہے ۔

آج پاکستان میں ایسی بہت سی این جی اوز ہیں جو خواتین کی آزادی کے نام پر اخلاقی بے راہ روی کو فروغ دینا چاہتی ہیں ہماری موبائل کمپنیاں اس میں بہت آگے بڑھ کر کام کررہی ہیں ایسے ایسے پیکیج متعارف کرائے جارہے ہیں کہ جس میں بہت کم پیسوں میں ایک لڑکا اور لڑکی آپس میں بات چیت کر سکتے ہیں ۔پھر انٹر نیٹ نے رہی سہی کسر پوری کردی ۔خواتین کے دن کے حوالے سے ہم والدین سے یہی گزارش کریں گے وہ اپنی بچیوں کو بوجھ نہ سمجھیں بلکہ انھیں اﷲ کی طرف سے رحمت سمجھتے ہوئے ان کی بہتر تربیت کی طرف توجہ مبذول رکھیں ۔لڑکی ہو یا لڑکا دونوں کو آپ وہ امتحانی پرچہ سمجھیں جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو حل کرنے کے ملا ہے کہ آپ اپنی پوری زندگی ان امتحانی پرچوں کو اچھی طرح حل کرنے میں لگادیں تو آخرت میں اس کا بہترین اجر ملے گا ایک حدیث کے مطابق انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کی مہلت ختم ہو جاتی ہے لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا اجر و ثواب تا قیامت ملتا رہے گا اس میں ایک نیک اولاد کا ہونا ہے ۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 56409 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.