تختی اور سلیٹ
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
تحریر انسان کی شخصیت کی آئینہ
دار ہوتی ہے اس کی شخصیت اس کی فطرت اور عادات کو نمایاں کرتی ہے اس کی
ذہنی کیفیات اور دلی جذبات کا اظہار ہوتی ہے۔ اچھی لکھائی اور خوش خطی سے
انسانی پہلوؤں سے متعلق معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک کے محکمہ تعلیم
کو بھی اس بات کا ادراک ہوچلا ہے یہی وجہ ہے کہ یکم اپریل 2015 سے پنجاب
بھر کے تعلیمی اداروں بالخصوص سکولز میں پہلی سے تیسری جماعت تک کے طلبا و
طالبات کیلئے اردواور انگریزی کی لکھائی کوکلاسز کو لازمی قرار دے دیا گیا
اور اس کے احکامات بھی جاری کردیئے گئے ہیں اس حوالے سے ایک پیریڈ بھی
مخصوص کرنے کے احکامات صادر فرمادیئے۔ واضح رہے کہ 2005 محکمہ تعلیم نے
سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا و طالبات کو تختی اور سلیٹ کے
استعمال سے روک دیا تھا اور ہاتھوں میں پین اور کاپی تھمادی تھی جس کی وجہ
سے خوش خطی ا ور خوش نویسی کا فقدان نظر آرہاہے اور والدین بالخصوص غریب
والدین پر ایک اضافی بوجھ بھی ڈال دیا گیا تھا اور اس بوجھ سے بچنے کیلئے
بہت سے بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے سے محروم رہ گئے تھے۔اس بات کو
ماہرین تعلیم (حقیقی) نے تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا تھا ان کے مطابق جس
طرح سے انسان کا پہناوااور اس کی گفتگو کرنے کے انداز سے اس کی شخصیت کو
جانچا جاسکتا ہے اسی طرح سے تحریر اورخوش نویسی انسان کی شخصیت کی عکاس
ہوتی ہے۔
قلم (لکھائی )کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اﷲ تعالی
فرماتے ہیں علم بالقلم(قلم کی مدد سے انسان کو سکھایا) ۔یعنی کہ جب سکھانے
کی بات کی تو اس میں قلم کا ذکر ہوا۔حضور اکرم ؐ نے لکھنے پڑھنے کے حوالے
سے فرمایاجس کا مفہوم یہ ہے کہ قیدی لوگ مسلمانوں کے بچوں کو پڑھانے کے
ساتھ ساتھ لکھنا سکھا کر قید سے چھٹکارا پاسکتے ہیں ۔ حضرت علی کرم وجہہ کا
قول ہے کہ اپنی اولاد کو خوش خطی سکھاؤ کہ یہ رزق کی چابیوں میں سے ہے۔ اب
آگے چلتے ہیں مغلیہ دور میں ڈرائنگ اور خطاطی کیلئے بہت کام کیا گیا۔
شہنشاہ جہانگیر نے خطاطی کو فروغ دیا اور اس کی اہمیت اور افادیت یوں بیان
کی کہ خطاطی علم کا زیور ہے اس کے بغیر علم ادھورا ہے۔ برصغیر میں حکومت
برطانیہ نے امام ویردی سے تختیاں لکھوائیں اور انہیں انگلینڈ بھیج کر ا ن
کی بہت سے نقول بناوائیں اور پھر انہیں لوگوں میں تقسیم کروادیا تاکہ لوگ
اپنی تحریر کو خوش خط اور قابل دید بنا سکیں۔تحریر کی خوبصورتی اور خوش
نویسی کی افادیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہوسکتا ہے کہ ایران میں طالب
علم کو میٹرک کی سند اس وقت تک جاری نہیں کی جاتی جب تک کہ طالب علم خوش
نویسی کی سند حاصل نہ کرلے۔ چائنا میں2004 اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ
ججز کی تقرری اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کے پاس خوش خطی کی کوئی
سند نہ ہو۔مختلف ادوار میں عدالتوں بادشاہوں کے درباروں دفاتر اور دوسرے
محکمہ جات میں الگ الگ انداز کے رسم الخط رائج تھے۔جس کی وجہ سے بھی خوش
نویسی اور خوش خطی کو فروغ ملا۔ صادقین بہت بڑے مصور گزرے ہیں پینٹنگ کے
بعد جب انہیں تحریرلکھنا ہوتی تھی جو وہ خطاط لوگوں کی خدمات حاصل کرتے تھے
لیکن وہ لوگ ان سے تعاون نہ کرتے اس بات سے تنگ آکرانہوں نے اپنے انداز میں
آزادانہ خط جو کہ روایات کے زیر اثر تھا ایجاد کیا۔ اور وہ اس بارے میں
کہتے ہیں کہ اگر مجھے خط کے بارے میں معلومات نہ ہوتیں تو شاید میں مصوراور
خطاط نہ بن پاتا کیونکہ خط ہی ابتدائی سیڑھی ہے خوش نویسی کی۔
جب سے پین کاپی اور کمپیوٹر نے ڈیرہ جمایا ہے اس وقت سے عجیب سی صورت حال
پیدا ہوگئی ہے ہم لوگ آدھا تیتر آدھا بیٹر کی سی کیفیات کا شکار ہیں اب نہ
ہی تو ہمیں خط(قلم اور سیاسی) پر دسترس حاصل ہے اور نہ ہی ہم لوگ کمپیوٹر
کو پوری طرح سے اپنے روزمرہ کے معمولات استعمال کرنے کے قابل ہوسکیں
ہیں۔ہماری گورنمنٹ اور اربات اختیار جب جی چاہتا ہے ایک آرڈر پاس کرتے ہیں
کہ یوں کردو اور یوں کرنے کے چکر میں سارا بیڑا غرق ہوجاتا ہے۔ انگلش اور
اردو میڈیم کی تکرار نے ہمارے طلبا کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو بھی گھن چکر بنا
کر رکھ دیا ہے ۔ سال گزرتا ہے تو ہم پر انگریز بننے کا بھوت سوار ہوجاتا ہے
اور پرائمری سے ہی انگریزی کو لازمی قراردے دیتے ہیں لیکن اساتذہ اور
پڑھانے کے ماہر ندارد۔ پھر کبھی ہم میں قومی زبان سے محبت کا سمندر ٹھاٹھیں
مارتا ہے اور ہم اردو دانی کہ رائج کرنے پر تل جاتے ہیں لیکن وہی دھاک کے
تین پاٹ کے مصداق کچھ نہیں بن پڑتا۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا کہ ایک سال
میں دو دو مرتبہ سلیبس کو تبدیل کیا گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اس
ڈانواں ڈول والی کیفیت سے نکلنا ہوگا واضح اور غیر مبہم فیصلے مکمل اور
جامع منصوبہ بندی کے تحت کرنا ہونگے۔اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ہر
سکول میں گورنمنٹ ہو کہ پرائیویٹ اس کانفاد کرانا ہوگا ۔ مانیٹرنگ روایات
سے ہٹ کر کرنا ہوگا صرف کاغذات کی خانہ پری ہمارے اہداف نہیں ہونا چاہئیں۔
اس عمل سے تحریر کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے
والی 40 فیصد آبادی کو بھی اپنے بچوں کے پڑھانے کاموقع میسر آسکے گا کیونکہ
پین پنسل اور کاپی کا اضافی بوجھ اس میں بڑی رکاوٹ بنتا ہے۔ہمیں امید واثق
ہے کہ اساتذہ ان کی یونینز ان فیصلے کی تائید و حمایت بھی کریں گے اور اس
پر عمل درآمد میں اپنی کاوشوں کو شامل کریں گے تاکہ ایک بہتر طالب علم بہتر
معمار قوم تیار کرنے میں آسانی میسر آسکے۔ |
|