یونیسکو کی تحقیق کے مطابق
دنیا میں ہر دس بچوں میں سے ایک بچہ جو سکول نہیں جاتا اس کا تعلق پاکستان
سے ہے ۔پاکستان میں تقریباََ 5.5ملین بچے سکول نہیں جاتے جس کی وجہ غربت
،افلاس او ر ہوشربا مہنگائی ہے ۔صرف 23فیصد بچے جن کی عمریں 16سال تک ہیں،
سکول جاتے ہیں ۔10.5ملین بچے ایسے ہیں جن سے جبری مشقت لی جاتی ہے تاکہ گھر
کا معاشی نظام چل سکے ۔
یونسیف کے مطابق 17فیصد سے زیادہ پاکستانی بچے اپنا اور اپنے خاندان والوں
کا پیٹ پال رہے ہیں۔10.5ملین مکمل ان پڑھ ہیں یہاں تک کہ گلیوں اور فٹ
پاتھوں پر رہتے ہیں ۔19ملین بچے انتہائی غربت اور افلاس کی وجہ سے سکول کی
شکل نہیں دیکھ پاتے ۔تقریباََ 85فیصد سے زیادہ ایسے پاکستانی بچے جن کی
عمریں سکول جانے کی ہوتی ہیں وہ صرف گورنمنٹ سکول تک ہی رسائی رکھ پاتے
ہیں۔
سیکھنے اور جاننے کے عمل کو ایجوکیشن(تعلیم) کہتے ہیں ۔اور تعلیم ہر انسان
کا بنیادی حق ہے پڑھ لکھ کر ہی ایک قوم مضبوط بنتی ہے تعلیم کسی قوم کی
ترقی میں ایک بھرپور کردار اد اکرتی ہے اور کامیابی کی طرف گامزن کرتی ہے
پاکستان ان ممالک میں سرِ فہرست ہے جہاں بہت سارے تعلیمی مسائل درپیش
ہیں۔پاکستان کا موجودہ تعلیمی ڈھانچہ کمزوریوں سے بھرا پڑا ہے پاکستان ان
ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے جہاں اچھی تعلیم کا فقدان ہے اور پاکستانی قوم
اچھی تعلیم سے محروم ہے یہاں کا ایجوکیشن سسٹم انٹرنیشنل معیار کا ہے ہی
نہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام اور نصاب اتنا کمزور ہے کہ وہ ہماری معاشرتی عکاسی
ہی نہیں کرتا ۔ اور اس پر دوہرا تعلیمی معیار، جب تک پاکستان میں دوہرا
تعلیمی معیار موجودر ہے گا ،ہمارا تعلیمی ڈھانچہ اسی طرح مخدوش حالت میں ہی
برقرار رہے گا۔اور صدیو ں تک ہم ذلت اور پستیوں کی دلدل میں دھنسے رہیں گے-
دوہرا تعلیمی معیار کیا ہے آئیے اس پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
پاکستان میں دو قسم کے تعلیمی معیار یا سٹیٹس ہیں ایک پبلک سکول یا گورنمنٹ
سکول ہیں جس میں عام لوگ یا عوام یا غریب غربا کے بچے پڑھتے ہیں دوسرا
ایلیٹ کلاس یا پرائیویٹ سکول ہیں جس میں امیر لوگ یا عوام الخاص یا امراء
کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
پبلک سکول یاگورنمنٹ سکول
یہ سکول گورنمنٹ کی طرف سے قائم کئے گئے انتظامی اور مالی معاملات کے تحت
چلائے جاتے ہیں بدقسمتی سے بہت سارے سکول گورنمنٹ کی ناقص پالیسیوں اور عدم
توجہی کے باعث مالی بدعنوانیوں اور زبوں حالی کا شکار ہیں ان سکولوں میں
اساتذہ کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، اس کی وجہ پسند نا پسند پر اساتذہ کی
بھرتیاں اور تبادلے، پرانی عمارتیں، ناقص سہولیات، معیاری نصاب اور اساتذہ
کی عدم دستیابی، فنڈز کی کمی اور اس میں کرپشن ، محکمہ تعلیم سے منسلک
اعلیٰ حکام کی عدم توجہی جیسے گھمبیرمسائل ان سرکاری سکولوں سے جڑے ہوئے
ہیں۔ آپ کبھی اپنے ارد گرد موجود کسی سرکاری سکول میں چلے جائیں تو آپ کو
محسوس ہو گا کہ آپ کسی بھوت بنگلہ میں آ گئے ہیں یا آپ کوئی آثارِ قدیمہ
دیکھ رہے ہیں بوسیدہ عمارتیں،ٹوٹی پھوٹی دیواریں،گھن زدہ کھڑکیاں اور
دروازے،گندے پانی اور جوہڑوں سے اٹے میدان،اور تعلیمی سرگرمیوں کا حال یہ
ہے کہ سکول میں بچے تو ہیں مگر استاد موجود نہیں استاد کیوں موجود نہیں
کیونکہ اس کے پیچھے ہاتھ تگڑا ہے اس کی بھرتی سیاسی ہوئی ہے اس لئے اس کا
سکول آنا کوئی ضروری نہیں وہ گھر بیٹھے ہی ہڈ حرامی سے تنخواہ وصول کر رہا
ہے۔کیونکہ ہمارے ہاں اقرباء پروری اور سیا سی وابستگی ہی اعلیٰ معیار
گردانی جاتی ہے۔ استاد کیا ہوتا ہے ہمارے ہاں اس کی مثال یوں دی جاتی ہے
جیسے کہ کوئی شخص بہت زیادہ چالاک اور ہوشیار ہو۔دھوکہ دہی اور فراڈ میں
مہارت رکھتا ہو تو ایسے بندے کو کہا جاتا ہے کہ" تُو بڑا استاد ہے بھائی"
یا "زیادہ استادیاں نہ کر "وغیرہ وغیرہ حالانکہ استادایک باعزت رتبہ ہے
معاشرے میں استاد کا ایک اعلیٰ مقام ہوتا ہے اس نے آنے والی نسلوں کی تربیت
و اصلاح کرنی ہوتی ہے لہذا ایسے ہی لوگوں کو جو کہ ہماری اصطلاح میں"
استاد" ہوتے ہیں ان کے ہاتھوں میں ہم معاشرے کی اہم ذمہ داری سونپ دیتے ہیں
رشوت اور سفارش کے بل بوتے پر ہم ان کو پرکھتے ہیں۔ان کی کیا تعلیم ہونی
چاہئے ۔؟اس کی قابلیت اور اہلیت کا معیارکیا ہے۔؟ کیا وہ جو مضامین بچوں کو
پڑھا رہا ہے اس میں اس کو دسترس حاصل ہے ۔؟ کیا وہ طلبا کی سوچ اور ان کے
ذہنی رجحان کے مطابق ان کی تربیت کرنے کی اہلیت رکھتا ہے ۔؟کیا وہ طلبا کو
ایک اچھی اور مثبت سوچ دے سکتا ہے ۔؟ مگر ان باتوں سے ہمیں کوئی سروکار
نہیں ۔ میٹرک اور مڈل پاس کو ہم نے قوم کا مستقبل سنوارنے کا ٹھیکہ دے دیا
ہے ۔جب قوم کی تقدیر ایسے نااہل اور جاہل استادوں کے ہاتھوں میں دے دی جائے
گی تو انجام بھی تو ہمارے سامنے ہے ناں، علامہ اقبال کو روز محشر یہ قوم
کیا منہ دکھائے گی جنھوں نے اس قوم کو مخاطب کرکے یہ کہا تھا کہ۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
ہمارے ہاں سرکاری سکولوں کی کوئی مانیٹرننگ نہیں ہے کوئی جواب دہی نہیں ہے
جس کے جی میں جو آئے وہ من مانی کرتا ہے سیاسی اساتذہ کرام اول تو سکول آتے
ہی نہیں ہیں اگر آتے ہیں تو کلاس میں بچوں کو پڑھانے کی بجائے آپس میں خوش
گپیاں لگا کر گھروں کو چلے جاتے ہیں اور بعض علاقے تو ایسے ہیں کہ وہاں
سکول کی عمارت تو موجود ہے اور طالبعلم بھی موجود ہیں مگر استاد نہیں ہے
کیونکہ سکول میں طلبا ء کی تعداد تو 400ہے مگر استاد صرف دو ہیں کیونکہ
کوئی استاد ایسی جگہ اپنی تعیناتی نہیں کروانا پسند کرتا جہاں بچوں کی
تعداد زیادہ ہو اور اس کو کوئی محنت کرنی پڑے اور اکثروبیشتر استاد ہی سکول
میں نہیں آتے۔ گھوسٹ سکولوں کے گھوسٹ اساتذہ کرام کی بہت بڑی تعداد ہر ماہ
تنخواہیں اور فنڈز باقاعدگی سے گھر بیٹھے وصول کر رہے ہیں بلکہ گھر بیٹھے
ہی نہیں "قبروں" میں لیٹے بھی وصول کر رہے ہیں۔استادوں کو اس جہان ِفانی سے
کوچ کئے ہوئے ایک عرصہ بیت گیا ہے مگر ان کے نام سے فنڈز اورباقاعدہ
تنخواہیں محکمہ کی ملی بھگت سے وصول ہو رہی ہیں ۔
سرکاری سکولوں کی عمارات کھنڈر کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہیں نہ فرنیچر نہ
بجلی نہ پانی ٹوٹی پھوٹی دیواریں،کچے فرش ،کمزور چھتیں،بدبودار کمرے اور
گندے پانی سے بھرے میدان ایسی حالت میں کوئی امیر شخص کیسے اپنے بچوں کو
سرکاری اداروں میں پڑھائے گا۔ دیہی علاقوں میں تو مقامی وڈیروں اور بااثر
زمینداروں نے سرکاری سکولوں میں شادی ہال ،اوتاق،بیٹھک یہاں تک کہ مویشیوں
کے لئے باڑے تک بنائے ہوئے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ ہے سٹینڈرڈ
ہمارے سرکاری سکولوں کا نصاب جتنے مرضی جدید لے آؤ تعلیم جتنی مرضی مفت کر
لو تنخواہیں جہا ں تک مرضی بڑھا دوجب تک سکولوں کی حالتِ زار نہیں بدلو گے
جب تک سکولوں کی چھان پھٹک نہیں رکھو گے جب تک مقامی محکموں کو فعال نہیں
کرو گے جب تک اقرباء پروری اور سیاسی اثرو رسوخ ختم نہیں کرو گے ۔کرپشن کو
جڑ سے اکھاڑ نہیں پھینکو گے تب تک تعلیمی انقلاب نہیں آ سکتا،تب تک ہم
پستیوں سے قریب اور بلندیوں سے کوسوں دور ہیں ۔اگرآپ یکساں تعلیمی نظام
لانا چاہتے ہیں تو آپ کو پہلے ایسا ماحول فراہم کرنا ہوگا جس میں امیر اور
غریب کا بچہ ایک ہی چھت تلے بیٹھ کر تعلیم حاصل کر سکیں۔اور یہ جو دو طبقوں
کے درمیان خلیج حائل ہے یہ تبہی مٹ سکتی ہے جب ہم تعلیمی اصلاحات نافذ کریں
۔
ایلیٹ کلاس سکول(پرائیویٹ سکول)
سرکاری سکولوں سے عدم توجہی اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث ناکام ہونے کی
وجہ سے پرائیویٹ سکول سسٹم پاکستان میں بہت کامیاب اور منافع بخش کاروبار
بن چکا ہے آج یہاں تک کہ غریب بھی اپنے بچوں کو ان پرائیویٹ سکولوں میں
داخل کروانے کا خواہشمند ہے مگر کیونکہ ان پرائیویٹ سکولوں کی مہنگی فیسوں
کی وجہ سے غریب کا بچہ ان سکولوں میں نہیں پڑھ سکتا صرف خواب دیکھ سکتا ہے
کیونکہ پرائیویٹ سکولوں کا معیار اور ڈسپلن سرکاری سکولوں سے انتہائی بہتر
ہوتا ہے پرائیویٹ سکولوں میں باقاعدہ چیکنگ کا نظام،جواب دہی اور شفافیت
بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں ۔سٹاف انتہائی پڑھا لکھا اورمحنتی ہوتا ہے صاف
ستھرا ماحول ،خوبصورت پلے گراؤنڈز اور ٹرانسپورٹ کا بہترین انتظام ہوتا ہے
بچوں کی روحانی تربیت کے ساتھ ان کی اخلاقی اور سماجی تربیت پر بھی خصوصی
توجہ دی جاتی ہے ان سکولوں میں بھی غریب اور لائق بچوں کے لئے چند سیٹیں
مخصوص ہوتی ہیں لائق بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے
یہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہمارے کمزور تعلیمی ڈھانچہ کو کافی حد تک سنبھالے
ہوئے ہیں مگر اسی وجہ سے ان تعلیمی اداروں نے اپنی اجاراداری قائم کر لی ہے
چند ایک اچھی شہرت کے حامل تعلیمی اداروں کو چھوڑ کر باقی تعلیمی ادارے وہ
تمام سہولیات بچوں کو مہیا نہیں کر رہے جس کی وہ بھاری بھر کم فیسیں وصول
کر رہے ہیں ۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے متعلق حکومتی پالیسی کے مطابق نہ
تویہ اس معیار پر پورا اترتے ہیں اور ہزاروں سکول ایسے ہیں جو حکومتی
ریکارڈ میں رجسٹرڈ نہیں ہیں ۔
یہ سکول، والدین سے فیسوں کے علاوہ امتحانات، تقریبات،بے جا کے جرمانے اور
سکیورٹی کے حوالے سے روزانہ،ماہانہ اور سالانہ کی بنیاد پر بھاری رقمیں
وصول کرتے ہیں مگر سہولیات کچھ نہیں دیتے۔اور سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ
گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران فیس لینا کہاں کا انصاف ہے میرے نزدیک یہ فیس
نہیں بلکہ بھتہ ہے اس کا سدِباب ہونا اس قوم پر ایک بہت بڑا احسان عظیم ہو
گا ۔اربابِ اختیار کو اس پر سخت ایکشن لینا چاہئیے۔
محکمہ تعلیم کے افسران بھاری بھر کم سہولیات لینے کے باوجود ان کی کارگردگی
صفر ہے ۔سارا دن آفس میں موجود نہیں ہوتے فیلڈ میں کام کر رہے ہوتے ہیں مگر
کہاں کوئی نہیں جانتا سوائے اس کے کہ کارگردگی پھر بھی صفر۔حالانکہ سکولوں
کی ان حالتِ زار کے یہ ہی ذمہ دار ہیں کیونکہ سرکار نے ان کو یہ ذمہ داری
سونپی ہے مگر پھر بھی یہ اپنے آپ کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتے کیوں۔؟
پاکستان میں تعلیمی معیار کیسے بڑھایا جاسکتا ہے۔۔؟
گورنمنٹ کو ایجوکیشن سسٹم کی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے انتہائی منظم
منصوبہ بندی کرنی چاہئے سب سے پہلے گورنمنٹ کو تعلیمی فنڈز کو بڑھانا چاہئے
پاکستان کے تمام صوبوں میں ایک ہی سلیبس ہونا چاہئے تاکہ طالبعلم کو
یونیورسٹی لیول کی discriminationکا سامنا نہ کرنا پڑے۔پرائمری اور سکینڈری
ایجوکیشن کے معیار کو بہتر کرنا چاہئے گورنمنٹ سکول کا معیار وہی ہونا
چاہئے جو کہ اچھے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا ہے ٹیکنیکل ایجوکیشن تمام
کلاسوں میں لازمی قراردی جائے۔ یونیسکو کی تحقیق کے مطابق یونائیٹڈ نیشن کے
120رجسٹرڈ ممبران میں سے پاکستان کا نمبر 113واں ہے ۔گورنمنٹ آف پاکستان اس
بات کی پابند ہے کہ وہ فری تعلیم اور لازمی تعلیم پاکستانیوں کو مہیا کرے۔
لہذا مفت تعلیم عام کی جائے ۔ نظام تعلیم کی ناکامی کی اور بہت ساری وجوہات
میں سے ایک بڑی وجہ پرائمری سطح پر کم تعلیم یافتہ اساتذہ کی تعیناتی
ہے۔لہذا پڑھے لکھے اور قابل لوگوں کو اس شعبے میں لایا جائے ۔ سکولوں میں
کم از کم یونیورسٹی لیول کے اساتذہ کرام میرٹ پر بھرتی کئے جائیں ان کو
اچھی تنخواہ اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کی جائیں ۔ اساتذہ کے لئے
ٹریننگ ورکشاپ کا لازمی انتظام کیا جائے اور اس میں اساتذہ کی حاضری کو
یقینی بنایا جائے ۔سیاسی تقرریوں اوراقربا پروری سے پرہیز کیا جائے صرف اور
صرف میرٹ کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔ای ڈی اوز اور ڈی ڈی اوز کو روزانہ کی
بنیاد پر سکولوں کا سروے کرنے کا پابند کیا جائے ۔ سکولوں کی دیکھ بھال اور
ان کی ضروریات کا خاص خیال رکھا جائے ،اساتذہ کی حاضری سکولوں میں یقینی
بنائے جائے، بری شہرت کے حامل افسران کو برخاست کرکے اچھی شہرت کے حامل
افسران کو ڈیوٹی پر مامور کیا جانا چاہئے۔جب تک کسی ادارے میں مانیٹرنگ کا
نظام قائم نہیں کیا جائے گا تب تک اس ادارے کی کارکردگی سوالیہ نشان رہے
گی۔ اگر بہترین اصلاحات کی جائیں تو یہی سکول بہترین بزنس دے سکتے ہیں
کیونکہ مہنگا ترین بنیادی ڈھانچہ جیسا کہ زمین،عمارت اور بنیادی سامان پہلے
سے ہی موجود ہیں ایک کامیاب اصلاحاتی پروگرام ان سرکاری سکولوں پر بہت اچھا
اثر ڈالے گا ۔
حکومتِ پاکستان کو چاہئے کہ آگے بڑھ کر پاکستان کے ایجوکیشن سسٹم میں
unityلائے ہر امیر اور غریب کے بچے کو ہر پاکستانی کو ایک ہی تعلیمی ماحول
ملنا چاہئے فنڈز صرف مستحق اور غریب طالبعلم بچے کو ہی ملنے چاہئیں اگر
ہمارا ایجوکیشن سسٹم مظبوط ہو گیا تو تب ہی ہمارا ملک اقتصادی اور معاشرتی
طور پر مظبوط ہو گا ۔انشاء اﷲ |